کالمز

روز اختیارات کا رونا منتخب ایوان اور ووٹرز کی توہین

کالم۔ قطرہ قطرہ

گلگت بلتستان اسمبلی کی بے توقیری میں خود اراکین اسمبلی کا بڑا ہاتھ ہے۔ اسمبلی کے استحقاق اور اختیارات کے لئے اراکین کھبی بھی ایک پیج پر نہیں آئے ہیں۔ ابھی زور دار تقریروں سے یہ اختیارات کوئی پلیٹ میں رکھ ان کے ہاتھ میں نہیں تھمائے گا۔ ان کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا۔ اختیارت کاغذوں سے زیادہ عملی طور پر متحرک ہونے سے حاصل کئے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اراکین اسمبلی بنیادی طور پر کن اختیارات کی بات کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ بیوروکریسی، اسمبلی ، حکومت اور عدلیہ کے اختیارات الگ الگ ہوتے ہیں اور یہ ایک دوسرے کے اختیارات میں بلاوجہ مداخلت نہیں کر سکتے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اراکین اسمبلی روزمرہ کے تمام معاملات میں ہر افیسر کو ہدایات جاری کریں۔
اسمبلی کے اختیارات کی بات کی جائے تو جی بی اسمبلی کے پاس ملک کے دیگر صوبوں کی طرح سوائے چند اہم سبجیکٹس کے باقی ہر طرح کی قانون سازی کا اختیار ہے۔ اس کے ساتھ جی بی اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی اور دیگر کمیٹیوں کے پاس متعلقہ محکموں کے احتساب کا بھی پورا پورا اختیار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اختیارات کو سمجھا اور استعمال کیا جائے۔ اگر اراکین اسمبلی ان اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتے ہیں تو یہ ان کی کمزوری اور نا سمجھی ہے۔ سب سے بڑا اختیار اسمبلی کے پاس یہ ہے کہ اس خطے کی آئینی حیثیت ابھی طے نہیں ہے اگر یہ منتخب لوگ چاہیں تو گورننس آرڈر اور رولز بزنس میں درج اختیارات سے بڑھ کر کام کر سکتے ہیں۔ رولز آف بزنس بھی اس سے پہلے اسمبلی کے بنائے ہوئے ہیں جن میں ترمیم کا اختیار اس اسمبلی کو حاصل ہے۔ ان رولز میں ترمیم کے زریعہ حکومت یا اسمبلی مزید اختیارات حا صل کر سکتی ہے جس پر کوئی اگر عدالت جائیگا تو وہاں خطے کی آئینی حیثیت پر بحث ہوسکتی ہے اور پلڑا پھر بھی اسمبلی کا بھاری ہوگا۔
حکومت کے اختیارات اسمبلی کے اختیارات سے مختلف ہوتے ہیں جو کہ رولز آف بزنس میں درج ہیں۔ حکومت اپنے اختیارات کو سمجھے اور ان کا درست استعمال کرے تو بیوروکریسی ان کے سامنے کھڑی نہیں ہوسکتی۔
حکومت یا اسمبلی کے پاس دو طرح کے اختیارت ہوتے ہیں ایک ہے فیصلہ سازی کا اختیار اور دوسرا مالیاتی اختیارات ہیں۔ فیصلہ سازی کا سارا اختیار اسمبلی اور حکومت کے پاس موجود ہے اگر وہ عقلمندی سے اس کا استعمال کریں۔ باقی مالیاتی اختیارات اسمبلی کے پاس بجٹ سازی کا ہے جو کہ دنیا کی ہر اسمبلی کے پاس ہوتے ہیں۔ ترقیاتی سیکموں کی نشاندہی جی بی اسمبلی کے پاس اضافی اختیار ہے ورنہ یہ اختیار باقی دنیا میں مقامی حکومتوں یعنی بلدہاتی اداروں کے پاس ہوتے ہیں۔ صوابدیدی فنڈرز چیف سکریٹری سے زیادہ وزیر اعلی اور وزراء کے پاس ہیں جبکہ جی بی حکومت کے پاس ایک ارب تک کی ترقیاتی سکیموں کی منظوری کا اختیار بھی ہے۔ ہاں تاہم اس کے باوجود چیف سکریٹری سول انتظامی معاملات سے متعلق روزمرہ کا کام دیکھتا ہے اس لئے ان کے پاس دیگر کئ اختیارات ہیں جو کی انتظامی نوعیت کے ہیں۔ پالیسی سازی اور قانون سازی کے اختیارات پھر بھی حکومت اور اسمبلی کے پاس ہی ہیں ۔ صوبائی حکومت اور اسمبلی چاہے تو چیف سکریٹری اور سول سکریٹریٹ کے اختیارات کو وزراء کے ذریعہ اپنے تابع لا سکتی ہے۔ تاہم اس کے لئے حکومتی اراکین اور ممبران اسمبلی میں اتفاق کے ساتھ ساتھ نظام کی موشگافیوں , باریکیوں اور بیوروکریٹک سیٹ اپ سے واقف ہونا ضروری ہے۔ لیکن ایسا ممکن ساری دنیا میں نہیں ہوتا ہے کہ عام سرکاری افیسر منتخب نمائندے کی ہدایت پر روزمرہ امور انجام دے۔ ہر افیسر اپنے سے سنئر کے احکامات کاپابند ہے۔ اگر کسی افیسر سے کوئی کام لینا ہے تو پراپر چینل سے جانا ہوگاماضی میں مہدی شاہ اور حفیظ الرحمن اور خالد خورشید نے کھبی یہ شکوہ نہیں کیا کہ وہ اختیارات نہیں رکھتے۔ وہ سب خود کو با اختیار وزیرائے اعلی گردانتے تھے۔
اگر پراپر چینل استعمال نہیں کیا گیا تو ہوگا یوں کہ کچھ ممبران تو پڑھے لکھے اور رولز سمجھنےوالے ہیں باقی زیادہ تر ایسے اراکین ہیں جو کسی ضابطے کو نہیں سمجھتے وہ پھر ہر جائز ناجائز معاملے میں پڑ کر پہلے سے بگڑے نظام کا مزید کباڑہ کرینگے۔ اس لئے اختیارات کے حوالے سے پراپر چینلز کا تعین کرنا اور اس کو اختیار کرنا لازمی ہے۔ اراکین اسمبلی کو چاہئے کہ اب سرے سے نئے رولز بنائیں اور اختیارات کا تعین کر کے اس قصے کو ہمیشہ کے لئے دفن کریں ورنہ روز اسمبلی میں کھڑے ہوکر اپنے اختیارات کا رونا منتخب ایوان اور ووٹرز دونوں کی توہین ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button