کالمز

عالمی سازشیں اور گلگت بلتستان

تحریر : محمد طاہر رانا

دو سال قبل اپنی صحافتی سرگرمیوں کے دوران میں گلگت بلتستان کے ایک اہم شخصیت کا انٹرویو لے رہا تھا اس دوران انہوں نے مجھے ایک انتہائی اہم دستاویز دکھائی جس میں گلگت بلتستان میں شرو ع ہونے والے ایک اہم پروجیکٹ جو کہ اس وقت ابھی ابھی شروع ہوا تھا کے ثمرات اور نتائج کے بارے میں تفصیلی ذکر تھا۔ بدقسمتی سے جغرافیائی اعتبار سے انتہائی حساس علاقہ ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان میں کسی بھی قسم کے بڑے پروجیکٹ کومکمل کرنے کیلئے یہاں کے عوام کو مختلف قسم کی ازمائشوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔قراقرم ہائی وے کا کام شروع ہونے سے اب تک تسلسل کے ساتھ ناقابل فراموش سانحات کسی اور طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ اس سڑک کی تعمیر سے جہاں گلگت بلتستان کے لوگوں کو ذرائع آمدورفت میں آسانی پیدا ہورہی ہے وہاں پاکستان اور چائنہ کے معشیت بھی مستحکم ہو رہی ہے ،لیکن ایسا ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ثابت ہو رہا ہے۔ سیکیورٹی کے نام پر خزانے کو سالانہ خطیر رقم کی پھکی لگانے والے اداروں کو ان تمام معاملات کا ادراک ہے پھر بھی ایسے سانحات کا وقوع پزیر ہونا ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے۔کچھ دن قبل نانگا پربت بیس کیمپ میں پیش آنے والے افسوس ناک سانحے نے نہ صرف یہاں کے عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی بدنامی بھی ہوئی۔ دہشت گرد انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھ آتے ہیں اور اپنے مقصد کو پورا کر کے آرام سے چلے جاتے ہیں ۔

کچھ عرصہ قبل معروف کالم نگار اسرار الدین اسرار صاحب نے اپنے ایک کالم میں گلگت بلتستان کی جغرافیائی اور بدلتی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے پیشگوئی کی تھی کہ یہ علاقہ آہستہ آہستہ عالمی طاقتوں کی خفیہ جنگ کا میدان بننے جا رہا ہے۔ ایک کالم نگار اور صحافی ہونے کے ناطے انہوں نے اپنا فرض پورا کر دیا تھا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ان کی باتوں سے کسی نے اثر لیا ؟ یا اسے بھی دیوانے کی بڑسمجھا گیا۔ سانحہ کوہستان ، سانحہ لولوسر اور سانحہ نانگا پربت میں بہت ساری مماثلت پائی جاتی ہے سانحہ کوہستان میں بھی فوجی وردی استعمال ہوئی اور سانحہ نانگا پربت میں بھی۔ ایک جیسی درندگی تینوں سانحات میں نظر آئی ۔ دہشت گرد کیا چاہتے ہیں اور کن کے اشاروں پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں اسکی قلی آہستہ آہستہ کھل رہی ہے عقلمندوں کیلئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ سانحہ لولو سر اور سانحہ کوہستان گلگت بلتستان کے امن کو پارہ پارہ کرنے کیلئے کیا گیا تاکہ یہاں لوگ ایک دوسرے سے لڑتے رہیں اور ترقی کا پہیہ جام ہو جائے دوسری طرف ایک اور اہم مقصد یہ بھی ہو سکتا تھا کہ شاہراہ ریشم کو غیر محفوظ بنایا جاسکے۔ہماری ناسمجھی کی وجہ سے دہشت گرد کسی حد تک اپنے عزائم میں کامیاب بھی ہوئے۔

پاکستان میں جنرل الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن) نے واضع اکثریت سے ملک میں حکومت بنائی اور نوازشریف صاحب نے تیسری مرتبہ ملک کے وزیر اعظم بننے کا اعزازبھی حاصل کیا۔ وزیر اعظم بننے کے فورا بعد انہوں نے اپنے ایک اعلان میں کہا کہ چائنہ سے پاکستان تک ریلوے لائن بچھائی جائے گی اور پاک چائنہ دوستی کو مزید مستحکم بنایا جائے گا۔ میں گلگت بلتستان کے ذی شعور باشندوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ اعلان یہاں کے عوام کیلئے خوشیوں کا باعث نہیں تھا؟ اس اعلان سے کس کو تکلیف پہنچی ہوگی ، چائنہ کو؟، نہیں وہ تو دوست ملک ہے اور اسکی معشیت کو بھی اس پروجیکٹ سے چار چاند لگ جائینگے۔گلگت بلتستان کے عوام کو؟ نہیں یہاں کے عوام تو اس پروجیکٹ کی وجہ سے ترقی کی راہ پر گامزن ہونگے۔ پھر کس کو ؟ امریکہ کو، اسرائیل کو یا بھارت کو ۔

میاں صاحب خدا را آئندہ ایسے اعلانات سے پہلے آپکو یہ سوچنا ہوگا کہ یہاں بڑے بڑے پروجیکٹس پر عملدرآمد کی دوران عوام کو کتنی آزمائشوں کا شکار ہونا پڑتا ہے اور کتنی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ دہشت گردوں نے چائنہ کے سیاحوں کو قتل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ پاک چائنہ دوستی انہیں کسی طور پر قبول نہیں۔لہذا حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو چاہیے کہ ایسی صورت حال سے نمٹنے کیلئے جامہ حکمت عملی تیار کی جائے اور حفاظتی تدابیر کو یقینی بنایا جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔

نانگا پربت کا سانحہ گلگت بلتستان کی ثقافت اور روایات کے بر عکس ہے یہاں کی عوام اپنے مہمانوں کے ساتھ ایسا سلوک کر ہی نہیں سکتے ہیں اس واقع کے بعد یہاں کے ہر فرد نے اس واقع کی نہ صرف مذمت کی بلکہ شدید افسوس کا بھی اظہار کیا۔ بلا شبہ یہ کسی غیر کی کارستانی ہے جو نہ صرف ہمیں آپس میں لڑانا چاہتا ہے بلکہ پاک چائنہ دوستی میں بھی دڑاریں ڈالنے کے درپے ہے۔

دیامر کے علاقے میں آپریشن نہ کرنے کا فیصلہ کر کے گلگت بلتستان کی صوبائی انتظامیہ نے انتہائی دانشمندی کا ثبوت دیا ہے اور دیامر جرگے کی طرف سے متاثرہ علاقے میں سرچ آپریشن کے دوران انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرنے کا فیصلہ بھی قابل تعریف ہے۔ اگر خدا نخواستہ اس علاقے میں آپریشن کیا جاتا تو صدیوں تک نہ صرف قراقرم ہائی وے پر جاری منصوبے رک جاتے بلکہ گلگت بلتستان کے عوام کیلئے ذرائع آمدورفت اور خواراک کی کمی جیسے مسائل بھی یہاں کے عوام پر قیامت ڈھاتے۔ ہمیں انفرادیت کے بت کو توڑ کر اجتماعی سوچ کو پروان چڑہانا ہوگا.

سوشل میڈیا پر آج کل اس سانحے کو لیکر ایک بے لگام اور لاحاصل بحث جاری ہے کچھ ضمیر فروش اور موقع پرست عناصر اس سانحے کو لیکر انتہائی بے قراری کا شکار ہیں کہ اس واقعے سے فائدہ اٹھا کر ایک پورے علاقے کو آگ میں جھونکا جائے، اور وہ ایک پورے ضلع میں آپریشن کا مطالبہ کر رہے ہیں. ایسے افراد سے میری گزارش ہے کہ خدا رایہ وقت مزید اشتعال انگیزی پھیلانے کا نہیں بلکہ حالات کی نویت کو سمجھتے ہوئے اس سانحے کے اثرات کو کم سے کم کرنا ہے۔ آپریشن جیسے اقدامات سے صرف دیامر کے عوام کو نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ گلگت بلتستان کے تمام عوام اس سے متاثر ہو سکتے ہیں ۔ یہ بات سچ ہے کہ اندر کے عناصر بھی مختلف مفادات کی خاطر ایسے غیر انسانی کاموں میں ملوث ہو جاتے ہیں لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ چند افراد کی سزا سب کو دی جائے،جو لوگ ایسے واقعات میں ملوث ہیں انہیں تو بغیر کسی رعایت کے قانون کے شکنجے میں لیا جانا چاہیے۔ غیر ملکی سیاحوں نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا وہ معصوم تھے انہیں قتل کرنے والے درندوں کا اصل مقصد کیا تھا اسکی وضاحت ہو چکی ہے ، حکومت اس واقعے کے اصل محرکات اور ملزمان کو گرفت میں لیکر انہیں کڑی سے کڑی سزا دے تاکہ آئندہ کسی کو ایسی جرات نہ ہوسکے۔

گلگت بلتستان کو آگ کی طرف دھکیلنے کی سازشیں ناکام بنانے کیلئے ہمیں انتہائی غیر جانبدارانہ اور مثبت سوچ کو پروان چڑھانا ہوگا، بیرونی طاقتیں ہمیں سو سال پیچھے دھکیلنے کیلئے سرگرم ہوچکی ہیں ہوشیاری اوردرست فیصلوں کے ذریعے ہم اپنا کھویا ہوا وقار بحال کر سکتے ہیں۔

وگرنہ ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

6 کمنٹس

Back to top button