کالمز
ٹریفک حادثات کی روک تھام میں حکومت اور عوام کی ذمہ داریاں
چند ہفتے قبل یاسین سندی سے تعلق رکھنے والے ہمارے انتہائی قابل احترام ماموں حوالدار اقبال کو دل کی بیماری کے باعث ڈاکٹروں نے راولپنڈی ریفر کیا۔ ڈاکٹروں کی نصیحت پر فرمانبردار بچوں نے بلا تاخیر والد صاحب کو رینٹ اے کار میں راتوں رات راولپنڈی پہنچا دیا۔ رات کے دو بجے مریض کو آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (اے ایف آئی سی) راولپنڈی میں ایڈمٹ کیا۔ چند روز تک علاج و معالجے کے بعد اقبال ماموں کو ایک ماہ بعد فالو اپ کی ایڈوائس دیکر رخصت کیا گیا۔
اسی شام والد صاحب کے اصرار پر بچے مریض کو لیکر نجی کمپنی (مشہ برم) کی بس میں راولپنڈی سے گلگت روانہ ہوئے۔ بس رات ساڑھے نو بجے کے قریب بشام پہنچ گئی۔ بشام میں واقع ہنزہ ہوٹل پر مسافر ڈنر کے لئے اتر گئے۔ اقبال ماموں بھی اپنے دو بچوں عزیز اقبال اور نائب خان کے ہمراہ ڈائنگ حال میں بیٹھ گئے۔
اسی اثناء اقبال ماموں کو دل کا دورہ پڑ گیا۔ وہ بے ہوشی کے عالم میں صوفے سے نیچے گر پڑے۔ بچوں نے فوراً ہوٹل مالکان کی مدد سے انہیں قریبی ہسپتال پہنچا دیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے۔ موت اٹل تھی، فیصلہ قدرت کا تھا لہذا اقبال ماموں کے بچوں کے پاس صبر و تحمل سے والد صاحب کی میت لیکر روانگی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
یہاں سے آگے کی کہانی بڑی تکلیف دہ اور نا قابلِ یقین ہے جسے سن کر ہر درد دل انسان افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہوا کچھ یوں کہ ڈنر کے بعد سارے مسافر گاڑی میں بیٹھ گئے مگر اقبال ماموں اور ان کے بچوں کی سیٹیں خالی رہیں۔ سواریوں سے بھری بس میں کسی ایک کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ تھوڑی دیر کے لئے گاڑی روک کر قریبی ہسپتال جا کر مریض کی عیادت کریں یا میت کو سنھبالنے میں بچوں کی مدد کریں۔
بے حس ڈرائیور نے مصیبت کی اس گھڑی میں مدد کی بجائے متعلقہ مسافروں کا سامان بس سے اتار کر ہوٹل میں پھینک دیا اور روانہ ہوا۔ اقبال ماموں کے بے یار و مددگار بچے والد صاحب کی نعش لیکر کئی گھنٹے انتظار کے بعد ایک نجی ہائی روف میں گلگت کی جانب روانہ ہوئے۔ یوں اگلے روز مرحوم کو اپنے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
واقعے کے بعد تقریباً دو ہفتے تک انتظار کیا گیا کہ نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کی جانب سے انسانی ہمدردی کے تحت غمزدہ خاندان سے رابطہ کرکے ڈرائیور کی بے حسی پر معذرت کی جائیگی۔ مگر دو ہفتے بعد بھی کمپنی کی جانب سے کوئی رابطہ نہ کرنے پر ہم جوٹیال بس اڈے میں واقع نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کے آفس گئے۔
ہم نے وہاں پر موجود ذمہ دار عملے کو ڈرائیور کی بے حسی سے متعلق آگاہ کیا مگر ہماری اس دکھ بھری داستان سے انہیں کوئی فرق نہیں آیا۔ ایک کپ چائے پر سرسری معذرت کے بعد ہم رخصت کیا گیا۔ دو چار دن بعد متعلقہ حکام نے ہمارے محترم آیاز محمد صاحب کو بلا کر راولپنڈی سے بشام تک تین مسافروں کا کرایہ کاٹ کر بقایہ رقم واپس کردی۔ اللہ اللہ خیر۔۔۔
نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کے ڈرائیور کی اس قدر بے حسی کے خلاف ہمارا کمپنی کے زمہ داران تک رسائی مقصد یہ ہرگز نہیں تھا کہ وہ ہمارے بھائیوں کے بقایاجات واپس لٹا دیں نہ ہم نے ایسا کوئی تقاضا کیا۔ ہم نے نجی ٹرانسپورٹ کمپنیاں اپنے ڈرائیوروں اور متعلقہ عملے کو لانگ ڈرائیو کے دوران مسافروں سے حسن سلوک، احتیاط سے ڈرائیونگ اور اس طرح کے حادثات کے دوران انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مسافروں کی مدد سے متعلق تربیت کرنے کی تلقین، گاڑیوں کی فٹنس اور ہر گاڑی میں فرسٹ ایڈ بکس لازماً رکھنے کی تجویز پیش کی۔
نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کے ذمہ داران نے شاید ہماری مدعا سنی ان سنی کردی اور آج یہ بد قسمت واقعہ رونما ہوا۔ اس واقعے کے بعد ہر جانب بشمول حادثے کا شکار بس کے مسافروں تک لوگ پبلک ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی گاڑیوں کی حالت زار اور ڈرائیوروں کی پیشہ ورانہ تربیت میں کمی پر بحث و مباحثے ہو رہے ہیں۔
گلہ مگر پھر بھی نہیں کیونکہ ہم جذباتی قوم ہے اور بدقسمتی حادثات کے بعد جذبات میں آجاتے ہیں۔ پھر جلد ہی ٹھنڈے ہو کر اسی موضوع سے ہٹ کر توپوں کا رخ کسی اور جانب کرتے ہیں جس کے باعث حکومت اور ذمہ دار ادارے اس طرح کے حادثات کی روک تھام کے لئے لائحہ عمل ترتیب دینے میں سنجیدگی اختیار نہیں کرتے۔ نتیجتاً شاہراہِ قراقرم پر وقتاً فوقتاً اس طرح کے حادثات رونما ہوتے رہتے اور ہم ان حالات میں سوائے افسوس اور سوشل میڈیا پر متعلقہ کمپنیوں کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت اپنے ذمہ دار ادارے کے ذریعے پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے ایس او پیز تیار کرے جس میں گاڑیوں کی فٹنس کے ساتھ ساتھ ڈرائیوروں کی فٹنس، مسافروں کی انشورنس اور ڈرائیوروں و معاون عملے کی فرسٹ ایڈ اور ایمرجنسی رسپانس کی تربیت، گاڑیوں میں ہنگامی صورتحال کے دوران ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کا بنیادی کٹ رکھنے سمیت دیگر ضروری عوامل کو یقینی بنانے کا پابند بنائے۔
عوام یعنی مسافر حضرات دوران سفر گاڑیوں میں حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز میں کمی بیشی کی صورت میں فورآ ذمہ دار محکمہ یا حکام کو آگاہ کریں۔ حکام کی جانب سے مسئلے پر توجہ نہ دینے کی صورت میں ایشو کو سوشل پر بھرپور انداز میں اجاگر کیا جائے۔ اسی طرح کی حکمت عملی سے کسی حد ان حادثات میں کمی لائی جا سکتی ہے بصورت دیگر یکے بعد دیگرے حادثات رونما ہوتے جائیں گے اور ہم صرف افسوس پر اکتفا کرتے رہیں گے۔