خوف تعلیم کا دشمن ہے
کالم ۔ قطرہ قطرہ
تحریر۔ اسرارالدین اسرار
ایک طویل عرصے سے میں ایک بات کا مسلسل مشاہدہ کرتا رہا ہوں وہ یہ کہ شہر کے بڑے بڑے نامی گرامی سکولوں کے یونیفارم میں ملبوس بچے دن بھر اور خاص طور سے سکول کے اوقات میں مختلف گلی گوچوں میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر بچوں کی شکلیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ یہ وہ بچے ہوتے ہیں جو گھر سے نکلتے ہیں مگر سکول نہیں جاتے ۔ گلی گوچوں میں وقت گزارتے اور سکول سے چھٹی کے وقت باقی بچوں کے ساتھ مل کر گھر جاتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ اس امر سے ناواقف ہوتے ہیں کہ بچہ دن بھر کہاں گزار کر آیا ہے۔ مجھ نہیں معلوم ان بچوں کے والدین اور اساتذہ کا آپس میں رابطہ کھبی ہوتا ہے بھی ہے یا نہیں؟ میں نے ایسے کئ بچوں سے اس کی وجہ بھی پوچھی ہے۔ بعض بچے کوئی بیماری، کام یا کوئی اور وجہ بتاتے ہیں لیکن زیادہ تر بچے خاموشی سے کھسک جاتے ہیں۔ ان بچوں میں ایک خاصیت مشترک ہے وہ یہ کہ ان کی شکلوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ بچے احساس ندامت اور انجانے سے خوف کے شکار ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ معاملات درست ہونے کی بجائے اب ایسے بچوں کی تعدادمیں ماضی کی نسبت کئ گنا اضافہ ہوا ہے۔
سکول کے اوقات میں ان سکولوں کے طلباء گلیوں میں کیوں گھومتے ہیں یہ سوال توجہ طلب ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں گھراور سکول تھانوں سے کم نہیں ہیں۔ یہ بچوں کے اندر خوف پیدا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔
سکول کے اوقات میں گلیوں میں گھومنے والے ان بچوں کے دلوں میں چار قسم کے خوف پائے جاتے ہیں جو ان کو سکول جانے سے روکنے کا باعث بنتے ہیں۔ پہلا خوف کتابوں کا ہوتا ہے۔ دوسرا خوف جلاد نما اساتذہ کا ہوتاہے۔ تیسرا خوف سکول کے گیٹ پر ڈنڈا ہاتھ میں لئے ہوئے اس ان پڑھ چوکیدار کا ہوتا ہے جو لیٹ آنے والے بچوں پر الم غلم برستا رہتا ہے. چوتھا خوف ماں باپ کا ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ بچے اس صورتحال کا ذکر والدین سے نہیں کرتے۔ خوف کے سایے میں پلنے والے یہ بچے مستقبل کے جرائم پیشہ ، تشدد پسند اور باغی تو نکل سکتے ہیں لیکن ایک مہذب، زمہ دار اور انسان دوست شخصیت کے مالک نہیں بن سکتے۔ تمام سکولوں اور محکمہ تعلیم کو چاہئے کہ وہ مذکورہ صورتحال پر قابو پانے کے لئے لائحہ عمل طے کریں۔ یہ بات یاد رکھیں خوف تعلیم کا دشمن ہے۔ تربیت خوف سے نہیں بلکہ ترغیب دینے سے ہوتی ہے۔ دنیا میں لوگ پیار اور محبت سے کتوں، بندروں، بلیوں، کبوتروں اور حتی کی جنگی جانوروں کی بھی تربیت کر تے ہیں مگر ہم آج بھی ڈنڈے کا سہارا لیتے ہیں۔
بچے کسی وجہ سے سکول لیٹ آئے تو کوئی قیامت نہیں آتی ہے۔ اگر انہوں نے ٹسٹ کی تیاری نہیں کی یا ہوم ورک نہیں کیا تو بھی کوئی قیامت نہیں آتی ہے۔ ان کو پیار سے موٹیویٹ کیا جاسکتا ہے۔ مگر ان کو ڈرایا جائیگا تو ان کے اندر جو تھوڑی بہت صلاحیت ہے وہ بھی ختم ہوجائے گی۔بچے جب اساتذہ، کتابوں اور سکول سے نفرت کرنا شروع کریں گے تو وہ کھبی بھی تعلیمی میدان میں کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔ قدرت نے ہر بچے میں صلاحیت رکھی ہے اس کو نکھارنا سکول اور اساتذہ کا بنیادی کام ہے۔ بچوں کو ڈرانا بھی تشدد میں آتا ہے۔ جبکہ قانونا سکولوں میں تشدد کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔ جو بچے سکول سے غیر حاضر ہوئے ہیں ان کے والدین سے آج کے زمانے میں رابطہ کر کے یا ایک میسیج کے زریعہ بچے کی سکول نہ آنے کی وجہ پوچھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوگا کہ بچہ گھر سے ہی نہیں آیا ہے یا گھر سے نکل کر سکول کے خوف کی وجہ سے گلی کوچوں میں گھومتا رہتا ہے۔ ایک بہترین حکمت عملی سے اس صورتحال پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ سکولوں کو چاہئے کہ وہ خوف کو فروغ نہ دیں بلکہ بچوں کو پیار اور محبت سے سیکھائیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بچے پیار محبت سے نہیں سیکھ سکتے وہ کسی ماہر نفسیات سے اپنا علاج کرائیں کیونکہ تحقیق یہ کہتی ہے کہ سیکھانے کے لئے بہترین طریقہ پیار ومحبت کے ساتھ موٹیویشن ہے ۔ ڈنڈے سے تو جانور بھی نہیں سیکھتے ہیں بچے کیسے سیکھیں گے. بچوں کو عزت، احترام، نرمی، رحمدلی اور شفقت بھرا رویہ ہی سیکھا سکتا ہے۔ جبر و ظلم ان کو باغی بناتا ہے۔