دعوتِ فکر
تحریر۔فداعلی عارف
(اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیاہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔
دعوت الی الحق دو بنیادوں پر استوار ہے: ایک حکمت اور دوسری موعظہ حسنہ۔ حکمت یعنی حقائق کا صحیح ادراک۔ لہٰذا حکمت کے ساتھ دعوت دینے سے مراد دعوت کا وہ اسلوب ہو سکتا ہے جس سے مخاطب پر حقائق آشکار ہونے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ دعوت کو حکیمانہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مخاطب کی ذہنی و فکری صلاحیت، نفسیاتی حالت، اس کے عقائد و نظریات اور ماحول و عادات کو مدنظر رکھا جائے۔ موقع و محل اور مقتضی حال کے مطابق بات کی جائے کہ مخاطب کو کون سی دلیل متاثر کر سکتی ہے اور اس بات پر بھی توجہ ہو کہ ہر بات ہر جگہ نہیں کہی جاتی بلکہ ہر حق بات ہر جگہ نہیں کہی جاتی۔ جیساکہ ہر دوائی سے ہر مرض کا علاج نہیں کیا جاتا بلکہ ہر صحیح علاج بھی ہر مریض کے لیے مناسب نہیں۔ اگر مریض کا معدہ اس دوائی کو ہضم کرنے کے قابل نہ ہو۔ جیساکہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تبلیغ اسلام میں تدریجی حکمت عملی اختیار فرمائی اور شروع میں صرف قولوا لاَ اِلہ اِلا اللہ تفلحوا پر اکتفا فرمایا۔ چونکہ یہ حکیمانہ تقاضوں کے منافی تھا کہ نظام شریعت کے تمام احکام بہ یک وقت تبلیغ اور نافذ کیے جاتے۔ ال?مَو?عِظَ?ِ ال?حَسَنَ?ِ: موعظہ کے ساتھ حسنہ کی قید سے معلوم ہوا کہ موعظہ غیر حسنہ بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس دعوت میں ہر قسم کا موعظہ درکار نہیں ہے۔ مثلاً وہ موعظہ جس میں واعظ اپنی بڑائی دکھانا چاہتا ہے، مخاطب کو حقیر سمجھتا ہے یا صرف سرزنش پر اکتفا کرتا ہے۔ موعظہ حسنہ کے لیے سب سے پہلے خود واعظ کا اس موعظہ کا پابند ہونا ضروری ہے، ورنہ اس کا موعظہ موثر نہ ہو گا، بلکہ ایسا کرنا قابل سرزنش ہے۔
جس طرح شوال کے چاند?? نے مسلمانوں میں ایک بحث چھیڑنے کا موقع دیا اسی طرح عیدالفطر کے موقع پر جناب آغا راحت صاحب کی طرف سے سنی مکاتب فکر کو مناظرے کی دعوت اور بعض شدت پسند سنی مولیوں کی طرف سے سخت لہجے اور جذباتی ردعمل نے تمام مسلمانوں میں بے چینی کی لہر دوڑا دی ہے۔ آج کے اکیسویں میں مسلمانوں کے تمام طبقے اور مذاہب اس نہج پر پہنچ گئے ہیں جس میں اخوت، رواداری، یگانگت، اتفاق و اتحاد، دینی ہمدردی، بھائی چارگی، محبت، برداشت، تحمل جیسی چیزیں مفقود ہوتی جارہی ہیں اور اس کی جگہ تنگ نظری، شدت و انتہا پسندی، جذبات، فرقہ واریت، تعصب، دین کے نام پہ دنیوی مفادات جیسی برائیوں نے لے لی ہے۔ ایسے حالات میں لوگ مناظرے اور مجادلے کی باتوں کے متحمل نہیں ہیں۔ ویسے بھی اگر اسلام کی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام نے ہمیشہ اسلام کی حقانیت پر اٹھائے گئے سوالات کے واضح طور پر عقلی و نقلی دلائل کے ذریعے جوابات دیے ہیں پہل نہیں کیے ہیں۔ تمام انبیاء کرام نے ہمیشہ دین خالص کی دعوت دی ہے۔
مسلمانوں کی کوئی بھی تاریخی کتاب سو فیصد درست نہیں۔ ان حقائق کے تمام مسلمان اکابرین، محققین، دانشور اور مصنفین تسلیم کرتے ہیں۔ لکھنے والوں میں کوئی بھی فرشتہ صفت انسان نہیں تھا۔ لھذا لکھاریوں نے سب کچھ لکھ ڈالا ہے۔ ہر مذہب کے ماننے والوں کے پاس اپنی دلائل ہیں جو اپنے لیے حجت اور دوسروں کے لئے قابل قبول نہیں ہوتیں۔
آج کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے مکاتب کی مستند کتابیں پڑھتے ہیں نہ دوسرے مکاتب فکر کی۔ جب کبھی پڑھنے کی توفیق ہوتی ہے تو بھی ان کتابوں کا انتخاب کیا کرتے ہیں جن میں فریق مخالف کے بارے میں مواد مل جائیں۔ معاملہ یہاں تک آپہنچا ہے کہ نہ شیعہ خودشیعہ محقیقین کو ماننے کے لیے تیار ہیں، نہ سنی،سنی محققین کو تسلیم کرنے کو آمادہ دکھائی دیتا ہے۔ بلکہ مذہبی معاملات میں تحقیق کو مذموم عمل ٹھہرایا ہوا ہے۔ ہر کوئی اپنے مذہب کے خول میں بند اور جمود کا شکار ہے۔ بعض دانشوروں کا یہ کہنا بیجانہ ہوگا کہ اسلام مسلم معاشرے اور ملکوں میں جمود کا شکار ہے جبکہ غیر مسلم ممالک میں پھلتا پھولتا رہا ہے کیونکہ بعض غیر مسلم حقائق واضح ہونے پر ہے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کیا کرتے ہیں بلکہ حق کو قبول کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر مذہب کا عالم ایک ایسے میدان کے کھلاڑی بنے ہوئے نظر آتا ہے جس کے مقابلے میں دوسرا کوئی کھلاڑی نہیں ہوتا۔ اور وہ اکیلے کھیل کر ٹرافی?? جیت لیتا ہے۔ اور شائقین بھی انہی جیسے ہوتے ہیں اور اسے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ دیتے ہیں۔
اختلافی چیزوں پر بحث ومباحثہ کرنا موجودہ دور کے تناظر میں فائدے سے زیادہ نقصان کا حامل ہوسکتا ہے شاید اسی حقیقت پسندانہ سوچ کے پیش نظر امام خمینی نے اپنے ایک عالمی فتویٰ میں یہ بات زور دے کر فرمایا تھا کہ جو بھی شیعہ اور سنی میں اختلافات کو ہوا دے گا وہ شیعہ ہے نہ سنی، بلکہ استعمار کا ایجنٹ ہے۔اسی طرح رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ نے بھی فرمایا تھا کہ جو بھی شیعہ سنی میں اختلافی معاملات کو سامنے لائے گا وہ امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور داعش کے مقاصد پورے کرنے میں کردار ادا کرے گا۔ سید علی خامنہ نے اپنے پیغام میں مزید فرمایا کہ شیعہ اور سنی دونوں اسلام کے بازو ہیں۔ آپ نے مسلمانوں سے شکایت کی کہ تم لوگ ہاتھ کے باندھنے اور کھولنے پر جھگڑ رہے ہو جبکہ اسلام دشمن تمہارے ہاتھ ہی کاٹنے کے منصوبے بنارہے ہیں۔ خدا را اپنے مشترکات پر جمع ہوجائیں نہ کہ اختلافات کی بنیاد پر پراکندا۔ اس وقت کے مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ مخالف اور دشمن کے درمیان فرق اور تمیزکرنے کی اہلیت کھو بیٹھے ہیں۔ مخالف کو دشمن اور دشمن کو مخالف سمجھ بیٹھے ہیں، حالانکہ کسی سے مخالفت ختم ہو سکتی ہے مگر دشمنی نہیں۔ اگر ہمارے پاس بات کرنے کا سلیقہ نہیں، اسلوب بیان سے عاری ہے ، حکمت سے نابلد ہے، تدبر سے خالی ہے، وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ تو اداؤں پہ کچھ دیر کے لیے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اصلاح سے زیادہ تباہی نہ پھیل جائیں۔
ہر کوئی اپنے عقیدے کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں مگر عملی زندگی اور میدان دونوں میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کی اکثریت بدعنوانیوں، ظلم و زیادتیوں، علاقائی تعصبات، لسانی تعصبات، سیاسی تعصبات، حرام خوری، حرام کی کمائی، جھوٹ، فراڈ، دھوکا، چوری، لوٹ مار جیسی بے شمار اخلاقی و سماجی و معاشرتی خرابیوں کے دلدل میں سر تا پا ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔
چودہ سو سال بعد اختلافات پر بات کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں ہر مکتب فکر کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ اپنی محافل و مجالس میں شریک بندوں کو اپنے مذہب کی تعلیم دیں، دوسرے مذاھب کا ذکر تک نہ کریں، اپنے مذہب کے ماننے والوں کی اصلاح کی فکر زیادہ کریں،
ہماری بڑی خرابی یہ ہے کہ ہمیں اپنی درستی کی فکر کم دوسروں کی اصلاح کی فکر زیادہ ہوتی ہے اسی لیے ہم اب تک ٹھیک نہیں ہوئے۔ اگر ہم اپنی عملی زندگی میں اچھا انسان بننے کی کوشش کرتے تو دوسروں کو تبلیغ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔