گلگت بلتستان میں جعلی انتقالات و لینڈ مافیاز – پہلی قسط
جعلی انتقالات ماڈرن دنیا کا پیدا کردہ مسئلہ نہیں بلکہ یہ کئی دہائیوں پہلے سے موجود ایک بدترین سماجی برائی ہے۔ اس میں شدت قیام پاکستان کے فورآ بعد ہی آنے لگا۔
جب مافیاز کے ہاتھوں خالصہ سرکار اور نوتوڑ رولز جیسے مہلک ہتھیار لگے تو وہ مختلف انداز سے محکمہ مال کے کرپٹ اہلکاران سے ملکر کبھی جعلی بندوبست کے زریعے تو کبھی الاٹمنٹ کے زریعے، کبھی جعلی جمعبندی کے زریعے تو کبھی جعلی انتقال کے زریعے ، کبھی جعلی قبضوں کے زریعے تو کبھی جعلی ہبہ و بیع کے ذریعے مشترکہ عوامی اراضیات کو ہتھیانے کی کوشش کرتے رہے۔
کبھی مشترکہ عوامی مزاحمت نے ان مافیاز کو ناکام بنایا تو کبھی ان سارے مافیاز نے اتحاد بنا کر ایک دوسروں کے ناجائز مفادات کو تحفظ دے کر اور عوام کو آپس میں مسالک، فرقے، قوموں اور علاقوں میں تقسیم کر کے اپنے ناجائز مشن میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔اور یہیں تدابیر آجکل بھی اپنائی جا رہی ہیں جو آپ خوب مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔
آباؤ اجداد سے اس گھناونے فعل میں ملوث افراد اور اس حرام کی کمائی سے پلنے والی نسل کی اب دوسری تیسری پیڑی بھی اسی انداز سے بڑی بےشرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ سینہ تان کر وہیں کچھ کرنے کیلئے سینہ سپر ہیں۔ یہ بدمزاج، بدنسل اور نیچ سوچ کے لوگ انیسویں صدی عیسوی میں بھی ساتویں صدی عیسوی کے دور میں جی رہے ہیں۔ شکر الحمداللہ آج کی نئی نسل ان مافیاز کو پہچاننے لگی ہے اب انکی تقسیم کرو اور مفاد حاصل کرو والی گھناؤنی سازشیں بہت دیر تلک چلنے والی نہیں، اب یہ گھٹیاپن عوام کبھی برداشت نہیں کرے گی۔ پڑھی لکھی باشعور قوم دھونس دھمکی کے بجائے دلائل پر یقین رکھتی ہے، موروثی سیاست کے بجائے ویژنری لیڈرشپ کے ساتھ چلنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔
طوالت سے بچنے کیلئے میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔
یہاں میں مختصراً لینڈ ریفارمز کی تاریخ اور حال و مستقبل میں لینڈ ریفارمز کے اثرات پر بات کرونگا.
گلگت بلتستان کے کچھ علاقے، خاص کر بلتستان اور استور، ریاست جموں و کشمیر کے وجود سے بھی پہلے، مغل سلطنت کا حصہ رہے ہیں اور اس دور کی بادشاہتیں اور مقامی حکومتیں اپنا نظام حکومت چلانے کیلئے اراضیات سے ریونیو جمع کرنے کے کئی ایک نظام آزماتے رہے ہیں۔ان نظاموں کا زکر پھر کسی تحریر میں کرونگا۔
المختصر گلاب سنگھ نے 1846 میں معاہدہ امرتسر کے تحت کشمیر کے علاقوں کو مبلغ پچہتر لاکھ نانک شاہی میں خریدا جبکہ لداخ، بلتستان، استور اور بعد میں گلگت کے کچھ علاقے بزور قوت جنگ کے زریعے حاصل کر لیا۔ یوں وہ خود کو اس ریاست کی تمام تر اراضیات کا مالک بلا شرکت غیرے ماننے لگا۔جب گلاب سنگھ نے عنان حکومت سنبھالا تو اس وقت تقریباً 75 فیصد ابادی کا انحصار کاشت کاری پر تھا اور یہیں سے حکومت بھی اپنے خرچے نکال لیتی تھی۔ گلاب سنگھ نے ان علاقوں کے کسانوں سے انکی زمینوں کی وہ ملکیت بھی چھین لی جو افغانوں اور سکھوں کے دور میں بھی ان کے پاس تھی۔ گلاب سنگھ کے دور میں کسان اپنی اراضیات کے مالک نہیں رہے تھے بلکہ کریہ دار بن گئے تھے۔ اور اپنی ہی زمینوں پر مہاراجہ کو بے تحاشا ٹیکس دینے لگے تھے اور اس وقت کی حکومت اس عمل کو حق مالکان کہتی تھی، لیکن اگر کوئی ٹیکس کی ادائیگی نہیں کرسکتا تو اس سے وہ زمین چھین لی جاتی تھی اور کسی دوسرے کو دی جاتی تھی۔ یوں ٹیکس نادہندہ کو حق ملکیت سے یکسر محروم کیا جاتا تھا۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ڈوگرا سلطنت کبھی بھی گلگت بلتستان کے پورے علاقے پر مؤثر حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ 1852میں ایک قبائلی بغاوت کے بعد یہاں ڈوگرا حکمرانی پوری طرح ختم ہو گئی تھی۔ تاہم 1860 میں مہاراجہ رنبیر سنگھ (گلاب سنگھ کے بیٹے) نے گلگت پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور اپنی حکومت یہاں تک پھیلائی ۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے روس اور چین کے ان علاقوں میں عمل دخل پر نظر رکھنے کیلئے اپنی ریذیڈنسی قائم کی اور عوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے کچھ ریفارمز متعارف کرانا چاہا۔ اسکی ایک کڑی یہ تھی کہ 1885 میں انگریز ریذیڈنسی نے مہاراجہ کی مشاورت سے والٹر لارنس کو کشمیر کا پہلا سیٹلمنٹ آفیسر تعینات کیا تھا۔
یوں والٹر لارنس کے زریعے کشمیر کے ایک بڑے حصے تک پہلا بندوبست پہنچایا اور اس کے نتیجے میں یہاں کے لوگوں کو پہلی دفعہ مالکانہ حقوق ملے یہ عمل 1889 تک جاری رہا اور دوسرے حصے میں گلگت بلتستان اور استور کے علاقوں کو بھی 1902 سے لیکر 1919 تک بندوبست کے زریعے بہت کم مالکانہ حقوق دئے گئے۔ جبکہ ہنزہ نگر، غذر اور دیامر کے علاقوں میں بندوبست کا عمل آج کے دن تک نہ ہو سکا جس کا انکو ایک حد تک فائدہ بھی ہوا۔
اس سب کے باوجود اس دور میں کاشت کاری کے شعبے میں کچھ اصلاحات بھی ہوئیں۔ 1902 میں محکمہ زراعت کا قیام کیا گیا اور پھر 1919-20 کے دوران حکومت نے زرعی ترقیاتی بورڈ کی تشکیل دی اور بیگار کے نظام کو ختم کر دیا گیا جس سے ان کسانوں کو کچھ راحت ملی جو اکثر کھیتوں میں کام کرنے کے بجائے دور افتادہ علاقوں اور دشوار گزار پہاڑوں پر سامان پہنچانے کے لیے زبردستی بھیج دیے جاتے تھے۔
مہاراجہ ہری سنگھ ایک دوراندیش حکمران تھے اس نے ایک تاریخی قانون دیا جو 20 اپریل 1927 کو ریاست جموں و کشمیر میں باشندہ ریاست کا قانون کے نام سے نافذ کیا گیا۔ اس قانون کے نفاذ سے یہاں کی اراضیات کواور سرکاری نوکریوں کو غیر مقامیوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکا گیا۔
یہ قانون گلگت بلتستان میں آجکل غیر موثر ہو کر رہ گیا ہے، جبکہ آزاد کشمیر میں آج بھی نافذالعمل ہے۔ جموں و کشمیر میں یہ قانون 2019 تک موثر رہا۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست میں کچھ آئینی اصلاحات کرنے کی کوشش کی، اور اسی مد میں 1934 میں ایک آئینی ایکٹ متعارف کرایا۔ اس ایکٹ کے تحت ’پرجا سبھا‘ کے نام سے ایک قانون ساز اسمبلی کا قیام ممکن ہوا، جس کے پاس قانون سازی کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹو اور عدالتی اختیارات بھی تھے۔ اس کے علاوہ، مشہور زمانہ گلینسی کمیشن بھی تشکیل دیا گیا۔ گلینسی کمیشن نے دیگر سفارشات کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ان کی زمینوں کی ملکیت واپس کرنے، اور ریاستی زمینوں کی منتقلی اور ان کے کرائے پر دینے کے حقوق پر بھی سفارشات پیش کیں، جن کی ملکیت تو حکومت کے پاس تھی لیکن جو عام شہریوں کے زیر استعمال تھیں۔ مہاراجہ نے ایک اعلان کے تحت کاشتکاروں کو آسامیان گردان کر ملکیتی حقوق بھی دیے۔
بہت کچھ ہونے کے باوجود جس طرح ڈوگرا راج کشمیر کو خریدنے ے اور لداخ، بلتستان، استور و گلگت پر بزور قوت جنگ لڑ کرحاصل کرنے کی وجہ سے اپنے آپ کو مالک مانتے تھے اسی طرح گلگت بلتستان کے باسیوں نے بھی ڈوگروں سے گلگت بلتستان کو بزور قوت جنگ لڑ کر واپس حاصل کیا تو یہاں کے باشندے بھی یہاں کی اراضیات کے مالک بنے۔اب بھی یہاں کی عوامی چراگاہوں کو خالصہ سرکار کی ملکیت قرار دینا غیر منطقی و غیر قانونی ہوگا۔
تحریر کافی طول پکڑ گئی ہے۔ اختصار کے ساتھ میں یہ کہونگا کہ یہ خالصہ سرکار کا لفظ کل بھی مافیاز کو سوٹ کرتا تھا اور آج بھی مافیاز کو سوٹ کرتا ہے۔ اب بھی مافیاز کی یہ دلیل ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد کو جو اراضیات الاٹ ہوئی ہیں وہ نہ تو کسی کی زاتی ملکیت ہیں اور نہ ہی کوئی عوامی مشترکہ اراضیات ہیں بلکہ خالصہ سرکار ہے جس کا مالک سرکار ہے اور سرکار کی مرضی ہے کہ وہ کسی کو بھی الاٹ کرسکتی ہے۔ خالصہ سرکار کے لفظ کو نوتوڑ رولز 1978/80 تحفظ دیتا ہے اور اسی لئے یہ ایک ظالمانہ و جابرانہ قانون آج بھی گلگت بلتستان میں نافذالعمل ہے۔
میں یہاں اپنے علاقے داسخریم کی مثال دونگا۔ جب کچھ لینڈ مافیاز نے دہائیوں پہلے خالصہ سرکار کی آڑ میں علاقے میں جعلی الاٹمنٹس کی اور ان جعلی الاٹمنٹس اور انتقالات کی بنیاد پر کچھ عوامی چراگاہوں کو خالصہ سرکار کہہ کر قبضہ کرنے کی کوششیں کیں تو ہمارے بڑے بزرگوں نے عوامی طاقت اور مزاحمت سے نہ صرف قبضے ہونے نہیں دیا، بلکہ ساری عوام نے ملکر یہ معاہدہ بھی کیا کہ عوامی مشترکہ چراگاہوں و اراضیات کو خالصہ سرکار کی آڑ میں کسی نے بھی کوئی چھپا چوری انتقال کی ہے تو اسے منسوخ تصور کیا جائےگا۔ یوں علاقے کے مکین نہ صرف مافیاز کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے بلکہ آئیگا پوپی موٹی سے آگے عوامی چراگاہوں، رسم و رواج، آبپاشی کے طریقہ کار بھی وضح کئے۔
اب سننے میں آیا ہے کہ مافیاز نے پرانے ریونیو ریکارڈز کو ہی غائب کردیا ہے۔ کئی ایک جعلی انتقالات کا اندراج کیا ہے اور حقیت سے متعلق تمام تر ریکارڈ کو چیر پھاڑ کر تباہ و برباد کیا گیا ہے۔
مافیاز کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ نوتوڑ رولز کی آڑ میں محکمہ مال کے کرپٹ اہلکاران سے ملکر ریکارڈ میں پرانی کوئی تاریخ چڑھا کر خالصہ سرکار ( جو کہ اصل میں عوامی چراگاہ ہوتی ہے) سے اپنے آباؤ اجداد کے نام پر سینکڑوں کنال اراضیات الاٹ کرکے انتقال کراتے ہیں اور ان اہم عوامی اراضیات کو آگے غیر قانونی طریقے سے خرید و فرخت کرکے نیشنل انٹرنیشنل مافیاز جو اپنے کالے دھن کو سفید کرنا چاہتے ہیں سے کروڑوں روپے ناجائز طریقے سے کماتے ہیں۔ اور ان ہی روپوں سے ہر آواز اٹھانے والے گلگت بلتستان کے باسی کو پہلے خریدنے کی کوشش کرتے ہیں اگر ممکن نہیں ہوا تو پھر انہیں قتل کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ بلکہ شنید ہے کہ اسی خرید و فرخت میں ملوث ایک بدقسمت انسان کا حال ہی میں قتل بھی ہوا ہے۔
یہ مافیاز اس حد تک خطرناک اور دلیر ہو چکے ہیں کہ یہ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور کھلے عام سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں۔ مگر جنگل کے قانون میں کوئی پرسان حال نہیں۔ مجھے خود سنگین نتائج کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ہم نے نشاندہی کر رکھی ہے کہ اگر حادثاتی طور پر بھی ہمارے دشمن کو بھی کچھ ہوا تو یہ لوگ زمہ دار ہیں جو بلا سوچے سمجھے جان کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ مگر ہم بلا خوف و خطر اپنی آخری سانس تک لینڈ مافیاز کے خلاف آواز اٹھاتے رہنگے۔
ہماری ہی مشترکہ کوششوں سے جعلی انتقالات کے ایشو کو پورے گلگت بلتستان میں اٹھایا گیا۔ ضلع گانگچھے کے کلکٹر نے 1906 کنال اراضیات کے جعلی انتقالات کو کینسل کر دیا، ضلع شگر کے کلکٹر نے بھی سینکڑوں کنال اراضیات کی جعلی انتقالات کو منسوخ کیا ہے جبکہ ضلع سکردو میں 400 مشکوک انتقالات کی چھان بین ہو رہی ہے اور جلد عوام بڑی خوش خبری سنے گی۔
گلگت اور استور کے اضلاع میں بھی امید ہے بڑا بریک تھرو ہوگا ۔ استور میں ہزاروں کنال اراضیات کی جعلی انتقالات کے ثبوث انکوائری کمیشن کے سامنے رکھے گئے ہیں اور جلد انشاءاللہ اس پر ایک جامع رپورٹ سامنے آئے گی اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ آگے کا لائحہ عمل کیا اپنایا جائے۔
بقیہ اگلی اقساط میں