چرواہا اور بھیڑیے کی کہانی
بہار کی آمد کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں چرواہے بھیڑ بکریاں لے کر چراگاہوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ چرواہے درّوں، ندی نالوں، تنگ راستوں اور پگڑڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے اونچے پہاڑوں کے دامنوں میں واقع دلفریب مقامات کو اپنا عارضی مسکن بناتے ہیں۔
چرواہا عیش بیگ اور بیٹا سونو اس مرتبہ بہت خوش دکھائی دے رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ مسلسل بارشوں کےباعث پہاڑوں پر ہریالی میں اضافہ ہوا ہے، اس بار تو عیش بیگ کی بیوی بھی بہت خوش ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک درجن سے زائد بکریوں نے بچے دیے ہیں اور عیش بیگ خزاں کی شروعات کے ساتھ بڑی مقدار میں مکھن لے کر آئیں گے، بکریوں کے بچے بھی بڑے ہونگے اور کچھ بکرے بیچ کر بڑی بیٹی کی شادی خانہ آبادی کا انتظام بخوبی انجام پائے گا۔
چرواہا عیش بیگ کی بیوی نے سفری سامان تیار کیا ہے اور الصبح عیش بیگ اور بیٹا سونو مال مویشی لے کر چراگاہ کی طرف روانہ ہونگے، راستہ کٹھن، پشت پر کھانے پینے کی اشیاء اور اوپر سے درجن سے زائد بکریوں کے بچے، سب کو باحفاظت منزل مقصود تک پہنچاناہے۔ جیسے ہی چرواہا مال مویشی لے کر درّوں میں داخل ہوتا ہے تو بل کھاتی ندیاں، چھوٹی بڑی آبشاریں اُن کا استقبال کرتی ہیں اور دوسری جانب ننّھے مُنّے بکریوں کے بچوں کی آوازیں پہاڑوں سے ٹکرا کر سُر بکھیررہی ہیں، اسی رومانس میں گُم چرواہے کا راستہ کٹتا رہتا ہے، شام ڈھلنے لگی، آسمان پر ستاروں کا جھرمٹ عین اُس درّے کے اوپر ایسے نمودار ہوا جیسے کسی تہوار یا شادی کے لیے برقی قمقمے لگائے گئے ہوں۔
عیش بیگ اور سونو نالے میں قائم مویشی باڑے سے ملحقہ قیام گاہ میں ٹھہرتے ہیں۔ قیام گاہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں پریاں اُترتی ہیں۔ اس مقام پر چرواہے تھکن اور خوف کے عالم میں رات گزارتے ہیں اور پھر صبح ہوتے ہی منزل مقصود کی جانب سفر کا آغاز کرتے ہیں، وہ پہاڑ چڑھنا شروع کرتے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے سورج کی پہلی کرن گولڈن پیک کی برف پوش چوٹی پر پڑجاتی ہے اور پہاڑ کا رنگ سنہرا ہوجاتا ہے، رفتہ رفتہ سورج کی کرنیں قراقرم کی چوٹیوں کو مزید حسین بناتی ہیں۔ یہاں سے گزرنے والا ہر شخص قدرت کے اس شاہکار کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔
عیش بیگ اور بیٹا سورج ڈھلنے سے پہلے منزل تک پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔ یہاں موسم کی انگڑائیاں بھی عروج پر ہیں، کبھی تیز بارش تو کبھی دھوپ، راستے میں دونوں جانب رنگ برنگ پھول، ٹھنڈی ہوا کی سرسراہٹ اور پرندوں کی چہچاہٹ چرواہوں کی تھکن دور کر دیتی ہے۔ نصف راستہ کٹ چکا، ابھی آدھا باقی ہے، بھوک اور تھکاوٹ سے نڈھال سونو والد سے کہتا ہے ابا جی تھوڑی دیر رُک کر کچھ کھالیتے ہیں، تھوڑا آرام بھی ملے گا۔ والد فوراً ایک بڑے پتھر کے نیچے رُک جاتاہے۔ باپ بیٹا سوکھی روٹی اور پانی کے ساتھ پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں اور پھر دوبارہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہیں۔ سورج ڈھلنے لگتا ہے اور شام سے پہلے عیش بیگ اور بیٹا مویشی باڑہ پہنچ جاتے ہیں۔ تھکن سےنڈھال عیش بیگ اور سونو کھانے سے زیادہ سونے کو ترجیح دیتے ہیں اور مویشی باڑے سے جوڑے چھوٹے کمرے کی چھت پر آرام کرنے لیٹ جاتے ہیں۔ آسمان مکمل طور صاف، چھوٹے بڑے ستاروں کے جھرمٹ، چاروں جانب برف پوش چوٹیاں، موسم قدرے سرد، قدرت کے اس شاہکار کے بیچ چرواہوں کا مسکن آنکھوں کو خیرہ کردیتا ہے۔ عیش بیگ اپنے فرزند سونو سے کہتا ہے بیٹا تم صبح بکریوں کے بچوں کی دیکھ بھال کرنا، میں مویشی چرانے جاوں گا۔
صبح ہوتے ہی سورج کی پہلی کرن برف پوش پہاڑوں کو چمکا دیتی ہے۔عیش بیگ بکریوں کا دودھ نکالنے کے بعد چراگاہ کا رخ کرتا ہے۔ اُدھر جنگلی حیات بھی رزق کی تلاش میں نکلی ہیں، باز شکار کے لیے اونچی اڑان بھر رہے ہیں، گِدھ کسی مردہ جانور کی تلاش میں ہیں، چکور اور رام چکور کے بچے گھونسلوں سےنکل کر دانے چن رہے ہیں، پہاڑ کی چوٹی پر ہرن کے بچے چھلانگیں مار رہے ہیں، محنت کش حشرات الارض کی سردار چیونٹیاں بھی دانوں کی ترسیل میں مصروف ہیں۔ ایک اونچے ڈھلوان پر سفید اور بھورے رنگ کے خرگوش بھی نومولود بچوں کے ساتھ خوب لطف اندوز ہورہے ہیں۔ دوسری طرف رنگ برنگ پھولوں پر تتلیاں اٹھکیلیوں میں مگن ہیں، جنگلی شہد کی مکھیاں نیکٹر (پھولوں کا رس) ذخیرہ کرنے میں مصروف ہیں، بھڑ مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور پروں کی لرزش سے پیدا ہونے والے نغمے چرواہوں کو محظوظ کر رہے ہیں۔ ایسے میں صنوبر اور چیڑ کے درختوں کے نیچے ہوا کی سرسراہٹ میں عیش بیگ اور اس کا بیٹا گُم سے ہوجاتے ہیں۔
پریوں کے اس دیس میں صدیوں سے چرواہےقدرت کی رنگینی کو جلابخشتے آرہے ہیں۔چرواہوں کو ایک ہی جانور کا خوف رہتا ہے وہ ہے اسنولیپرڑ (برفانی چیتا)، شاید یہ جنگلی جانور نہیں چاہتا کہ اُن کے دیس میں غیر مقامی مداخلت کرے۔مقامی لوگ کہتے ہیں کہ اسنولیپرڑ ہفتے میں ایک سے زائد پہاڑی بکروں کا شکار نہیں کرتا، تاہم چرواہوں کے مویشی اُن کے نشانے پر ہوتے ہیں۔عیش بیگ بکریاں چراہتے ہوئے تھک ہار کر ایک چیڑکے درخت کے نیچےآرام کرتاہے،اچانک آنکھ لگ جاتی ہے۔
کچھ ہی دیر بعد عجیب و غریب جانوروں کی آوازیں آنے لگتی ہیں، چراگاہوں میں موجود جنگلی جانوروں نے بھی ایسے خوفناک آوازیں کبھی نہیں سنی تھی،پریشانی کے عالم میں چرواہوں کو اپنے مویشیوں کی اور جنگلی جانوروں کو اپنے بچوں کی فکر لاحق ہوتی ہے، اتنے میں چاروں اطراف سے غیرمانوس مخلوق بھیڑیوں کے ریوڈ نمودار ہوتے ہیں۔چرواہوں کو بھیڑیوں کے بارے میں علم تھا کہ وہ اپنی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کرتےیہاں تک کہ جنگل کا شیر بھی انہیں اپنے گرفت میں نہیں لاپاتا۔دیکھتے ہی دیکھتےمقامی چرواہےاور جانور سَکتے میں چلے جاتے ہیں۔بھیڑیے اپنی تحفظ کےلیے جوان بھیڑیوں کی فوج کا سہارالیتے ہیں،وحشت کے عالم میں جنگلی جانوراور چرواہے اپنا مسکن چھوڑنے پرمجبورہوجاتےہیں تاکہ نسل کشی سے بچ سکیں۔
عیش بیگ سوچتا ہےکہ بے موسم اگرجانوروں کو چراگاہوں سے اتاریں گے تو ان کے خوراک کہاں سے لے کر آئیں گے، نہ چارہ ، نہ کھل نہ ونڈا۔ آخر انہیں کیا کھلائیں گے؟
اتنے میں عیش بیگ کا بیٹاسونو چراگاہ کے دامن سے اونچی آواز میں والد کو بلاتا ہے، والد مویشی لے کر نیچے پہنچ جاتا ہے، بیٹا باپ کو مخاطب کرکے کہتا ہے بابا جی بھیڑیے ہمارے مسکن میں داخل ہوچکے، مجھے ڈر لگ رہا ہے، اب ہمارا کیا بنے گا؟ وہ ہمارے مویشی باڑے پر قبصہ تو نہیں کرینگے؟ اب تو ہماری مویشیوں کی خیر نہیں۔ اُدھر والد پریشانی کے عالم خاموش ہیں۔
سونو معصومانہ انداز میں والد سے پوچھتا ہے، ابا جان آج آپ انتے افسردہ اور پریشان کیوں ہیں، آخروجہ کیا ہے؟عیش بیگ گہری سانس لیتا ہے کہتا ہےکہ بیٹایہ ہماراصدیوں پرانا مسکن ہے اور اب یہ ہمارے ہاتھ سے نکل رہاہے، ہمارا کیا بنے گا؟ ہماری چراگاہوں پر اب بھیڑیوں کا قبصہ ہوگا،ہمارادیس اجڑجائے گا، ہمارے پاس اب کوئی متبادل روزگاربھی نہیں، نہ ہی کاروبارکا کوئی ذریعہ ہے،ان خوبصورت جنگلی حیات کا کیا بنے گا؟
یکایک بھیڑیے علاقے پر کنڑول سنبھالتے ہیں اور وارننگ دیتے ہیں اگر اس دیس میں رہنا ہے تو پھر ہمارا حکم ماننا پڑےگا۔
اگلے روز چرواہا عیش بیگ اور اُن کا بیٹاپریشانی کے عالم میں مویشی لے کر گاوں کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں،گاوں کے لوگ بے وقت مویشی چراگاہ سے اتارنے پر تشویش میں مبتلا ہوجاتے ہیں اورپوچھتے ہیں کہ چراگاہ میں گھاس پھوس کی کمی تھی کیا؟
عیش بیگ کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اور کہتا ہےکہ ہمارا مسکن اُجڑچکا، اب چراگاہوں پر بھیڑیوں کا قبضہ ہےاور جنگلی حیات بھی اپنے دیس کو خیرباد کہہ چکی ہیں۔اب ہم بدیسی ہوچکے ہیں ۔۔۔
عیش بیگ اور سونو گھر پہنچتے ہیں۔ بیوی عیش بیگ کی حالت دیکھ کر پریشانی کے عالم میں پوچھتی ہے، خیرت ہے کیوں واپس آئے ہیں؟ عیش بیگ بیوی کو گلے لگا کر رو پڑتا ہے اور کہتا ہے ہمارے صدیوں پرانے مسکن پر اب بھیڑیے قابض ہوچکے ہیں۔ بیوی کہتی ہے بیٹی کی شادی کا کیا بنے گا؟ شوہر غصے میں جواب دیتا ہے، میراتو پیشہ ہی داو پر لگ چکا ہے، نہ میرے پاس کوئی ہنر ہے نہ ہی اتنی زمین، جہاں کاشتکاری کریں، جائیں تو جائیں کہاں؟اب نہ اس دیس پر ہمارا راج رہے گا اور نہ ہی چراگاہوں پر جنگلی حیات کا۔۔
ابن انشا فرماتے ہیں۔۔۔۔
انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا