قتل یا خودکشی، ملزم یا مجرم؟
کالم ۔ قطرہ قطرہ
تحریر۔ اسرارالدین اسرار
کسی فرد کو کسی جرم کے الزام میں پکڑا جائے تو اس کو ملزم کہا جاتا ہے۔ ملزم کو مجرم اس وقت تک نہیں لکھا جاتا ہے جب تک عدالت اس بات کا فیصلہ نہ کرے کہ اس شخص منسوب جرم واقعی اس سے سرزد ہوا ہے یا نہیں ؟ ملزم کو مجرم ثابت کرنے کے لئے بعض دفعہ عدالتوں کو سال ہا سال لگتے جاتے ہیں ۔ اسی طرح کسی بھی قتل کا واقع رپورٹ کرتے وقت مبینہ قتل لکھا جاتا ہے۔ کوئی شخص مردہ حالت میں کسی کمرہ یا کسی جگہ پایا جائے یا اس کی لاش دریا سے ملے تو اس کے لئے لکھا جاتا ہے کہ کہ پراسرار موت یا مردہ حالت میں پایا گیا۔ ایسے اندھے کیسسز میں بھی موت کے محرکات یا وجوہات جاننے کے لئے بھی پولیس اور عدالت کو بعض دفعہ کئ سال لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح کہیں دور سے کوئی قتل یا موت کی اطلاع ملے تو اس کے لئے مبینہ قتل یا پر اسرار موت لکھتے ہیں۔
مذکورہ حقائق کی روشنی میں مجھے حیرت ہوتی ہے کہ غذر میں کوئی بھی موت واقع پیش آجائے تو سوشل میڈیا کے دوستوں کو ایک دم کیسے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ خودکشی ہے ؟ سوشل میں موجود سب کے سب لکھتے ہیں، ایک اور خودکشی یا فلاں شخص نے خودکشی کر لی۔ اس خبر میں نہ کوئی مستند ذرائع کا ذکر ہوتا ہے نہ پولیس تفتیش کا ذکر ہوتا ہے اور نہ کوئی خاندانی ذرائع کی تصدیق وغیرہ کا ذکر ہوتا ہے اور نہ ہی کہیں مبینہ کا لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔
گذشتہ دنوں ایس پی غذر نے اپنی پریس کانفرس میں اس بات کا برملا ذکر کیا تھا کہ گذشتہ دو مہنوں میں ضلع غذر میں خودکشیوں کے پندرہ واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ ان میں سے پولیس کی تحقیقات اور تفتیش کی روشنی میں چار واقعات قتل ثابت ہوچکے ہیں۔ گویا جن پندرہ واقعات کو سوشل میڈیا میں خودکشی لکھا گیا اور سمجھا گیا تھا ان میں سے چار قتل کے واقعات تھے۔
اس کے علاوہ ٢٠٠۴ میں کی کئ ایک تحقیق اور ٢٠١۵ میں جی بی اسمبلی کی کمیٹی کے سامنے غذر پولیس کی طرف سے پیش کی گئ رپورٹ کے مطابق خودکشی قرار دئے جانے والے واقعات میں سے دس فیصد سے ذائد قتل کے واقعات ہیں۔ ہمارے مشاہدے میں بھی یہ بات آئی ہے کہ خودکشی قرار دیا جانے والا ہر واقع خودکشی نہیں ہوتا۔ کئ دفعہ قتل کے جرائم کو چھپانے کے لئے ان کو خودکشی قرار دیا جاتا ہے۔
اس بات کا ہم نے بارہا ذکر کیا ہے کہ بغیر تحقیق کے ہر موت کو خودکشی لکھنا دراصل ملزم کو ماورائے عدالت مجرم ثابت کرنے کے مترادف ہے۔
میری تمام صحافی دوستوں اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والے تمام احباب سے پر زور التماس ہے کہ موت کے ہر واقع کو پر اسرار موت یا مردہ حالت میں پایا گیا وغیرہ لکھا جائے۔ براہ راست کسی بھی واقع کو اس وقت تک خودکشی قرار نہ دیا جائے جب تک پولیس کی تحقیقات مکمل نہ ہوجائیں۔ کیونکہ ایسی خبروں کو انسانی ذہنی صحت اور خاص طور پر بچوں کی نفسیات پر انتہائی منفی اثر پڑتا ہے۔