کالمز

لیڈرکی تلاش

شیر جہان ساحلؔ

میں اگر معافی طلب کرتا ہوں یا پھر جلا وطنی اختیار کرتا ہوں اس میں کوئی شک نہیں کہ میری جان بچ جائے گی مگر میں اخلاقی اعتبار سے خود کی نظرون سے گر جاؤں گا اور یہ میری نظر میں سے سب بڑا جرم اور یونان کے دیوتاؤن / بادشاہون کے اس مذہب کی رو سے سب سے بڑا گناہ ہوگا۔ یہ وہ الفاظ تھے جسے سقراط اپنے شاگردون کے ساتھ اپنے آخری وقت میں کررہے تھے۔ جیوری جو کہ اندازًتین سو ممبران پر مشتمل تھا سقراط کے کیس کی سنوائی کر رہے تھے۔ اس پر الزام یہ تھا کہ وہ ایتھنز کے نوجوانون کو ورغلایا، گمراہ کیا ، جوکہ کرپشن ہے اور وقت کے دیوتاؤن کی نافرمانی کی۔کہتے ہیں سقراط اپنے دفاع کے بجائے جیوری ممبران کو اور بھی بھڑکایا تاکہ اور زیادہ سوالات پوچھے جائیں ۔ (مگر یہ زار آج تک کسی کے سمجھ نہیں آیا کہ سقراط سوالات کیون پوچھ رہاتھا مگر دنیا آج تک سقراط کے اسی فلفسے پر عمل پیرا ہے اور سیکھنے سکھانے کے لئے سوال جواب کو سب سے بہترین طریقہ مانا جاتا ہے جو کہ سقراط اپنے شاگردون اور آخری وقت میں اپنے اوپر لگائے کئے الزامات کے کیس کی سنوائی کرنے والے جیوری ممبران کے ساتھ اپنایا تھا۔) اسطرح تین سوممبران پر مشتمل جیوری میں سے ایک سو ساٹھ سقراط کو قصور وار اور ایک سو چالیس نے اسے معصوم قرار دیا اوریونان کے جمہوری اصول کے مطابق سقراط کو سزا ہوئی۔ اس کے بعد سقراط کے سامنے دو آپشن رکھے گئے کہ اپنے لئے سزائے موت کا انتخاب کریں یا پھرمعافی مانگ لین اور شہر چھوڑ کر چلے جائیں۔ مگر سقراط شہر چھوڑنے سے انکار کیا۔ اس فیصلے کے بعد سقراط کے شاگرد اس جگہ جمع ہوئے جہان وہ قید تھا اور استاد کی آبدی جدائی کے غم میں رونے لگے۔ تو وہ پوچھا کہ کیون رو رہے ہو تم لوگ؟ وہ کہنے لگے کہ آپ مظلوم ہو ۔ بولے کہ اگر میں ظالم ہوتا تو کیا تم لوگ خوش ہوتے؟ کہنے لگے آپ بے قصور ہیں بولے کہ اگر قصور وار ہوتے تو کیا تم لوگ خوش ہوتے؟ اس کی دانائی کا یہ عالم تھا کہ اس کے پاس ہر سوال کا جواب تھا اور وہ چاہتا تھا کہ لوگ اسے پوچھیں اور اگر نہ پوچھیں تو وہ خود پوچھتاتھا ۔ اور یہی وہ وجہ تھا جو اسے سزا موت کا سبب بنا۔ جیوری ممبران کے فیصلے کے بعد سقراط کو قید خانہ منتقل کیا گیا اور سزا تعین ہونے کے بعد تیس (۳۰) دن تک سقراط قید خانے میں رہا اس کیوجہ یہ تھا کہ اس زمانے میں تھیورس کا مقدس جہاز نیاز نذر کی چیزیں لیکر ایتھنز سے باہر کے مندرون کو جاتا تھا اور یہ روایت تھی کہ جب تک وہ جہاز واپس نہ آجاتا۔ ایتھنز میں کسی بھی مجرم کو سزائے موت نہ دی جاتی۔ غرض یہ وہ زمانہ ہی تھا کہ جہاز ابھی واپس نہ آیا تھا اور اسی وجہ سے سقراط متعین سزا کے بعدبھی قیدخانے میں ایک ماہ تک بند رہا ۔ اس دوران اس کے پاس لوگون کا انا جانا رہتا تھا اور ان میں ان کے انتہائی قریبی شاگرد قریطو بھی تھا ” جو اس وقت ایتھنز کے انتہائی مالدار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور سرکاری ادارون اور دیوتاؤن کے دربار میں کافی اثرروسوخ رکھتا تھا۔ قریطو اپنے دولت ہمیشہ اچھے راہ پر استعمال کرتا تھا اور سقراط کو اسی نے معاشی فکر سے آزاد کر رکھا تھا۔ اور اس نے استاد کی جان بچانے کیلئے قید خانے سے بھاگنے کا پورا انتظام کررکھا تھا” (قریطو اور ہمیں کیا کرنا چایئے،مکالمات از افلاطون انگریزی ترجمہ ڈاکٹر سیموئیل جانسن ، اردو ترجمہ مولانا محمد عنایت اللہ دہلوی1939ء)۔ مگر استاد کی اخلاقی لیول اتنا بلند تھا کہ وہ کسی صورت جیل سے بھاگنے کو تیار نہ تھا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ انسان کے اوپر ہر طرح کے مشکلات آجاتے ہیں اور کبھی کبھار انسا ن مسائل میں گھیر جاتا ہے اور دنیا کی نظرون سے بھی گر جاتا ہے مگر پھر بھی انسان سنبھل جاتا ہے۔

کیونکہ مشکل وقت کوئی بھی ہو یا مسائل کتنے بھی زیادہ ہوں یا پھر دنیا کے نظرون سے بندہ کتنا ہی گر کیون نہ جائے !! انسان اٹھ سکتا ہے اگر وہ اخلاق اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے ۔ کیونکہ اخلاق کے کچھ اصول ہوتے ہیں جو ہر انسانی معاشرے میں موجود ہوتے ہیں اگر کوئی فرد ان اخلاقی اصولون کو پامال کرے تو وہ دنیا کی نظرون کے ساتھ ساتھ خود کی نظرون سے بھی گر جاتا ہے جس کی ریکوری یا سنبھل جانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے اور اگر کوئی اس کے باوجود بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس طرح کے پامالی کے بعد بھی سنبھل جاتا ہے تو وہ انتہائی بداخلاق یا پھر وہ معاشرہ اخلاقی اصولون سے خالی ہوتا ہے۔ اور جن معاشرون میں اخلاقی اصولون پر سمجھوتہ ہوتا ہو تباہی اور بربادی ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ اوراجکل ہم اسی کشمکش میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔

کیونکہ ہمارے معاشرے میں ان لوگوں کو اہمیت دی جاتی ہے جو اخلاقی طور پر غریب ہوتے ہیں اور سیاست جس کا مفہوم ایک منعظم معاشرے کی تشکیل ہے اور ایوان جس کے ساتھ اکثر مقدس کا لفظ بھی لکھا جاتا ہے انتہائی بداخلاق، بدتمیزاور مجرم لوگوں کی اماجگاہ بن چکا ہے اور وہ لوگ جو ملکی سیاست میں اہم رول ادا کررہے ہیں آئے روز اخلاقی اصولون کو پامال کرتے آرہے ہیں اور آئے روز اخلاقی اصولون پر ڈیل ہورہا ہوتا ہے اور ان کے کارکنان انہیں سراہتے نظر آتے ہیں۔

ڈیل جن کی وجہ سے اربون کی کرپشن میں مبتلا افراد کی بیرون ملک راوانگی ہو یا پھر سفاک قاتلون کی رہائی، ہم بحیثیت معاشرتی ارکان ان اقدامات کو سراہتے رہتے ہیں ۔ اور وہ لوگ جن کا دعوی ہی اس کرپٹ نظام سے چٹکارہ دلوانے کا تھا۔ خود اس بداخلاق نظام کا حصہ بن چکے ہیں اور جو لوگ اب بھی ان سے تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے ہیں انہیں صرف یہ جاننا چائیے کہ ایک لیڈر اپنی ساٹھ سالہ زندگی میں اپنی چھ فٹ کی بدن کو تبدیل نہ کر سکااور اسکا واضح مثال انکے منہ سے نکلنے والے غیر مہذب الفاظ اور بات بات میں طیش میں آنا ،مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ کارکنان ایسے بکواس کو بھی واعظ سمجھ کر دفاع کررہے ہوتے ہیں اور کسی کی جرات تک نہیں کہ وہ اس پر تنقید کرے۔ اورایسے لوگ اس نظام کو کیا خاک تبدیل کریں گے!! اور رہی بات مذہبی جماعتون کا ، تو ان کے بارے میں مختصر رائے یہ ہے کہ وہ مذہب اسلام کو اسلام آباد تک کا مختصر ترین راستہ سمجھتے ہیں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

مگر ہمیں بحیثیت مجموعی اخلاقی اصول واضح کرنے ہونگے۔اور یہ بھی طئے کرنا ہوگا کہ ہم کسی حال میں بھی ان اصولون پر سمجھوتہ نہیں کریں گے اور اور اگر کوئی ان اصولون کو پامال کرے تو ہم اسے عبرتباک مثال بنا دیں گے۔ اسطر ح معاشرے میں وقار کا ایک معیار پیدا ہوگا اور دنیامیں ہمارا ایک مقام پیدا ہوگا۔ اور اسطرح وہ لوگ ہمارا لیڈر بن پائین گے جو اخلاقی طور پر مضبوط ہونگے اور ہمارا دیرنہ خواب جو کہ اک اچھے لیڈر کی تلاش ہے شرمندہ تعبر ہوگا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

ایک کمنٹ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button