کالمز
بی این ایف اور پیپلز پارٹی سے متعلق راجہ کاکا جان کی پیشگوئی
بالاورستان نیشنل فرنٹ (حمید گروپ) کے عروج کا زمانہ تھا۔ تنظیم کے سربراہ عبدالحمید خان خود جلاوطنی میں رہ کر کارکنوں پر نوٹوں کی بارش برسا رہے تھے۔ مقصد یہی تھا کہ ان پیسوں سے جگہ جگہ عوامی اجتماعات منعقد کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تنظیم کی طرف راغب کیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے کارکن بانی تحریک کے اس خواب کو سچائی سے تعبیر کرنے میں یکسر ناکام رہے۔اس ناکامی کے پیچھے کیا وجوہات تھیں وہ کسی اور موقع پر زیب قرطاس کرتے ہیں۔ فی الحال آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں۔
بالاورستان نیشنل فرنٹ کے عروج کے دنوں یاسین میں کہی فٹ بال ٹورنامنٹ کا انعقاد ہو رہا تھا۔ ٹورنامنٹ کے فائنل میچ کے مہمان خصوصی کے طور پر بی این ایف کو کسی بااثر شخصیت کی تلاش تھی۔ بڑی سوچ بچار کے بعد گاؤں سندی کے معزز و معتبر سیاسی و سماجی شخصیت راجہ کاکا جان (مرحوم) کا انتخاب کیا گیا۔
راجہ صاحب کی پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ دیرینہ وابستگی تھی اور ان دنوں وہ پی پی پی یاسین کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ اس صورت میں ایک وفاقی جماعت کے اہم عہدیدار کے لئے کسی علحیدگی پسند تنظیم کے ایونٹ میں شرکت کوئی آسان فیصلہ نہ تھا۔ مگر راجہ صاحب کو سیاست کے علاوہ کھیل و تفریح کی سرگرمیوں میں بڑی دلچسپی تھی۔ چنانچہ بلا روک ٹوک ٹورنامنٹ کے فائنل میچ میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی حامی بھر لی۔
الغرض وہ دن آگیا۔ ٹورنامنٹ کا فائنل میچ شروع ہو کر اختتام بھی ہوا۔ جیتنے والی ٹیموں نے ڈھول کی تھاپ پر رقص پیش کی تماشائیوں نے پرجوش تالیاں بجائیں۔ آخر میں مہمان خصوصی کے ہاتھوں انعامات بھی تقسیم کئے گئے۔
اب رہ گیا اختتامیہ کلمات والا سیگمنٹ جس کا سمبھی بے چینی سے انتظار میں تھے۔ بی این ایف والے راجہ صاحب کے منہ سے اپنی تنظیم کی تعریفیں جبکہ عام شائقین ان کی مزاحیہ انداز میں کسی اگلے ایونٹ کا اعلان سننے کے لئے بے تاب تھے۔ اسی اثناء مہمان خصوصی اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے۔ ان کا چہرہ ہمیشہ مسکراہٹ سے بھرپور رہتا تھا جسے دیکھ کر لوگ خوشی سے جھوم اٹھتے تھے۔ حسب روایت راجہ صاحب نے کھیل و ثقافت کی میٹھی پیاری باتوں سے تقریر کا آغاز کیا اور ایک تاریخی جملے سے گفتگو سمیٹ کر اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔
راجہ صاحب نے کہا "مجھے انتہائی خوشی ہو رہی ہے کہ بی این پی بھی کھیل و ثقافت کی سرگرمیوں کے ذریعے لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے کام پر گامزن ہوا جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا وطیرہ رہا ہے، عین ممکن ہے جا جا کے پیپلز پارٹی اور بی این ایف سیاسی طور پر بھی ایک دوسرے سے جڑیں گے بلکہ لگتا یہی ہے کہ ایک دن بی این ایف پیپلز پارٹی میں ہی ضم ہوگی”۔
راجہ صاحب کے ان تاریخی الفاظ پر محفل قہقہوں سے گونج اٹھی۔ ان کی یہ گفتگو قوم پرستی کے جنون میں مبتلا لوگوں کے لئے ایک احمقانہ بات تھی شاید انہوں نے اس بات کا برا بھی مان لیا ہو کہ ایک آزاد ریاست کی جدو جہد میں محترک تنظیم کیسے کسی وفاقی جماعت میں ضم ہوسکتی ہے۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ اس زمانے میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ایک دن بی این ایف کالعدم ہوگی، کارکن جیلوں میں بند ہونگے اور سربراہ خود ریاست کے ساتھ کسی خفیہ ڈیل کے تحت وطن واپس لوٹ کر کسی وفاقی جماعت کا حصہ بنیں گے۔ مگر عقلمند انسان ہمیشہ تول کر بولتے ہیں۔
راجہ صاحب ایک درویش صفت مگر دور اندیش انسان تھے۔ دوراندیش لوگ اس بات سے واقف ہوتے ہیں کہ وقت اور حالات بدلنے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ وہ بھی پاکستان جیسے ملک میں جہاں پلک جھپکنے میں بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہوتا ہے۔ مثال ملاحظہ کیجئے کہ کل تک آصف زرداری اور میاں نواز شریف کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کی دھمکیاں دینے والا اقتدار کے نشے میں مست عمران خان آج خود قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے۔
بالکل اسی طرح کل تک ہندوستان اور یورپ میں بیٹھ کر عالمی فورمز پر حکومت پاکستان کو للکارنے والے عبدالحمید خان آج اپنے ایک دیرینہ نظریے سے دستبردار ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی کی کشتی کے مسافر بن گئے۔
اگر چہ عبد الحمید خان کا یہ فیصلہ کوئی نئی یا انہونی بات تو نہیں۔ قوم پرستی سے وفاق پرستی کے سفر کے مسافروں کی فہرست بہت طویل ہے مگر آج کے موضوع کے حساب سے کالم کو مزید طول دینے کی گنجائش باقی نہیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا تھا "محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائیگی”۔
اللہ پاک مرحوم راجہ کاکا جان کی روح کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور عبدالحمید خان صاحب کے لئے یہ نیا سیاسی سفر مبارک فرمائے۔ آمین!