Uncategorizedکالمز

خلوص کی انتہا

یہ تین ماہ پہلے کی کہانی ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ لمحے ابھی بھی میرے دل میں تازہ ہیں۔ شاید میں اپنی زندگی میں کھبی ان لمحات کو بھول پاؤں، ایک تعلیم یافتہ شخص، جو دیارِ غیر میں مقیم ہے اور میرا مستقل قاری ہے، نے مجھ سے رابطے کیا۔ ہماری کوئی ذاتی ملاقات کبھی نہیں ہوئی، کوئی خاندانی تعلق نہیں، نہ ہی کوئی دنیاوی مفاد وابستہ ہے اور نہ ہی اُخروی۔ ہم صرف آن لائن دوست ہیں ، بس ایک ان دیکھے تعلق کی ڈور تھی جو محبت، خلوص، اور لفظوں کی دنیا سے بندھی ہوئی تھی۔

ایک دن اس نے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا، "حقانی بھائی، میں پاکستان آؤں گا تو گلگت آکر آپ کا گھر ضرور دیکھوں گا۔ آپ گھر بنانے کی تصاویر اور تحاریر شئیر کرتے ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ آپ کی محنت اور محبت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں۔” اس کی یہ بات میرے لیے خوشی اور حیرت کا عجیب امتزاج تھی۔ میں نے مسکراتے ہوئے اسے خوش آمدید کہا، لیکن دل کے کسی کونے میں یہ خیال بار بار گونجتا رہا کہ آخر یہ بے لوث خلوص اور درد بھری محبت کہاں سے جنم لے رہی ہے؟ آج کے نفسانفسی کے دور میں ایسے لوگ کیوں پائے جاتے ہیں؟ ۔ یہ بے لوث خلوص کیونکر زندہ ہے؟۔ ایسے درجنوں سوالات میرا پیچھے کررہی تھیں ۔

پھر چند دن بعد اس نے دوبارہ بات کی اور کہا، "حقانی بھائی، میں خود بھی ایک گھر بنانے کے مراحل سے گزر رہا ہوں، ابھی مکمل نہیں ہوا ہے ، اور جانتا ہوں کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔ لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کے اس خواب یعنی گھر بنانے کے عمل میں، اپنا بھی حصہ ڈالوں۔ میں زیادہ پیسہ والا اور امیر آدمی تو نہیں ہوں، لیکن ایک یا دو سیمنٹ کی بوریاں تو آپ کے خواب میں شامل کر سکتا ہوں۔”

یہ سب سن کر میری آنکھوں میں حیرت اور دل میں شکر گزاری کی لہر دوڑ گئی۔ یہ خلوص میرے لیے بالکل نیا تھا۔ کچھ دن بعد اس نے واقعی رقم بھیج دی، میں نے منع کیا تھا لیکن اس نے ایک نہیں سنی، اور وہ رقم اتنی تھی کہ اس سے ایک دو نہیں بیس پچیس بوری سیمنٹ خریدی جا سکتی تھیں۔ میں حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا۔ یہ شخص، جس سے نہ میرا کوئی قریبی رشتہ ہے، نہ کوئی ذاتی واسطہ، نہ میرا قریبی دوست ہے، کچھ بھی تو نہیں، اتنی بے غرض محبت اور خلوص کے ساتھ میری مدد کر رہا تھا۔ میرے درد اور مشکل میں شامل ہورہا ہے۔ یا اللہ! یہ سب کیا دیکھ رہا ہوں! ۔

اس لمحے مجھے اپنے ماضی کے وہ دن یاد آئے جب میں نے اپنے قریبی دوستوں، بزرگوں، عزیزوں، اور خاندان کے لوگوں سے قرض حسنہ مانگا تھا جی ہاں قرضہ حسنہ، ایک سے نہیں بہتوں سے، میں بینک سے سود پر پیسے نہیں نکال سکتا، قرضہ حسنہ کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔ تین سال تک مسلسل کوشش کے باوجود کوئی ایک شخص بھی مکان کے لئے مجھے قرضہ حسنہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے لیے میں نے بہت سے بے لوث کام کیے تھے، انہوں نے تو میرا مذاق بھی اڑایا تھا ۔ حالانکہ اگر وہ چاہتے تو اچھا خاصا قرضہ حسنہ بغیر تکلیف کے دے سکتے تھے، لیکن خیر وہ اپنی ضرورت کے دوست ہیں انہیں اپنے ہی کام اور مقصد سے غرض ہوتا ہے ۔ لیکن یہاں ایک اجنبی، جس کے لیے کبھی میں نے کوئی معمولی نیکی بھی نہ کی ہو، جس نے کبھی مجھے دیکھا بھی نہیں، میرے دکھ کو اپنا دکھ سمجھ کر میرے خواب کی تکمیل میں حصہ ڈال رہا تھا۔ یہ سب خواب لگ رہا تھا لیکن ایسا بلکل بھی نہیں تھا۔ یہ ایک حقیقت تھی بلکہ تلخ حقیقت!

میں اسے لوث شخص کا نام نہیں بتاؤں گا، ہاں وہ خود بتانا چاہتا ہے تو ضرور بتائیں، مجھے خوشی ہوگی۔ میں نے اس عظیم شخص کا نام اپنی ڈائری میں لکھ لیا ہے۔ یہ نام میرے دل کی ایک قیمتی امانت ہے۔ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر کل میں اس دنیا میں نہ بھی رہا، تو میری اولاد یا میری نسلیں اس احسان کو یاد رکھیں گی اور ان سے اپنا تعلق ضرور جوڑیں گی اور اس احسان عظیم کا بدلہ ضرور نکالیں گی۔ وہ شخص میرے جی بی کا بھی نہیں، صرف میرا ہم وطن ہے۔ مگر دلوں کے رشتے جغرافیہ کے محتاج نہیں ہوتے۔

یہ کہانی میرے لیے ایک سبق ہے، ایک ایسا سبق جس نے میرے دل کی دنیا بدل دی۔ سب کھوکھلے اور اپنی ضرورت کی دوستی کرنے والے بھی یاد آنے لگے ہیں۔ اور یہ واقعہ یاد دلاتا ہے کہ دنیا میں ابھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کا وجود محبت اور خلوص کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ وہ لوگ جو بغیر کسی غرض کے دوسروں کے درد میں شریک ہو کر انہیں جینے کی نئی امید دیتے ہیں۔ ایسے لوگ زندگی کو واقعی جینے کے قابل بناتے ہیں۔ تم ہزار بار جیو، میرے "بھائی”

یہ بات میرے لیے درد کی انتہا بھی تھی اور خلوص کی معراج بھی۔

آپ کو کیا معلوم،! میرے دل میں آپ کا کتنا احترام ہے۔ کاش دل پھاڑ کر دکھا سکتا، اے کاش..! ہر دعا میں تم ہو، سدا خوش رہیو۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button