ڈپٹی کمشنر کھرمنگ کے نام ٹاون ایریا کے عوام کا کھلا خط ۔ ۔ ۔ ۔
جناب ڈپٹی کمشنر کھرمنگ صاحب،
حال ہی میں ضلعی ہیڈکوارٹر سے ملحقہ علاقوں کے کچھ مسائل کی نشاندہی کیلئے اہل علاقہ کے حکم کے مطابق آپ کے دفتر کا چکر لگایا تو معلوم ہوا کہ آپ آرام فرما رہے ہیں ۔ اس لئے ہم نے آپکی خلوت میں خلل ڈالنا مناسب نہیں سمجھا اور علاقے کے کچھ حل طلب مسائل اور کچھ آنکھوں دیکھا حال پرنٹ اور سوشل میڈیا کی وساطت سے گوش گزار کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔
ضلع کھرمنگ میں سیاحت کے کثیر مواقع ہونے کے باوجود انتظامی کمزوریوں کے سبب بدقسمتی سے سیاحت کا شعبہ اب عوام کے لئے عذاب بن گیا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ضلع کھرمنگ میں روزانہ 25 سو سے زائد ملکی اورغیر ملکی سیاحوں کی چھوٹی بڑی گاڑیاں داخل ہوتی ہیں اور ان گاڑیوں سے کسی قسم کا ٹول ٹیکس وصول نہیں کیا جاتاہے۔
دوسری بات ان ہزاروں کی تعداد میں آنے والے سیاحوں کا زیادہ تر ٹھہراو منٹھوکھا آبشار اور ملحقہ ندی کے کنارے ہوتا ہے ۔ یوں ماحولیاتی آلودگی ان علاقوں میں عروج پر ہے ۔ ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ سیاحوں کی یلغار، سہولیات کا فقدان اورصاف شفاف پانی کے تحفظ کیلئے ضلعی انتظامیہ کی عدم توجہی کے سبب ندی سے ملحقہ علاقوں میں ہیضہ اور یرقان جیسی بیماریاں عام ہوچکی ہیں جو آنے والے وقتوں میں لاوا کی شکل میں پھٹ کر سنگین انسانی المیہ برپا کرسکتا ہے۔
اسی طرح آبشار روڈ ژھوق مادھوپور کے مقام پر آبادی کے درمیان سے گزرتی ہے لیکن کہیں پر بھی زیبرا کراسنگ یا اسپیڈ بریکر نہیں ہے۔ اہل علاقہ کے مطابق اُنہوں نے کئی بار اپنی مدد آپ کے تحت زیبرا کراسنگ لگایا جسے ضلعی انتظامیہ نے یہ کہہ کر توڑ دیا کہ اس شاہراہ پر زیبرا کراسنگ، اسپیڈبریکر کی اجازت نہیں ہے ۔ اہل علاقہ کے مطابق گاڑیوں کی تیز رفتاری کے سبب اب تک کئی افراد زخمی ہوچکے ہیں ۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ایک طرف آبشار تا لب دریائے سندھ ناجائز تجاوزات کے خلاف کریک ڈاؤن کے نام پر عام عوام کو مسلسل تنگ کیا جاتا ہے لیکن آبشار کے بلکل نیچے ندی کا قدرتی راستہ بند کرکے سرکاری ریسٹ ہاوس بنایا گیا ہے ۔ اسی لائن میں تا لب دریائے سندھ ندی کے اطراف بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہوٹلوں کی تعمیرات کا کام بے ہنگام طریقے سے عروج پر ہے ۔ جس سے نہ صرف قدرتی طور پر صاف شفاف ندی کے پانی کی بقاء کو شدید خطرہ لاحق ہے وہیں ندی کا قدرتی راستہ بند کرنے کی وجہ سے کسی بھی وقت طوفان آنے کی صورت میں پورے علاقے کی آبادی اور زرعی زمینوں کو بہا کر لے جایا جاسکتا ہے ۔ جس کی مثال سوات ہے جہاں بلکل اسی انداز میں ندی کو بند کرکے لگژری ہوٹلز بنایا گیا تھا جو سیلاب کی وجہ سے گزشتہ سال چند منٹ میں ملیامیٹ ہوگیا ۔
اسی طرح اگر ہم پرائس کنٹرول اتھارٹی،فصلوں اور پھلوں کو لاحق بیماریوں کی بات کریں تو ضلع بھر میں غیر معیاری اشیائے خوردنوش کی فروخت سنگین شکل اختیار کرچکی ہے، فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ خوبانی کے موسم میں دوائیوں کا اسپرے نہ ہونے کی وجہ سے خوبانی کا فصل تباہ ہوگیا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ۔
علاقے کے معاملات پر نظر رکھنے والے کچھ یوتھ رہنماؤں کے مطابق تمام قسم کے غیر معیاری اشیاء کو کھرمنگ میں معیاری اشیاء کی قیمت پر فروخت کیاجاتا ہے۔ تندوری روٹی کا سائز سکڑ گیا ہے لیکن قیمت شہروں سے پہلے بھی زیادہ لی جاتی ہے حالانکہ یہاں نہ ٹیکس دینا پڑتا ہے نہ بجلی مہنگی اورنہ ہی دوکانوں کے زیادہ کرایوں کا مسلہ ہے ۔ یعنی اس ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین بھی بس سرکاری خزانے پر بوجھ بنے ہوے ہیں۔
محکمہ برقیات کی بات کریں توبغیر کسی معاوضے شاخ تراشی کے نام پرعام آدمی کے درختوں کا قتل عام قانون سمجھ کر کیا جاتا ہے، جو کہ جرم ہے مگر ضلعی انتظامیہ یہاں بھی تماشائی نظر آتا ہے ۔ محکمہ برقیات کی اولین ذمہ اری ہے کہ تمام ہائی ولیٹیج لائنوں پر کور کیبل لگائیں ۔ ضلعی ہیڈ کوارٹر سے ملحق علاقے غاسنگ،آخونپہ،منٹھوکھا،مادھوپور،منٹھو،گوہری کے عوام اس حوالے سے شدید تحفظات رکھتے ہیں اور ٹاون ایریا کی سہولیات فراہم نہ کرنا ڈپٹی کمشنر کی ناکامی قرار دیتے ہیں ۔
یہاں یقیناً محکمہ زراعت اور لائیو اسٹاک کا بھی ادارہ ہوگا اور لوگ باقاعدہ تنخواہ بھی لے رہے ہونگے لیکن جانوروں اور فصلوں کی بیماریاں اس علاقے میں گزشتہ کئی سالوں سے رقص کر رہی ہیں۔
اسی طرح بلدیاتی ادارہ غیر فعال ہونے کی وجہ سے آج پورے علاقے سے کچرا اٹھانے کا کوئی انتظام نہیں ۔ لوگ گھروں کے کچرے ندی اور دریا میں بہا دیتے ہیں جس سے آبی حیات کو خطرہ لاحق ہے اور ماحولیاتی آلودگی میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ کچروں کو ڈمپینگ کرکے کھاد بنایا جاسکتا ہے لیکن یہ کام کرے اور کروائے کون؟
روڈ قلی سڑک کنارے سیاسی تجزیات پیش کرتے سوشل میڈیا پر مسلسل نظر آتے ہیں لیکن لنک روڈ کی صفائی اور دیکھ بھال ایسا لگتا ہے کہ اُنہوں نے نہیں بلکہ عوام نے کرنا ہے ۔ ہمارے علاقے میں سیاحت کے نام پر ثقافتی یلغار آئی ہے ۔سیاحتی مقامات پر ناقص صفائی اور سیورج کے پانی کا ندی میں اخراج فحاشیت، بے حیائی عام ہوگیا ہے۔ جسے ترقی کا نام دیکر چند افراد کی زندگیا ں کو بدل گیا ہے لیکن ہمارا علاقہ ہر لحاظ سے تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور علاقے کے وجود کی بقاء کیلئے شدیدخطرہ ہے ۔ علاقے کی قدرتی خوبصورتی کو بحال رکھ کر سیاحت کے مواقع پیدا کرنا ضلعی انتظامیہ کی اولین ذمہ داری ہے ۔ بدقسمتی سےمنبران مساجد بھی اس حوالے سے مصلحت پسندی کا شکار نظر آتا ہے علاقے میں آوارہ یوتھ کی تعداد بھیڑ بکریوں کے ریوڑھ کی طرح میں غم روزگار بے غم، معاشرتی احساس ذمہ داری بلکل فارغ نظر آتا ہے ۔
اسی طرح غاسنگ اخونپہ کے مقام پر دریا کی کٹائی روکنے کے پہلی بار دریا کے اُس طرف کھدائی کرکے دریاسندھ کا رُخ موڑنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن دوسری طرف منٹھوکھا کے مقام پانی کا رُخ موڑنے کے نام پر پر دریا کو روکا جارہاہے جس کے نتیجے میں اگلے چند سالوں میں سرکاری پارک بھی دریا سندھ کا حصہ بن سکتا ہے ۔ اسی طرح غاسنگ نالہ میں سیاحت ،زراعت کثیر مواقع ہونے کے باوجود فقط چار کلومیٹرسڑک نہ ہونے کی وجہ سے عوام کیلئے کاشتکاری ناممکن ہوگیا ہے ۔ ضلعی انتظامیہ کو چاہئے کہ اس نالے میں رابطہ سڑک بنانے کیلئے عملی اقدام اُٹھائیں تاکہ عوام کے ساتھ سرکاری خزانے کو بھی اس علاقے سے فائدہ ہو ۔
اسی طرح شاہراہ کھرمنگ سے فلٹوس گلتری تک زیر تعمیر روڈ کے حوالے سے اہل علاقہ میں شدید تشویش پایا جاتا ہے۔متاثرین کے مطابق گزشتہ سال روڈ بنانے والوں نے رنگول کے مقام پر کئی کلومیٹر طویل قدیم بندوبستی واٹر چینل تباہ کردیا جسکی وجہ سے کئی سو کنال اراضی پرکھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں اور ڈپٹی کمشنر کھرمنگ کے نوٹس میں لانے کے باوجود مسلہ آج تک حل نہیں ہوا۔ اسی طرح اہل علاقہ اور کچھ متاثرین کے مطابق مذکورہ سڑک، منٹھوکھا پارک ، آبشار روڈ کے معاوضوں کی ادائیگیوں میں بھی غبن کرکےمتاثرین سے زیادہ غیر متعلقہ لوگوں کو نوازا گیا ہے اس حوالے سے بھی ضلعی انتظامیہ لاعلم نظر آتا ہے۔
اسی طرح سرکاری اور نجی اسکولوں کا نظام تعلیم بھی بچوں کی تربیت اساتذہ کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں کوتاہی بھی توجہ طلب ہے۔
لہذا ڈپٹی کمشنر کھرمنگ سے توقع کرتے ہیں کہ اس قسم کے عوامی مسائل کے حل کیلئے اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک ذمہ دار اور فرض شناس آفیسر ہونے کا عملی ثبوت پیش کرتے ہوئے ضلعی ہیڈکوارٹر سے ملحقہ علاقوں کے مسائل کو اولین ترجیح پر حل کریں گے۔
نوٹ: اس کالم میں صرف ضلعی ہیڈکوارٹر سے ملحق علاقوں کے درپیش مسائل کی نشاندہی کی ہے ۔