ایک سنہرے دور کا اختتام، ایک روشن مستقبل(نور) کا آغاز

مجھے پورا یقین ہے کہ شیعہ مسلم کمیونٹی کے بہترین مفاد میں یہ ہوگا کہ میرا جانشین کوئی ایسا نوجوان ہو جس کی پرورش اور تربیت حالیہ برسوں میں نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ہوئی ہو اور جو امام کے منصب کو ایک نیا رُخ دینے کا اہل ہو۔ اس وجہ سے میں اپنے پوتے کریم کو، جو میرے بیٹے علی سلمان خان کا بیٹا ہے، آغا خان کا خطاب استعمال کرنے کا حق دیتا ہوں اور اپنے تمام پیروکاروں کا امام اور پیر مقرر کرتا ہوں۔
یہ الفاظ سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم کی آخری وصیت میں شامل تھے، جن کی بدولت 1957 میں ان کے پوتے کریم کو ان کے والد، شہزادہ علی خان کے بجائے، اسماعیلی برادری کا موروثی پیشوا اور روحانی سربراہ مقرر کیا گیا۔ سر سلطان محمد شاہ نہ صرف اسماعیلی مسلمانوں کے 48 ویں امام تھے بلکہ تحریک پاکستان کے ایک فعال رہنما بھی تھے۔ بین الاقوامی سیاست میں بھی ان کا کردار نمایاں تھا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں شامل تھے اور 1907 سے 1913 تک اس کے صدر رہے۔ ان ہی کی کوششوں سے ایم اے او کالج علی گڑھ کو یونیورسٹی کا درجہ ملا، اور وہ اس یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر بھی رہے۔
پرنس کریم آغا خان، جن کا اصل نام کریم الحسینی تھا، کو نہ صرف اسماعیلی برادری بلکہ پوری دنیا میں عزت اور عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ خاص طور پر اپنے فلاحی کاموں اور عوامی بہبود کے لیے قائم کیے گئے اداروں کی وجہ سے مشہور تھے۔
اسماعیلی برادری کے روحانی پیشوا اور دنیا بھر میں فلاحی کاموں کے لیے معروف کریم آغا خان 4 فروری 2025 کو 88 برس کی عمر میں پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں وفات پا گئے۔ شہزادہ کریم آغا خان 13 دسمبر 1936 کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں پیدا ہوئے۔
تقریباً سات دہائیوں تک وہ اسماعیلی شیعہ برادری کے 49 ویں امام رہے۔ اسماعیلی ایک مسلم فرقہ ہے جس کی دنیا بھر میں آبادی تقریباً ڈیڑھ کروڑ ہے، جن میں سے پانچ لاکھ سے زائد پاکستان میں مقیم ہیں، جبکہ بھارت، افغانستان اور افریقہ میں بھی اس برادری کی بڑی تعداد موجود ہے۔ اسماعیلی مسلمان اپنے امام کا نسب براہ راست پیغمبرِ اسلام سے ملاتے ہیں، تاہم شیعہ اثنا عشریوں کے برعکس، اسماعیلی امامت کا سلسلہ امام جعفر صادق کے بڑے بیٹے اسماعیل بن جعفر سے منسلک ہے۔
کسی مخصوص قطعہ زمین پر حکمرانی نہ رکھنے کے باوجود، وہ ایک ایسے رہنما ثابت ہوئے جو اپنے پیروکاروں کے دلوں پر راج کرتے تھے، اور ان کی ہدایات حرفِ آخر سمجھی جاتی تھیں۔ 1957 میں آغا خان سوم کی وفات کے بعد، کریم آغا خان نے محض 20 سال کی عمر میں اسماعیلی برادری کی امامت سنبھالی۔ ان کی رسمِ تخت نشینی 23 جنوری 1958 کو کراچی میں ادا کی گئی، جس میں اس وقت کے صدر اسکندر مرزا، وزیرِاعظم فیروز خان نون، اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ پیروکار شریک ہوئے۔
1969 میں انہوں نے ایک انگریز خاتون سے شادی کی، جن کا اسلامی نام سلیمہ رکھا گیا۔ ان کے تین بچے— زہرہ آغا خان، رحیم آغا خان، اور حسین آغا خان— اسی شادی سے پیدا ہوئے۔ 26 سال بعد 1995 میں دونوں کے درمیان طلاق ہو گئی۔ 1998 میں، کریم آغا خان نے انارا نامی خاتون سے دوسری شادی کی، جن سے ایک بیٹا، علی محمد آغا خان، پیدا ہوا، لیکن 2011 میں یہ شادی بھی طلاق پر منتج ہوئی۔
شہزادہ کریم آغا خان کو گھوڑے پالنے اور گھڑدوڑ کا بے حد شوق تھا۔ ان کے پسندیدہ گھوڑوں میں ’شیرگر‘ سب سے نمایاں تھا، جو ایک وقت میں دنیا کا سب سے مشہور اور قیمتی گھوڑا تھا۔ 1981 میں اس نے ایپسم ڈربی میں کامیابی حاصل کی، لیکن دو سال بعد آئرلینڈ سے اغوا کر لیا گیا اور دوبارہ کبھی نہ ملا۔
انہوں نے امامت سنبھالنے کے بعد، آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک قائم کیا، جو 35 سے زائد ممالک میں غربت کے خاتمے، صحت، تعلیم، اور اقتصادی ترقی کے شعبوں میں کام کر رہا ہے۔ ان کے تحت آغا خان فاؤنڈیشن، آغا خان ہیلتھ سروسز، آغا خان پلاننگ اینڈ بلڈنگ سروسز، آغا خان اکنامک سروسز، اور آغا خان ایجنسی فار مائیکرو فنانس جیسے ادارے کام کرتے رہے۔ انہوں نے اسلامی فنِ تعمیر کے فروغ کے لیے آغا خان آرکیٹیکچر ایوارڈ کا بھی اجرا کیا۔
پاکستان میں ان کے قائم کردہ ادارے، خاص طور پر آغا خان یونیورسٹی اور ہسپتال، اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں آغا خان پروگرام برائے اسلامی فنِ تعمیر کی بنیاد رکھی، جبکہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سمیت دیگر تعلیمی اداروں میں بھی مختلف پروگرام متعارف کروائے۔
آغا خان ٹرسٹ فار کلچر دہلی میں ہمایوں کے مقبرے کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، جبکہ مشرقی اور وسطی افریقہ میں نیشن میڈیا گروپ کے قیام سے آزاد میڈیا کو فروغ ملا۔ گلگت بلتستان میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام اور دیگر فلاحی منصوبے آج بھی علاقے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
کریم آغا خان کو مختلف ممالک کی جانب سے 20 سے زائد قومی اعزازات اور 19 یونیورسٹیوں کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔ برطانیہ نے انہیں ’ہز ہائی نس‘ کا خطاب اور ’نائٹ کمانڈر آف دی برٹش ایمپائر‘ کا اعزاز دیا، جبکہ حکومت پاکستان نے انہیں نشانِ امتیاز سے نوازا۔
ان کی وفات پر عالمی رہنماؤں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ برطانوی بادشاہ کنگ چارلس سوم، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس، پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف، اور نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی سمیت متعدد شخصیات نے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔
کریم آغا خان کی رحلت کے فوراً بعد، ان کے وصیت کے مطابق، 50 ویں امام کے طور پر ان کے بیٹے، شہزادہ رحیم الحسینی آغا خان پنجم کا تقرر کیا گیا۔ وہ 12 اکتوبر 1971 کو پیدا ہوئے اور امریکہ سے تعلیم حاصل کی۔ وہ ماحولیاتی تحفظ اور غربت کے خاتمے جیسے امور میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں اور آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک میں کلیدی عہدوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
نئے امام کی تخت نشینی کی تقریبات لزبن، پرتگال میں منعقد کی جا رہی ہیں۔ دنیا بھر میں بسنے والے اسماعیلی اس تاریخی لمحے کے منتظر ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ کریم آغا خان چہارم کی وراثت کا احترام کرتے ہوئے نئے امام کے رہنما اصولوں کے مطابق اپنی زندگیاں گزاریں گے۔