امن کی راہ میں حائل پالیسیاں
امتیاز علی تاج
سینئر صحافی و تجزیہ کار
گلگت بلتستان کی داخلی صورت حال کے بارے میں ملکی و غیر ملکی میڈیا میں چلنے والی تشویش ناک خبروں پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے رواں ہفتے علاقے کا دو روزہ دورہ کیا ۔اپنے دورے میں انہوں نے گلگت بلتستان کابینہ، مذہبی طبقوں کے ساتھ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی علاقائی قیادت کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں اور درپیش آمن و امان کی صورتحال پر سیر حاصل مشاورت کی ان ملاقاتوں میں کابینہ اور سیاسی جماعتوں نے کیا تجاویز دئیے اس کے تمام معلومات تو سامنے نہیں ائے مگر وزیر اعظم نے اپنی تقریر بعدازاں کابینہ کی میڈیا بریفنگ میں ان ملاقاتوں اور مشاورتی اجلاسوں میں ہونے والی انڈرسٹینڈنگ کو بہت ہی محتاط اور سیاسی انداز میں اس کا زکر کیا گیا۔ اس سے قبل وزیر اعظم کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی کہ انہوں نے امن و امان اور فرقہ وارانہ تنازعے کا باعث بننے والے عناصر کو سختی سے کچلنے کی ہدایت کی ہے ۔وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اخوت بھائی چارے اور قومی یک جہتی کو سبوتاژ کرنے والے عناصر کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے سختی سے پیش آنے کا عزم ظاہر کیا۔ساتھ انہوں نے گلگت بلتستان عوام کو آ ئینی حقوق کی بھی خوشخبری دی وزیر اعظم نے گلگت بلتستان کے علماء کو قریب لانے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل یا اس طرز کا پلیٹ فارم تشکیل دینے پر کام شروع کر دینے کی ہدایت کی ہے ۔
وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے جذبات اور خیالات سے اختلاف ممکن نہیں اور ہونا ایسا ہی چاہیے کہ جو بھی فرقہ پرستی کے رحجانات اور مسلکی تفرقہ کو ہوا دیکر عوام کو خون خرابے پر آمادہ کرتا ہے اس کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ اس ہیمار فرقہ وارنہ سوچ کی بیخ کنی ممکن ہو سکے جس سے عوام کے جان و کے تحفظ کے ساتھ اتحاد اور اخوت کو ماحول کو ہر حال برقرار رکھا جاسکے گلگت بلتستان میں قانون کا اطلاق اس کے تقاضوں کے مطابق نہ کرنے کی وجہ سے علاقے میں وقتاً فوقتاً اس طرح کے چلنجز کا سامنا رہتا ہے یہاں تو روز اول سے اس چیلنج کے بارے میں یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ جن سرکاری اداروں کو ان قانون شکن فرقہ پرستوں کے خلاف کارروائی کیا جانا چاہیے وہ ان کے لیے نہایت نرم گوشہ رکھتے ہیں اور دوستانہ تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں اس وجہ سے اکثر ان کی فرمائش پر تقرریاں ،تبادلوں کے علاؤہ ٹھیکے اور دیگر مطالبات بھی بلا تاخیر پورے کے جاتے ہیں۔ یعنی سوویت یونین کے خلاف جنگ میں مجاہدین کے کمانڈروں کو جو پروٹوکول اور درجہ حاصل تھا وہ گلگت بلتستان کے فرقہ پرست لیڈروں کو حاصل ہے۔ اس وجہ سے نیم پڑھے لکھے نوجوان ان کو فالو کرتے ہیں جس سے فرقہ پرستی کے رحجانات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے،
فرقہ پرستوں اور سرکاری اداروں کے اس غیر فطری تعلقات پر طبقوں کا کہنا ہے کہ جب بھی سرکاری بعض پالیسیوں کے تحت تقاریر کرنا یا جلسہ جلوس مقصود ہو تو یہ طبقہ سرکاری خواہشات کی تکمیل میں نمایاں رہتا ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ان خوشگوار تعلقات کو ایک دم بگاڑ کر لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا کر کے انہیں پریشانی سے دوچار کریں؟
اس مثالی دوستی کی ایک اور کرم نوازی یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے متعدد افراد جن میں منتخب رکن اسمبلی اور حکومتی وزیر بھی ہیں کو شیڈول فور میں شامل کر لیا جاتا ہے جبکہ مسلک پرستی میں ملکی استحکام اخوت و بھائی چارے اور قانون کے ساتھ سیکورٹی اداروں کو جوتی کی نوک پر رکھ کر جو دل میں آئے کر گزرنے والوں کو شیڈول فور سے استثنیٰ حاصل ہو تا ہے بلکہ انہیں ہر طرح سے محفوظ بنانے کیلئے فرمائش پر سرکاری محافظ بھی فراہم کیے جاتے ہیں ۔
گلگت بلتستان میں عمومی تاثر یہ ہے کہ علاقے میں فرقہ پرستی کوئی ایشو نہیں بلکہ سرکار کے گملے میں پلنے والے افراد ہی اپنی شخصیت کو بنانے اور نکھارنے کے لیے اس نسخے کا استعمال کر رہے ہیں جن میں اکثریت کالعدم ہونے کے باوجود نفرت آمیز جلسوں اور مظاہروں کے این او سی جاری کیا جاتا ہے۔جبکہ پنجاب سندھ سے سند یافتہ اور حد درجہ خطرناک شخصیات کو گلگت بلتستان میں آکر نفرت پھیلانے کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے جبکہ وہ شیڈول فور کے تحت نہ آسکتے ہیں اور نہ انہیں جلسہ کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔جس کے زریعے وہ اپنے ایجنڈے کو انتہائی نفرت آمیز انداز پورا کر کے چلے جاتے ہیں۔
آخر انہیں اس قدر رعایت کیوں دی جارہی ہے؟ عوام کا ہمیشہ سے یہ سوال ہوتا ہے مگر آج تک کوئی ان سوالات کا جواب تک نہ دے سکا ۔ آج بھی ان سے یہ تعاون ختم اور ان سےمسلکی ہیرو کا درجہ واپس لیا جائے تو انکی بات انکی چارد دیواری میں بھی بے اثر ہو کر رہ جائے گی۔ایسے میں وزیر اعظم کی طرف سے سختی سے نمٹنے کی باتیں روایتی اور ذاتی جزبات کے اظہار کی بے عمل کہانی لگتی ہے۔ یقینا وزیر اعظم نے جب یہ باتیں دھرائی تو بہت سارے دل ہی دل میں ہنستے رہیں ہونگے۔اس لیے وزیر اعظم کو ان حقائق کے پیش نظر گلگت بلتستان میں فرقہ پرستوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی بےعمل باتوں پر اکتفا کرنے کی بجائے ان فرقہ پرستوں کی شخصیت بنانے میں شامل حال سرکاری پالیسوں کو فوری ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔
گلگت بلتستان کابینہ کے وزراء اور مشیروں نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ نگران وزیر اعظم نے خالصتاً گلگت بلتستان کی سیکورٹی صورتحال کی وجہ سے دورہ کیا جس میں انہوں نے ایسے عناصرسے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ہدایت کی ہے اور اگر وہ سیکورٹی کے لیے مزید چیلنج بن گئے تو سیل ایف آئی آر کے مطابق سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔یعنی دھمکی دی ہے کہ حکومت نے کافی برداشت کیا اب حکومتی امن فارمولے پر آجائیں ورنہ گرفتاریاں ہونگی۔
نہیں معلوم کہ یہ الفاظ ادا اور منشا ظاہر کرتے ہوئے وزراء کتنی خوف اور ڈر کی کیفت میں مبتلا ہوئے ہونگے۔
اب دیکھنا یہ کہ حکومت کتنی اپنی بات اور وزیر اعظم کی ہدایت پر ثابت قدم رہتی ہے اس کی حقیقی صورت تب سامنے آ ئے گی جب وزیر اعظم کاروائی کے لیے آ ہنی ہاتھ گلگت بلتستان حکومت کے حوالے کرینگے تب ہمارے وزیر داخلہ اور وزراء جنہوں نے میڈیا ٹاک میں سختی سے نمٹنے کے بلند و بانگ دعوے تو کئے ہیں، مگر جب انہیں سچ مچ میں آ ہنی ہاتھ فراہم کر دیا جائے گا تو وہ اس ہاتھ سے فرقہ پرستوں کا گردن پکڑیں گے یا اپنی شاندار روایات کے مطابق سیلوٹ مارنے کے لیے استعمال کرتے رہیں گے ؟
گو کہ وزراء نے وزیر اعظم کے دورے کو سیکورٹی کے اعتبار سے کامیاب دورہ قرار دیا مگر جس وقت وزیر اعظم اسلام آباد پہنچیں تھے ٹھیک ان ہی لمحات میں ایک اور نفرت آمیز ویڈیو سامنے آئی جس نے تمام سیکورٹی اور مفاہمتی کوششوں کی حقیقتوں کو تشت ازبام کر دیا یہی وجہ ہے کہ دو ہفتے گزرنے کے باوجود نہ کوئی معاہدہ ہو سکا اور نہ ہی کوئی کاروائی ہو سکی ہے۔ لگتا ہے کہ وزیر اعظم کا دورہ بھی زیادہ پُر اثر نہیں ہوا۔ اگر کوئی پیش رفت ہوتی تو یقیناً وزراء بریفنگ میں فخریہ انداز میں اس کا اظہار کر لیتے۔
وزراء کی باڈی لینگویج اور چہرے کے تاثرات بھی ایسے نہیں تھے کہ جس کی بنیادپر یہ کہا جاسکے کہ حالات کی بہتری میں حکومت کو کوئی خاطر خواہ کامیابی ملی ہے۔وزیر اعظم کا دورہ صرف حالات معمول کے مطابق ہونے اور کسی قسم کا چیلنج ریاست کو سامنا نہ ہونے کا تاثر قایم کرنے تھا جو خاص طور پر انڈین میڈیا نے قائم کیا تھا ۔ویسے تو حالات سے بلکل بھی نہیں لگتا کہ گلگت بلتستان کے شہریوں کی معمولات زندگی میں کوئی تعطل پیدا ہوا ہو۔ سب کچھ تو خوشگوار اور پہلے سے بہتر اور دوستانہ انداز میں چل رہا ہے صرف حکومتی خوف ،سیکورٹی سرگرمیاں اور روزمرہ بیانات سے یہ تاثر مل رہا شاید نقص امن کا مسلہ درپیش ہے۔
بہر حال اس بار عوام نے شدید ترین نفرتیں مزہبی رھنماوں کی طرف سے پھیلائے جانے کے باوجود فرقہ پرستی کے دیواروں کو عقلی دھکوں اور شعوری ٹھوکروں سے گرا کر ماضی کی طرح اتحاد بین المسلمین میں رکاوٹ بننے نہیں دیا ۔اکثریت کا یہ ردعمل دیکھ کر مزہبی اجتماعات میں ہر ناجائز بات اور گمراہی پر بے شک کا نعرہ لگانے والوں کو بھی بدامنی پھیلانے کا حوصلہ نہیں ہوا۔
گلگت بلتستان کے باسیوں کو فرقہ پرستی کے رحجانات فروغ دینے والی سرکاری پالیسیوں پر جہاں سخت تحفظات ہیں وہاں علاقائی پالیسوں پر بھی وہ سخت رنجیدہ اور نالاں ہیں۔جس سے صوبائی عصبیت اور نفرتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہونے مستقبل میں ایک نیا چیلنج کا سامنا ہونے کا خطرہ ہے جو پاکستان مخالف طاقتوں اور خاص طور پر انڈین میڈیا کے لیے بڑی خبریں پیدا کرنے کے باعث بن رہا ہے اس لیے انڈین میڈیا کو بریکنگ نیوز دینے کے باعث بننے والے فیصلوں اور اقدامات پر بھی نظر ثانی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
گلگت بلتستان کے دانشور طبقے میں یہ شکایات ہیں کہ خاص طور پر وکلا کو یہ شکایت ہے کہ گلگت بلتستان کا کوئی بھی فرد سپریم اپیلیٹ کورٹ کا چیف جسٹس نہیں بن سکتا دیگر علاقوں سے انتہائی ناہل اور متنازعہ شہرت کے حامل وکلاء اور ریٹائرڈ ججوں کی تعیناتی عمل میں لائی جاتی مگر گلگت بلتستان کے باصلاحیت اور حقدار شخص کو بھی اس عہدے کی زمہ داریاں سنبھالنے کو تسلیم نہیں جاتا ہے اس وجہ سے اس عدالت کے قیام سے آج تک کوئی مقامی جج یا وکیل چیف جسٹس نہ بن سکا ہے ۔
پروفیسرز کو گلہ ہے کہ دونوں یونیورسٹیوں میں مقامی فیکلٹی ممبرز کے وائس چانسلر بننے پر پابندی ہے۔ اسی طرح ڈاکٹروں کا آج کل یہ کہنا کہ کہ وفاق سے آنے والے ڈاکٹروں کو پانچ لاکھ تنخواہیں دی جارہی ہیں جبکہ مقامی تجربہ کار اور سپیشلسٹ ڈاکٹروں کو صرف ڈھائی لاکھ تنخواہوں تک محدود رکھا گیا ہے۔اسی طرح مقامی افسران ان دنوں احتجاج میں ہیں کہ ان کے لیے خزانہ ،منصوبہ بندی ،داخلہ اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری بننے کے لیے قانونی طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔جبکہ انہیں دیگر صوبوں میں تعینات کرنے سے بھی انکار کیا جارہا ہے۔علاوہ ازیں آئی جی بننے اور چیف سیکرٹری کے خدمات انجام دینے میں بھی رکاوٹیں ہونے کی شکایات عام ہیں۔
علاقے کے انتہائی پڑھے لکھے اور باصلاحیت افراد میں اس امتیازی سلوک کی شکایات سے وفاق اور گلگت بلتستان میں نفرتیں جنم لے رہی ہیں اس لیے اس تفرقے کو ختم کر کے کراچی سے گلگت بلتستان تک ایک قوم بنانے کے لیے حقوق کے معاملے میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت پرزور دیا جارہا ہے۔ تاکہ اگر فرقہ واریت سے اگر چھڑ جائے تو یہ علاقائی عصبیت قومی یک جہتی کے لیے نیا اور بڑا چیلنج نہ بن سکے۔ان تمام حقیقتوں اور سچائیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آ ئیندہ اگر یہ صوبائی لسانی و نسلی امتیازات کو جو بھی برقرار رکھے گا وہی انڈین میڈیا کے بریکنگ نیوز کا پروڈیوسر کہلائے گا۔جہاں تک مسلکی نفرتوں کا تعلق ہے اس میں تجویز ہو گی کہ اگر کوئی سیاستدان اس میں ملوث ہو تو انہیں الیکشن لڑنے نہ دیا جائے اگر عام شہری زمہ دار ٹھہرایا جائے تو ان۔کے لیے گندم سبسڈی ختم سمیت تمام شہری سہولیات جیسے کہ کوئی طالبعلم ہے تو سکالر شپ کے لیے نااہل قرار دیا جائے اور اگر بے روزگار ہے تو انہیں سرکاری ملازمتوں کی آخری ترجیح پر رکھا جائے اور کوئی سرکاری افسر ملوث نکلے تو انکی ترقی اور انکریمینٹ روک دی جائے اور ہمیشہ او ایس ڈی رکھا جائے اسی طرح کوئی ٹھیکدار ان سرگرمیوں میں پائے جانے کی صورت میں انکا لائسنس کینسل کر دیا جائے اور دیگر کے لیے بھی ایسی ہی سزائیں مقرر کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرتی سدھار نہ آ سکے۔
ایک طبقہ فکر کی اس تشویش کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے کہ انہیں جان بوجھ کر اقتدار سے محروم کیا جارہا ہے۔مزید آگے بڑھ کر ججز سمیت اہم عہدوں میں کوٹہ سسٹم ختم اور میرٹ اور مکنیزم کے تحت تقرریاں عمل لائی جائے کیونکہ اس سوچ اور پالیسی کے باعث عرصہ دراز سے اسماعیلی اور نوربخشی فرقے کو حد درجہ زیادتی کا سامنا ہے اسماعیلی نمائندہ تنظیمیں وفود کی شکل۔میں سنی شعیہ کی طرح کوٹہ بھی مانگتے ہیں مگر نوربخشی فرقے کو ہاں میں ہاں ملانے سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس لبنانی طرز تقسیم سے علاقے میں بڑے عہدیداروں کی وہ عزت و احترام نہیں جو ملک کے کسی بھی حصے میں حاصل ہے۔