کالمز

پی ٹی آئی کے وعدے، کارکردگی اور بلدیاتی انتخابات 

شاہ عالم علیمی 
سال 2022ء میں الیکشن کمیشن نے کم از کم دو بار یہ اعلان کیا کہ وہ گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات کروانے کے لئے کب سے تیار بیٹھے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے اس بابت کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا جارہا۔
دراصل تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ جو خود کو جمہوریت پسند کہتے ہیں دراصل وہی جمہوریت کے راستے میں روڑے اٹکاتے رہے ہیں اور جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی کرتے رہے ہیں۔ دوسری طرف المیہ ہی کہیے کہ عوامی سطح پر جمہوری ادارے قائم کرنے اور انتخابات کروانے کا سارا کریڈٹ امروں کو جاتا ہے چاہیے وہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی بنیادی جمہوریت کا پروگرام ہو یا جنرل پرویز مشرف کے ملک گیر بلدیاتی انتخابات ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ جہاں جمہوریت کو نہ پنپنے کا سارا الزام امروں کو دیا جاتا ہے وہاں اس الزام کے اصل حقدار اشرافیہ ہے۔ یہ اشرافیہ ہی ہے جس کا نظام پر کنٹرول ہے چاہیے وہ جمہوریت کا ہو یا امریت کا۔
لیکن گلگت بلتستان کی بات الگ ہے۔ گلگت بلتستان میں کل تک طبقاتی نظام موجود نہیں تھا،  کوئی اشرافیہ موجود نہیں تھا اور فی الوقت بھی اس کا وجود نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جی بی بنیادی طور پر ایک غریب اور پسماندہ خطہ ہے اور وہاں کے لوگ بھی سب نیچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
تاہم اب ایک مصنوعی طریقے سے چند خاندانوں اور باثر لوگوں کو ایک یا دوسرے طریقے سے نواز کر ان کو بالائی طبقے میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ اس میں وہی ذہن کارفرما ہے جو انگریزوں نے ہندوستان میں استعمال کیا تھا۔
انگریزوں نے چند لالچی اور مفاد پرست لوگوں اور خاندانوں کو اپنے ساتھ ملا کر انھیں نواز کر نظام اپنے قابو میں کرلیا تھا۔ یہی کچھ گلگت بلتستان میں کیا جارہا ہے۔ آج کے یہ چند خاندان آنے والے دور کے گلگت بلتستان کا بالائی متصور ہوں گے اور عوام اور نظام کو ان کے ذریعے کنٹرول کیا جائے گا۔
بہرحال واپس موضوع کی طرف آکر بات کرتے ہیں۔
یکم دسمبر 2020ء کو جب گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی تو کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بحیثیت وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ سب سے پہلے گلگت بلتستان کی صوبائی حیثیت پر کام کریں گے،  دوسری چیز  احساس پروگرام گلگت بلتستان لے کر آئیں گےاور ساتھ ساتھ ٹورازم پر پوری توجہ دینے کا اعلان کیا۔ تیسری چیز جس کا اعلان عمران خان نے بحیثیت وزیراعظم کیا گلگت بلتستان کے لیے 300 میگاواٹ بجلی پیداوار کے منصوبہ تھا جب کہ اس کے ساتھ  اسپیشل اکنامک زون بنانے کا اعلان تھا۔ جبکہ اسی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے بحیثیت وزیراعلیٰ خالد خورشید خان صاب نے کہا تھا کہ چند مہینوں کے بعد گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں گے۔
آج تین سال دو مہینے اور بیس دن ہوئے مندرجہ بالا وعدوں میں سے کوئی ایک بھی پورا نہیں ہوا۔
یوں تو گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانا بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ جب شادی ہی نہیں ہوئی تو بچہ کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟  جو لوگ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی بات کرتے ہیں وہ یا تو نرے جاہل ہیں اور آخری درجے کے چالاک ہیں یا کسی بہت بڑے پلان پر مکاری سے کام کررہے ہیں۔ گلگت بلتستان ریاست کشمیر اور مسلہ کشمیر کا ایک حصہ ہے۔ جب تک ریاست کا مسلہ حل نہیں ہوتا کوئی بھی گلگت بلتستان یا جموں سے لیکر گلگت تک ریاست کے کسی حصے کو کسی دوسرے ملک کا صوبہ نہیں بنا سکتا۔ ایک کمیٹی بناکر سفارشات مرتب کی گئی اور خود جی بی سرکار کی کابینہ کے ممبر ان سفارشات کے سامنے رکاوٹ بنے۔ بہرحال وعدہ کرنے کے باجود عمران خان اور خالد خورشید خان اپنا ہی وعدہ وفا نہیں کرسکے؛  "آپ آتے تھے مگر کوئی اناگیر بھی تھا”۔ غالب۔
جہاں تک احساس پروگرام کی بات ہے تو بیچارے سیدھے سادے گلگت بلتستانی کہاں اتنا پچیدہ طریقہ کار سے گزر کر سہولت حاصل کرنا کہاں! خالد خورشید خان ہی بتادیں کہ اگر دس بارہ گلگت بلتستانیوں کا اس پروگرام کے تحت علاج ہوا ہو،  ہم اس پروگرام میں کسی بھی قسم کی کرپشن کی بات نہیں کریں گے۔
گلگت بلتستان کی فوری ضرورت کے جس اہم مسلے کا زکر عمران خان نے کیا تھا یعنی 300 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ تین سو میگا واٹ تو دور کی بات 3 کے وی بجلی بھی اس عرصے میں پیدا نہیں کی گئی۔ دوسری طرف یہ صورت حال ہے کہ ایک معمولی روم ہیٹر جلانے پر گلگت بلتستان کے شہریوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاتی ہے اور ان کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ یہ وہاں کے شہریوں کو غلام سمجھنے کے مترادف ہے اور ان کے زخموں پر نمک ہے۔
جہاں تک خالد خورشید کے بلدیاتی انتخابات کروانے کا وعدہ تھا وہ اب تک پورا نہیں ہوا اور الیکشن کمیشن کا ہر دوسرے ہفتے انتخابات کروانے کا اعلان سرکار کے لئے سبکی سمجھنا چاہیے۔ جن کا فلسفہ ہی "یوٹرن” ہو ان کے وعدے پورے ہونے محال لگتے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات جلد از جلد کروانا چاہیے کیونکہ یہ وقت کی اہم ضرورت اور جمہوریت کا بنیادی جز ہے۔
الیکشن کمیشن کا انتخابات کی تیاری کا اعلان خوش آئندہ ضرور ہے مگر گلگت بلتستان میں الیکشن کمیشن کی پچھلی کارکردگی تسلی بخش نہیں تھی۔
الیکشن کمیشن کی خراب کارکردگی کا اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ  غذر، استور گنگچھے سمیت متعدد علاقوں میں شہریوں کے ووٹ کا اندراج ان کے اپنے پولنگ اسٹیشن کی بجائے دس دس بیس بیس کلومیٹر دور دوسرے علاقوں میں کرچکا تھا۔ غذر خاص  کے باسیوں کا ووٹ بارست میں اندراج کیا گیا تھا جو کہ پچیس کلومیٹر دور ہے۔ یہی حال دوسرے علاقوں کا تھا۔ شہریوں نے سخت سردی میں دو دو فٹ برف میں پھر بھی اپنا ووٹ کاسٹ کیا اور زمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیا جو کہ لائق تحسین تھا۔ لہذا الیکشن کمیشن کو تیاری کے بجائے پروسیجر کے مطابق گلگت بلتستان کے موسمی اور مواصلاتی نظام کو سامنے رکھ کر مکمّل تیاری کرنا چاہئے تاکہ عوام کو پھر مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ جمہوری نظام سے بدظن نہ ہو۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button