کالمز

بلتت فورٹ اور التت فورٹ کی تاریخ عوام ہنزہ کی نظر میں

ڈاکٹر نیک عالم راشد

بلتت فورٹ اور التت فورٹ کی تاریخ کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں جن میں سے  ایک پہلو ہنزہ کی عوام کے نقطہ نظر کا حامل ہے۔عوام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ قلعے عوام ہنزہ پر میران ہنزہ کی طرف سے ڈھائے گئے مظالم کی تاریخ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کی تعمیر میں ہنزہ کی عوام کا خون پسینہ شامل ہے۔ ان دونوں قلعوں کی تعمیر کے لئے ہنزہ کی عوام سے بیگار کا کام لیا جاتا تھا، یعنی یہاں کام کرنے والوں کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا تھا بلکہ ریاستی طاقت کو کام میں لا کر زور زبردستی سے عوام سے مشقت طلب کام لیا جاتا تھا۔ بیگار مہذب انسانی تاریخ کا ایک شرمناک کام اور ظالمانہ نظام کا قبیح شمار ہوتا ہے۔ خاص طور پر ہنزہ کے آخری حکمران میر محمد جمال خان کے دور (1945ء تا 1974ء) میں نئے قلعے کی تعمیر کے لئے تمام لکڑی چھپروٹ (نگر) سے لائی گئی تھی۔ ستم یہ کہ یہ تمام تر لکڑی چھپروٹ سے مرتضٰی آباد تک (جوکم و بیش 40 سے 50 میل کا فاصلہ ہے)شیناکی کی عوام( خضر آباد تا ناصر آباد) نے اپنے کندھوں پر اٹھا کر پہنچائی تھی اور بہتیرے لوگوں کے کندھے اور پیٹھ بڑی طرح زخم ہوچکے تھے۔ اس لئے شینا زبان میں جب بھاری بوجھ اٹھانے کی بات آتی ہے تو ” رجو کاٹو "( راجوں کی لکڑی) کا مقولہ استعمال ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ ان قلعوں کی دیکھ بھال، مرمت، ان کے آس پاس کی میروں کی زمینوں میں کاشتکاری،باغبانی، فصلوں کی بوائی و کٹائی اور یہاں تک کہ گھاس کاٹنے اور اسے جمع کرنے کی مستقل ذمہ داری مرکزی ہنزہ کی عوام کی تھی جو اپنی نوعیت کا ایک انتہائی بیزار کن اور ظالمانہ کام تھا جسے وہ بحالت مجبوری انجام دیتے تھے۔ اس قسم کی خستہ و خراب اور ناگفتہ بہ صورت حال کے پیش نظر بروشسکی زبان میں ” بروشو ابشنگ ” (بروشو عوام کے مسائل و مشکلات) کا مقولہ مشہور ہوا ہے۔

       خاص طور پر بلتت فورٹ وہ جگہ بلکہ ظلمت کدہ اور ظلم و ستم کی آماجگاہ گاہ بھی تھا جہاں غریب اور محکوم عوام (خاص طور پر شیناکی اور گوجال کی عوام) سے کمر توڑ مالیہ لے کر جمع کیا جاتا تھا جس سے عوام کی چیخیں نکلتی تھیں۔ ستم یہ کہ یہ مالیہ کسی انسانی فلاح و بہبود کے کام میں صرف ہونے کے بجائے میر اور اس کے حواریوں اور حاشیہ برداروں  کی عیش و عشرت پر خرچ ہوتا تھا۔ اور اگر کوئی آزادی کا متوالا (فرد یا گروہ) عوام کے حق میں آواز اٹھاتا تو اسے یہاں لاکر قید با مشقت کی سزا دی جاتی تھی یا اسے جان سے مار دیا جاتا تھا۔ یہ محل محلاتی سازشوں کا بھی گڑھ  تھا۔ لہٰذا، اس قلعے سے اہالیان ہنزہ کی حقیقی تاریخ تلاش کرنا ایک سعیء لا حاصل کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ ان قلعوں سے اہالیان ہنزہ پر ڈھائے جانے والے  مظالم کی تاریخ وابستہ ہے۔ ہماری دانست میں ان قلعوں کی مرمت اور بحالی کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بحال شدہ قلعے آنے والی نسلوں کو ہنزہ کے ان موروثی میروں اور حکمرانوں کے مظالم کی داستان اور عوام ہنزہ کی مظلومیت کی حکایت زبان حال سے بیان کرتے رہیں۔ اس ضمن میں معروف ایران دانشور اور عمرانی علوم کے ماہر ڈاکٹر علی شریعتی کا بیان قابل ذکر ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ دیوار چین روئے زمین پر ایک خونی لکیر کی حیثیت رکھتی ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button