امواتکالمز

بریگیڈیر ذاکر حسین کا سانحہ ارتحال

تحریر:ثاقب احمد

عرض کیا "مجھے اپنے دعاوں میں یاد رکھنا” .فرمایا کہ "اپنے اخلاق کو ایسا بناو کہ لوگ خود دعا کرنے پر مجبور ہوجائیں تمھیں دعا کے لئے کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑے”.
دو شخصیات ایسی تھیں جو ان الفاظ کے مصداق تھیں. ایک برگیڈیر ذاکر حسین جو کہ ہمارے ماموں جان تھے دوسرے ڈاکٹر کفایت اللہ خان جوکہ ہمارے دادا جان تھے.
خدا شاہد ہے کہ آج تک ان کے وارثان کو ان کے لئے دعا کے لیے کہنے کی ضرورت تک نہ پڑھی ہوگی کیونکہ ان ہستیوں کے اخلاق،عادات و خدمات ایسی ہیں کہ ہر شخص خود سے ان کے لئے دعا کرنے پر مجبور ہے.
دونوں مرحومین کو تعلق جگلوٹ سئی کے نواحی گاوں منوٹ سے تھا دونوں کا شمار علاقے کے عظیم ترین شخصیات میں ہوتا تھا.
برگیڈیر ڈاکٹر ذاکر حسین 1968 میں جگلوٹ ڈموٹ سئی کے گاوں برماس میں پیدا ہوئے، آپ کے والد مولانا موسی خان ایک جید عالم دین اور ولی اللہ تھےاور ہائی سکول ڈموٹ میں تدریس کے فرائض سے منسلک تھے.
برگیڈیر ذاکر حسین نے ابتدائی تعلیم ہائی اسکول ڈموٹ سے حاصل کی. شروع ہی سے انتہا درجے کے غیر معمولی ذہانت کے مالک تھےاور اپنی کلاس میں اول درجے کے ساتھ کامیاب ہونا ان کا طرہ امتیاز تھا. اس کے علاوہ بڑوں اور اساتذہ کا احترام ان کو گھٹی میں ملی ہوئی تھی. خوش اخلاق ایسے کہ پہلی ملاقات میں ہی انسان کو اپنا بنا دیتے. اسکول کے بڑے بڑے جلسوں میں اکثر اسٹیج اسکیرٹری کے فرائض کے لیے تمام اساتذہ کے نظریں ان پر مرتکز ہوجاتی تھی. میٹرک کے بعد انہوں نے ایف ایس سی کی تعلیم کے لئے کراچی کے لئے رخت سفر باندھا. لیاری ڈگری کالج سے اعلی نمبروں کے ساتھ ایف ایس سی مکمل کی. ایف ایس سی کے بعد انہوں نے پاکستان آئر فورس میں پائلٹ کیلے issb میں اپلائی کیا اور ساتھ ہی ایم بی بی ایس کے داخلے کے لئے بھی ٹیسٹ میں شامل ہوئے. ان کی بے انتہا قابلیت پر مہر لگانے کی لئے یہ چیز ہی کافی تھی کہ آپ بیک وقت ہی آئر فورس اور ایم بی بی ایس دونوں کے لئے منتخب ہوئے اور دونوں طرف سے کال لیٹر آپ کو موصول ہوئے اور دونوں شعبوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کے الجھن میں محصور ہوگئے. آخر کار والد صاحب کی خدمت خلق کے جذبے، فضائل اور خواہش کے تحت انہوں نے میڈیکل کے شعبے کو اپنے مسقبل کے لئے چن لیا اور راولپنڈی میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کی تعلیم کے لئے روانہ ہوئے، یوں یہ سفر چلتا رہا اور دل میں یونیفارم آفیسر نہ بن سکنے کی قلق بھی دن بدن ان کو گھائل کرتی جارہی. 1992 میں آپ نے راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی سے بطور ڈاکٹر اپنی ڈگری مکمل کی.
اللہ تعالی نے اول وقت سے ہی ان میں آفیسروں کی تمام صلاحیتیں ودیعت رکھی تھی اسکے علاوہ پاکستان آرمی میں بطور آفیسر اپنی خدمات سر انجام دینا ان کی دیرینہ خواہش بھی تھی اور ایک ضد بھی تھی جس کی بنا پر انہوں نے پاکستان آرمی کے میڈیکل کور میں اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا بلآخر 1993 میں انہوں نے پاکستان آرمی میڈیکل کور میں کمیشن حاصل کر لی اور ڈائریکٹ کپتان کے عہدے پر فائز ہوئے .
دوران سروس آپ نے مختلف علاقوں میں اپنی خدمات سر انجام دی اور ترقی کے منازل طے کرتے گئے.ایک ماہر ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا شمار قابل ترین آفیسروں میں بھی ہوتا تھا جس کی بنا پر آپ کو پانچ سال کیلے انٹرنیشل دورے پر ملک سے باہر بھیجا گیا ایک سال آپ نے سعودی عرب میں حجاج کرام کے میڈیکل کی خدمات بھی سر انجام دی ہے.
ان کی پیشہ ورانہ قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کی بنا پر اللہ تعالی نے بہت جلد ہی کامیابیوں کے منازل کی طرف گامزن کر دیا، چند سالوں میں ہی آپ میجر پھر کرنل اور برگیڈیر کے عہدے پر فائز ہوئے . انہوں نے اکثر اپنی خدمات ایڈمنیسٹریٹر کے طور پر سر انجام دی ہے جس میں لاہور سی ایم ایچ، قمز میڈیکل کالج کوئٹہ اور ایبٹ آباد سی ایم ایچ قابل ذکر ہیں. قمز میڈیکل کالج کوئٹہ میں بطور وائس پرنسپل کے بھی اپنی خدمات سر انجام دی.
2022 میں ان کا تبادلہ بطور کمانڈنگ آفیسر سی ایم ایچ ایبٹ آباد میں ہوا اور آخری وقت تک سی ایم ایچ ایبٹ آباد میں کمانڈ کے فرائض سے وابسطہ رہے.
سادگی اور محبت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود خوشی اور غمی کے موقعوں پر اپنوں کو یاد کرنا ان کا شیوہ تھا
حالیہ عید الاضحی سے چند دن پہلے اپنے آبائی علاقے جگلوٹ سئی کا مختصر دورہ کیا جس میں اپنوں سے خوب ملاقاتیں کی سفر سے واپسی پر آپ جگر کے عارضے میں مبتلا ہونے، چند دن سی ایم ایچ ایبٹ آباد میں زیر علاج رہنے کے بعد انہیں سی ایم ایچ راولپنڈی منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹرز جانفشانی کے ساتھ ان کا علاج کرتے رہے لیکن ان کی طبیعت دن بدن مزید ناساز ہوتی گئی، اسی طرح تقریبا 19 دن تک سی ایم ایچ راولپنڈی میں زیر علاج رہے
آخر کار غموں کے بادلوں کے ساتھ وہ دن بھی آگیا جب آپ اپنے خالق حقیقی کے ساتھ ملاقات کے لئے پر تول رہے تھے. کم عمری اور اپنے فرائض کے ساتھ وفاداری اور اپنی بے انتہا قابلیت کی وجہ سے عنقریب آپ جرنیل کے عہدے پر ترقی پانے والے تھے لیکن زندگی نے وفا نہ کی کہ علاقہ جگلوٹ سئی اپنے ایک عظیم سپوت سمیت اس عظیم اعزاز سے بھی محروم ہوا.
31 جولائی 2023 کو آپ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے اور اپنے تمام اقارب سمیت پورے علاقے کو سوگوار چھوڑ گئے.
ان کا پہلا جنازہ جنرل ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں پورے فوجی اعزاز و اکرام کے ساتھ ادا کیا گیا جس میں پاکستان آرمی کے نامور شخصیات نے شرکت کی ل. اس کےبعد ان کی میت کو ایبٹ آباد منتقل کیا گیا جہاں پر انکے عزیز و اقارب کی معیت میں ایک بار پھر پورے فوجی اعزاز و اکرام کے ساتھ جنازہ ادا کیا گیا جس کے بعد فوجی اعزاز و اکرام کے ساتھ میت کو ایبٹ آباد کے فوجی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا. انا للہ و انا الیہ راجعون.
سوگواروں میں تین بیٹے کیپٹن راحیل کیپٹن عنزہ اور کیڈٹ طلحہ اور دو بیٹیاں جن میں سے ایک کیپٹن ہے شامل ہیں.
ان کے اعلی اخلاق اور رحمدلی کے ثبوت کے لئے ان کے اس اچانک سفر آخرت پر پورے اھلیان علاقہ کا سوگوار ہونے کے علاوہ ان کے ماتحتوں اور ملازمین و خادمین کی آپس میں گلے مل کر وہ فلک شگاف آہ و فغان اور چیخ و پکار ہی کافی تھی جن کو دیکھ کر ہمالیہ جیسے پہاڑ بھی عدم برداشت سے پگھل جاتے.
اللہ پاک مرحوم کے درجات کو بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء کرے سوگوروں کو صبر جمیل عطاء کرے.
ہوے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئ آسمان کیسے کیسے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button