فلک نور کا کیس ٹھنڈے دماغ ، عقل مندی اور دانشمندی کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مروجہ قوانین کے تناظر میں سمجھنا ضروری ہے ۔ یہ کیس پسند کی شادی کا نہیں ہے بلکہ اغوا اور کم عمری کی شادی کا ہے۔ ملکی قوانین کی روشنی میں کم عمری کی شادی پسند سے ہو یا والدین کی رضا مندی سے دونوں صورتوں میں غیر قانونی اور بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
اگر والدین کی رضا مندی شامل ہو تو بھی قانون میں کم عمری کی شادی کا انعقاد کرنے والے تمام افراد بشمول نکاح خواں، گواہ سمیت ہر ایک کو سزا ہوگی۔ اگر کسی نے بہلا پھسلاکر ، لالچ دے کر کسی بچی کو گھر سے شادی کی غرض سے لے گیا ہو تو بھی وہ اغوا اور زبردستی شادی تصور ہوگی جس کے لئے قاانون میں سزا مختص ہے۔
فلک نور کی عمر کا تعین ان کے بیان سے نہیں ہوگا بلکہ قانونی طور پر عمر کا تعین نادرا کا ریکارڈ کرتا ہے جس کے مطابق وہ بارہ سال کی ہے۔ اس لحاظ اس شادی کا بندوبست کرنے والے تمام افراد قانون کی گرفت میں آنے چاہئے۔
پسند کی شادی اس وقت قانونی اور انسانی حقوق کے تناظر میں تصور ہوتی ہے جب لڑکا اور لڑکی دونوں بالغ اور عاقل ہونگے ، شناختی کارڑ رکھتے ہونگے اور اپنے اچھے اور برے کی تمیز جانتے ہونگے۔ جب اٹھارہ سال سے زائد عمر کے دو بالغ مرد عورت والدین کی رضامندی کے بغیر شادی کرتے ہیں تو عدالت ، انسانی حقوق کے ادراے اور قانون ان کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے کیونکہ یہ عمل قانونی لحاظ سے جائز اور قانون کے مطابق ہے، چاہے ان دونوں کا تعلق کسی بھی ذات ، فرقہ یا نسل سے ہو۔
یہ ایک فطری بات ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی تمام تر ضروریات ذندگی مثلا” کھانا پینا ، پہننا ، تعلیم، رہائش سمیت ہر چیز کا فیصلہ والدین کرتے ہیں مگر کم عمر ی کی شادی وہ واحد عمل ہے جس کا اختیار ریاست نے والدین کو نہیں دیا ہے اس لئے ملکی قوانین کے زریعے والدین سمیت تمام شہریوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کم عمری کی شادی کا انعقاد نہیں کرسکتے۔ اٹھارہ سال تک پہنچنے کے بعد خود نوجوان لڑکی اور لڑکا پسند سے شادی بھی کر سکتے ہیں چاہے وہ والدین کی رضامندی سے ہو یا کورٹ کے زریعہ ہو۔
بچوں کی شادی کی ممانعت کیوں ہے اس کے پیچھے طبی، قانونی، سماجی، معاشی، معاشرتی و سائنسی وجوہات ہیں جن کا ذکر ہم ان سطور میں کرینگے۔ اس سے پہلے اس قانون کا ادارک ضروری ہے جس کے تحت کم عمری کی شادی غیر قانونی قرار دی گئ ہے۔
پاکستان میں کم عمری کی شادی کی ممانعت کا 1929 کا قانون قومی سطح پر نافذ العمل ہے جس میں بچی کی سولہ سال سے کم اور بچے کی 18 سال سے کم عمر کی شادی قانوناً جرم ہے۔ بچوں کے حقوق کا بین الاقوامی کنونشن جس کا پاکستان دستخط و توثیق کنندہ ہے کے مطابق بچے یا بچی کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی بچوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کے صوبوں نے اپنے لئے الگ الگ قوانین بھی بنائے ہیں تاہم جس صوبے کا اپنا قانون موجود نہیں ہے وہاں مذکورہ قومی قانون نافذالعمل تصور ہوتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک نے بچوں کی کم عمری کی شادی کے خلاف قوانین بنائے ہیں جن میں اسلامی ممالک بھی شامل ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ دنیا میں کہیں پر بھی کم عمری کی شادی کی اجازت نہیں ہے۔
کم عمری میں شادی کی ممانعت اس لئے ہے کہ اس کے انتہائی منفی اثرات شادی شدہ بچہ یا بچی کے علاوہ ان سے پیدا ہونے والی نسل پر بھی پڑتے ہیں۔ شادی ایک ثقافتی سرگرمی ہی نہیں بلکہ انسانی صحت اور ترقی کا مسلہ بھی ہے۔ شادی صرف جنسی آسودگی کے لئے نہیں بلکہ ایک خاندان کا ادارہ قائم کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔ اس لئے شادہ شدہ جوڑے پر خاندانی و سماجی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پورے عقل و شعور ، جسمانی و ذہنی مضبوطی و معاشی بندوبست کے ساتھ شادی کریں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکا یا لڑکی جسمانی و ذہنی طور پر اتنے مضبوط نہیں ہوتے اس لئے ان کی صحت شادی کے بعد مثاثر ہوجاتی ہے۔خاص طور سے کم عمر لڑکی اگر ماں بن جاتی ہے تو نہ صرف اس کے لئے درکار خون کی قلت کا سامنا ہوتا ہے بلکہ اس سے پیدا ہونے والے بچے بھی خون کی قلت اور دیگر بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں ۔ کم عمر ماں کی ہڈیاں اتنی مضبوط نہیں ہوتی ہیں کہ وہ بچہ جنم دینے کی سختی برداشت کر سکے۔ اسی طرح کم عمری کی شادی کی وجہ سے تعلیم سمیت لڑکا یا لڑکی کے آگے بڑھنے کا عمل بھی رک جاتا ہے۔ وہ سماجی طور پر پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کم عمر جوڑا ذہنی طور پر اتنا بالغ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور بہتر تربیت کر سکے۔ کم عمری کی شادی کے باعث مسلسل اور بلا روک درجن بھر بچے پیدا کرنے کی صورت میں ان کی تعلیم و تربیت اور دیکھ بھال کے لئے وسائل کی کمی ہوجاتی ہے جس سے نمٹنے کے لئے بچوں سے مشقت لیا جاتا ، بھیک مانگنے پر مجبور کیا جاتا یا ان کی تعلیم و تربیت کے لئے وقت اور وسائل فراہم نہ کئے جانے کی وجہ سے وہ مفید شہری ثابت نہیں ہوسکتے۔ بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی پاکستان جیسے ملک میں غربت کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔
مذکورہ وجوہات سمیت دیگر کئ وجوہات کی وجہ سے کم عمری کی شادی کی دنیا بھر میں ممانعت ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں میں اب بھی اس کا شعور نہیں ہے۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں یہ سماجی مسلہ پایا جاتا ہے جبکہ گلگت بلتستان حکومت کی طرف سے 2017 کے ملٹی کلسٹر انڈیکیٹرز سروے کے مطابق گلگت بلتستان میں کم عمری کی شادی کی شرح 26 فیصد ہے. جس کی بنیاد پر پالپولیشن کونسل اور یو این ایف پی اے کے اشتراک سے ایک ریسرچ سٹیڈی بھی گئ تھی جس کا حصہ راقم بھی تھا۔ اس ضمن میں 2015 میں مسلم لیگ کی حکومت نے گلگت بلتستان میں اس مسلے کو روکنے کے لئے الگ قانون بنانے کی کوشش بھی کی تھی اور قانون کا مسودہ اسمبلی میں پیش بھی ہوا تھا مگر چند اراکین اسمبلی کی مخالفت کی وجہ سے وہ قانون نہیں بن سکا۔ پچھلے مہینے خواتین کے قومی کمیشن کی سربراہ نیلوفر بختیار نے بھی اس ضمن میں کوشش کی تھی مگر وہ بارآور ثابت نہیں ہوسکی۔ اس بات کا یہاں خصوصی ذکر ضروری ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے 2021 میں اپنے ایک اہم فیصلے میں یہ قرار دیا ہے کہ پاکستان کے صوبے عمر کی حد مقرر کر کے اس پر قانون سازی کر سکتے ہیں۔
گذشتہ دنوں گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں ایک دوسری جماعت کے نو سالہ طالب علم کی تیرہ سالہ بچی سے شادی کرادی گئ تو بجائے اس پر سنجیدہ بات چیت کرنے کے اس کو سوشل میڈیا میں مذاق کا زریعہ بنایا گیا۔ واضح رہے کہ یہ ایک انتہائی سنجیدہ اور توجہ طلب سماجی مسلہ ہے کیونکہ اس سے معاشرے کی اجتماعی تعمیر ترقی متاثر ہونے کے علاوہ بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ حکومت گلگت بلتستان کو چاہئے کہ قومی قانون پر فوری عملدرآمد کے ساتھ گلگت بلتستان میں کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لئے دیگر صوبوں کی طرح الگ سے قانون بھی بنایا جائے اور اس پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے، نیز تمام بچوں کا میڑک تک تعلیم حاصل کرنا لازمی قرار دیا جائے تاکہ ہم محض آبادی بڑھانے کی بجائے مفید اور کارآمد شہری پیدا کرسکیں جو اپنے خاندان اور معاشرے کی ترقی میں بہتر کردار ادا کرسکیں ۔
جو بنیادی اور اہم بات ہے وہ یہ کہ کم عمری کی شادی کی حوصلہ شکنی کی جائے کیونکہ یہ بچوں کی اور ان کی آئندہ نسلوں کی زندگیوں کے لئے خطرناک ہے۔ اس ضمن میں لوگوں کو آگاہی دی جائے۔ وہ عاقل و بالغ کی شادی اور کم عمر بچوں کی شادی میں فرق سمجھا کریں اور اس کے مضر اثرات سے آگاہ رہیں۔ ننھنی بچیوں کے کھیلنے کی عمر میں شادی رچانے کا عمل قانونا” بھی جرم ہے جبکہ انسانی عقل سلیم اور ضمیر بھی فطری طور پر یہ گورا نہیں کر سکتا کہ ننھنی منھنی بچیوں کی شادی کر کے ان پر بھاری سماجی، گھریلو، معاشرتی فرائض کے علاوہ ذہنی، جسمانی و جنسی بوجھ لادا جائے جس کو اٹھانے کے لئے ان کے پاس سکت ہرگز نہیں ہوتی۔ بچیاں رحمت ہوتی ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں بچیوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ دور جہالت سے بھی ابتر ہے۔ بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ ان کا تحفظ اور بہتر نگہداشت پورے معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اپنی بچیوں پر رحم کریں اور ان کے لئے ساتھ غیر انسانی سلوک کی حوصلہ شکنی کریں۔