کالمز

خوشامد اور علاقائی وقار کا زوال

گلگت بلتستان کے لوگوں میں خوشامد پسندی، چاپلوسی اور چمچہ گیری ایک ایسی خطرناک بیماری بن چکی ہے جس نے ہمارے معاشرتی، سماجی اور علاقائی وقار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہ بدترین رویہ اب اس قدر عام ہو چکا ہے کہ ہر سطح پر نظر آتا ہے۔ ایک وقت تھا جب چاپلوسی محض حکومتی اراکین، وزراء، چیف سیکرٹری، آئی جی، فورس کمانڈر، وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان ، سیکرٹری امور کشمیر و گلگت بلتستان، گورنر، وزیر اعلیٰ اور اعلیٰ عہدے داروں تک محدود تھی، مگر اب یہ وبا ضلع کے ڈی سی، اے سی، تحصیلدار، ڈائریکٹرز، ایس پی اور یہاں تک کہ ہر چھوٹے بڑے افسر تک پھیل چکی ہے۔ ہم نے ہر چھوٹے عہدے دار کو دیوتا بنا رکھا ہے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کیے جا رہے ہیں۔ جب جب یہ عہدہ دار کسی علاقہ یا ضلع جائیں یا ان کی پوسٹنگ ہو تو وہاں گروہ در گروہ، ادارہ در ادارہ، جماعت در جماعت ان کو ویلکم، خوشامد اور ہار پہنانے میں مصروف رہتے ہیں اور یہ کام اتنا فخریہ کیا جاتا ہے کہ اس کے لیے باقاعدہ سوشل میڈیا میں بازار گرم کیا جاتا ہے۔اسٹیٹس لگائے جاتے ہیں اور تصاویر وائرل کی جاتیں ہیں بلکہ یہ سب ایک طے شدہ پلان کے مطابق کروایا جاتا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ یہ لوگ عوام کے ملازم ہیں؟۔ ان کو "پبلک سرونٹس” کہا جاتا ہے۔ کیا ہم نے اپنی عزت نفس کا سودا کر لیا ہے؟ ہم ان لوگوں کے سامنے جھکتے ہیں، جنہیں ہم اپنے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ دیتے ہیں۔ یہ لوگ جو سرکاری ملازمت کے حلف کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھانے آتے ہیں، وہ دراصل عوام کے خادم ہیں۔ ان کا کام ہماری خدمت کرنا ہے، نہ کہ ہم پر حکمرانی کرنا اور ہم سے تعظیم لینا۔ بہت سارے عہدہ داران باقاعدہ تعظیم لینے اور استقبال کروانے کی ہدایات جاری کرتے ہیں اور انہوں نے مختلف اضلاع میں صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور مخصوص گروہ پالے ہوتے ہیں جو بخوبی ان کے استقبال کے لئے راہیں ہموار کرتے ہیں اور عوام و نوجوان ان کے نرغے میں آ جاتے ہیں ۔

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب یہ لوگ عوامی ٹیکس سے ملی ہوئی ایک لگژری گاڑی میں کسی علاقہ یا ضلع میں قدرم رکھتے ہیں، تو ہم قدم بوسی پر لگ جاتے ہیں، سرخ قالین بچھائے جاتے اور ہم ان کا استقبال ایسے کرتے ہیں جیسے انہوں نے کوئی عظیم کارنامہ انجام دیا ہو۔ ہار پہنائے جاتے ہیں، سوشل میڈیا پر تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں، جیسے یہ خدا کے خاص نمائندے ہوں۔ کیا ہم اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ اپنی خودداری کو بھی بھول گئے؟ یہ عہدیدار عوام کے ٹیکس سے تنخواہ لیتے ہیں، عوام کے پیسوں سے مراعات حاصل کرتے ہیں، اور پھر عوام کی ہی جیبوں سے رشوت اور کمیشن کی شکل میں مزید مال بٹورتے ہیں۔ مگر ہم پھر بھی ان کی تعظیم کرتے ہیں، جیسے کہ وہ کوئی مقدس ہستیاں ہوں اور خدا کی طرف سے مبعوث ہوئے ہوں۔

سوال یہ نہیں کہ یہ لوگ ایمانداری سے اپنا کام کر رہے ہیں یا نہیں، سوال یہ ہے کہ ہم اپنی قوم کی خودداری کو کیوں فروخت کر رہے ہیں؟ اگر یہ لوگ ایمانداری سے بھی اپنا کام کریں، تب بھی یہ ان کا فرض ہے، کوئی احسان نہیں۔ اگر یہ لوگ عوام کی خدمت کرتے ہیں تو انہیں اس کا اجر ان کی تنخواہ کی صورت میں ملتا ہے۔ مگر ہم ان کی چاپلوسی کر کے انہیں یہ باور کراتے ہیں کہ وہ کوئی عام لوگ نہیں، بلکہ خدا کے نمائندے ہیں۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اس قومی بیماری سے باہر نکلیں۔ یہ ایک ناسور ہے جو ہماری رگوں تک سرایت کر گیا ہے ۔ ہمیں اپنے نوجوان اور عوام کو شعور دینا ہوگا کہ یہ عہدیدار، جنہیں وہ تعظیم دیتے ہیں، دراصل عوام کے ملازم ہیں۔ ہمیں اس غلط رویے سے باہر نکلنا ہوگا اور اپنے حقوق کی پاسداری کرنی ہوگی۔ ہمیں ان سے ان کا حق لینا ہوگا، اور جہاں کہیں یہ لوگ غلطی کریں، وہاں ان کا احتساب کرنا ہوگا۔

یہی وہ وقت ہے جب ہمیں اپنی قوم کو بیدار کرنا ہوگا۔یم میں سے اہل علم و قلم، اساتذہ، پروفیسرز اور سیاسی و سماجی رہنماؤں اور علماء کرام و مذہبی قیادت کو آگے آنا ہوگا، اور عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ وہ اپنے ملازموں کی تعظیم نہ کریں، بلکہ ان سے ان کا فرض پورا کروائیں۔ عوام کی طاقت ہی ان کی حقیقی طاقت ہے۔ جب تک عوام اپنے حقوق کا دفاع نہیں کریں گے، تب تک وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے۔

آئیے، ہم سب مل کر اس خوشامد اور چاپلوسی کے نظام کو ختم کریں۔ اپنی قوم کو بیدار کریں، انہیں ان کے حق کا شعور دلائیں اور انہیں ان کا وقار سمجھائیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہو کر اس ظالمانہ نظام اور چاپلوسانہ روش کے خلاف آواز بلند کریں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی قوم کی خودداری کو بحال کریں اور اپنی نسلوں کو عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا حق دلائیں۔

قومیں اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتیں جب تک وہ اپنی عزت نفس اور خودداری کو بحال نہ کریں۔ خوشامد پسندی ہمیں کہیں نہیں لے جا رہی، بلکہ ہمیں مزید پستی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنی قوم کو اس زوال سے نکال کر عزت، وقار اور خودمختاری کی

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button