کالمز

خودکشیوں کے معاملے پر سرکاری و غیر سرکاری منافقت

تحریر: عنایت بیگ

خودکشیوں کے بڑھتے رجحان کی تیسری لہر (2022) پر بھی جب ہم نے ہر طرف مگرمچھ کے آنسو ہی دیکھے تو سرکار اور غیر سرکاری اداروں کو جھنجھوڑنے کے لئے جون 2022 میں ضلع غذر میں ذہنی صحت پر نوجوانوں کا زمہ دار اداروں (سٹیک ہولڈرز) کے ساتھ گرینڈ مرکہ بلایا۔ اس مرکے میں ایک ہزار کے قریب نوجوانوں سمیت منتخب نمائندوں، این جی آوز کے زمہ داران اور بیوروکریٹس وغیرہ نے شرکت کیا۔ اس سرگرمی کو قومی و بین الاقوامی صحافتی اداروں میں خاص جگہ دی گئی۔

نوجوانوں کی اس اہم کوشش کو بظاہر سرکار نے سراہا اور مرکہ کے منتظمین میں سے مجھے چیف منسٹر کی "ہائی پاور” ٹاسک فورس کا حصہ بنایا گیا۔ اس ٹاسک فورس کو یہ زمہ داری دی گئی کہ 2 ہفتوں میں اپنی سفارشات محترم وزیر اعلیٰ کو پیش کی جائیں مگر صد افسوس کہ 2 مہینوں تک اس کمیٹی کی کوئی ایک میٹنگ تک نہیں بلائی جا سکی جس پر ہم نے سرکار سے شکایت شروع کی۔ جب ہماری شکایت پر کان نہیں دھرے گئے تو ہم نے تمام متعلقہ فورمز اور اجلاسوں میں کھل کر اس سرکاری لاپرواہی پر کھل کر تنقید کرنی شروع کی جس کے نتیجے میں سرکار کی طرف سے سب سے پہلی کاروائی یہ ہوئی کہ میرا نام ٹاسک فورس سے ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا، اور ایک نئی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں اکثریت بیوروکریٹس کی تھی۔ ان بیوروکریٹس کو مینٹل ہیلتھ کی سمجھ اتنی تھی کہ انہوں نے نئی کمیٹی کی تشکیل کے ایک ہفتے تک خاموش رہنے کے بعد دوبارہ ہم سے رابطہ کیا کہ آپ سرکار کے لئے کوئی جامع ایکشن پلان مرتب کریں۔

چونکہ ہمارے لئے یہ معاملہ ایک "کاز” کی حیثیت رکھتا ہے، ہم نے حامی بھری اور ایک جامع ایکشن پلان ترتیب دیا۔ ہم نے جب ایکشن پلان بنا کر سب کو بریفننگ دی تو کہا گیا کہ اس ایکشن پلان پر تمام سٹیک ہولڈرز ایک ہفتے میں اپنا فیڈ بیک جمع کرائیں۔ ایک ہفتے کے اندر کسی سٹیک ہولڈر کا کوئی فیڈ بیک نہیں آیا اور ہمارے ایکشن پلان پر اتفاق رائے بنی۔ ہمارے ایکشن پلان کو ڈپٹی کمشنر ضلع غذر کیپٹن (ر) طیب سمیع نے سٹیک ہولڈرز کی منظوری کے بعد سرکاری کاغذ پر دوبارہ اشاعت کر کے "صوبائی” کمیٹی کو فائنل منظوری کے لئے بھجوا دیا۔ اس اشاعت میں ہمارے اداروں (آئی سی آر ڈی اور ایچ آر سی پی) کا لوگو بھی آویزاں کر کے ہماری محنت کا اعتراف بھی کیا گیا۔

ہم خوش تھے کہ ہمارا جامع ایکشن پلان جونہی منظور ہوگا ہم اپنی والنٹیئرز کے گراس روٹ نیٹ ورک کو استعمال میں لاتے ہوئے کام شروع کریں گے مگر ہمیں اخبار سے معلوم ہوا کہ خودکشیوں کی روک تھام کے لیے مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے اعلی حکام کا ایک شاندار اجلاس غذر میں منعقد ہوا جس میں آغا خان یونیورسٹی اور آغا خان ہیلتھ سروسز کے بنائے ہوئے ایکشن پلان پر کام کا باقاعدہ آغاز کرنے کی زمہ داری جی بی آر ایس اپی اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک این جی او (روزن) کو دی گئی۔ ہم حیران تھے کہ جب آغاخان یونیورسٹی اور آغا خان ہیلتھ سروسز سے ہی ایکشن پلان بنوانا تھا تو ہم سے اضافی ایکشن پلان کیوں بنوایا گیا۔ مگر سب سے دلچسپ پہلو اس کہانی کا یہ نکلا کہ ہمارے بنائے ہوئے ایکشن پلان اور ہماری محنت سے ہمارے اداروں کے مونوگرام کو اٹھا کر ان دو اداروں کے مونوگرام آویزاں کئے گئے ہیں۔ یہ سب سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کردہ کروڑوں کی فنڈ کو ہضم کرنے کی نیت سے کیا گیا ہے۔

ہم (آئی سی آر ڈی اور ایچ آر سی پی) اپنی انٹیلیکچول پراپرٹی رائٹس اور اپنی محنت کی دانستہ چوری کے ہرجانے کا کیس سرکار اور غیر سرکاری منافقین کے خلاف دائر کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔ مگر ہم عوام کو (بالخصوص نوجوانوں کو) یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ کی ذہنی صحت اور آپ کی قیمتی جانیں سرکار اور ان نام نہاد این جی آوز کی ترجیحات میں ہرگز شامل نہیں ہیں۔ ان کو خودکشیوں کے نام پر محض اپنی سیاسی و کاروباری مقاصد کو وسعت دینا ہے۔ جب یہ ادارے انسداد خود کشی کے نام پر آپ کے پاس آئیں تو ان سے پوچھیں کہ متعلقہ موضوع پر ان کی معروضی مہارتیں کیا ہے؟ یہی سوال ہم سے بھی پوچھیں۔

ہم اپنے نوجوانوں کی جانوں کو آپ کے کاروبار کا وسیلہ نہیں بننے دیں گے۔

نوٹ: کسی کو اس ضمن میں مزید معلومات اور تفصیلات درکار ہوں تو ہم سے مندرجہ زیل نمبر اور سی میل پر رابطہ کر سکتے ہیں۔ 03555979063 | anayatbaig.pk@gmail.com

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button