خدمت یا خود نمائی؟

دنیا میں ہر انسان اپنی استطاعت کے مطابق نیکی کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ کچھ لوگ مالی مدد کرتے ہیں، کچھ وقت نکال کر دوسروں کی خدمت کرتے ہیں، اور کچھ اپنے علم و ہنر کے ذریعے دوسروں کی زندگی بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نیکی کا مقصد صرف مدد کرنا ہوتا ہے، یا اس کے پیچھے کوئی اور جذبہ بھی کارفرما ہوتا ہے؟
آج کل فلاحی کاموں کا ایک نیا انداز سامنے آیا ہے، جہاں خدمت کے ساتھ ساتھ اس کی تشہیر بھی کی جاتی ہے۔ کسی کو کھانا کھلایا جائے، کسی کو کپڑے دیے جائیں، یا کسی کو مالی مدد فراہم کی جائے تو فوراً اس لمحے کو کیمرے میں محفوظ کر لیا جاتا ہے، اور پھر یہ تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کی جاتی ہیں۔ اس عمل کے پیچھے اکثر خود نمائی اور شہرت حاصل کرنے کا ایک غیر محسوس جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
"جب تم صدقہ دو تو اس طرح دو کہ تمہارے دائیں ہاتھ سے دیا جائے اور بائیں ہاتھ کو خبر بھی نہ ہو۔” (صحیح بخاری)
یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ نیکی کا اصل حسن اخلاص اور رازداری میں ہے۔ اگر کسی کی مدد صرف اس لیے کی جا رہی ہو کہ لوگ دیکھیں اور تعریف کریں، تو اس میں اخلاص باقی نہیں رہتا۔ بلکہ بعض اوقات یہ مدد لینے والے کی عزتِ نفس کو بھی مجروح کر دیتی ہے۔
بلتستان میں فلاحی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جو ایک خوش آئند بات ہے۔ لیکن ان سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ایک اور رجحان بھی پروان چڑھ رہا ہے—نیکی کی تشہیر۔ مخلتف فلاحی ادارے امدادی تقریبات منعقد کرتے ہیں، جہاں مستحقین کو قطار میں کھڑا کرکے ان کی مدد کی جاتی ہے۔ پھر ان لمحوں کو کیمرے میں قید کرکے سوشل میڈیا پر نشر کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے معاشرے میں ہو رہا ہے جہاں پہلے ہی غربت ایک تکلیف دہ حقیقت ہے، اور اس پر ستم یہ کہ مدد کو بھی ایک تماشہ بنا دیا جائے۔
مدد کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ ضرورت مند کو اس کی عزتِ نفس کے ساتھ سہارا دیا جائے۔ لیکن جب کسی کو سب کے سامنے امداد دی جاتی ہے، اس کی تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جاتی ہے، تو وہ مدد لینے والا خود کو مزید کمزور اور بے بس محسوس کرتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اگر میں نے کسی سے مدد لی تو اس کے بدلے مجھے اپنی عزت بھی داؤ پر لگانی پڑے گی۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ بعض فلاحی ادارے اور افراد نیکی کے اصل مقصد کو بھول چکے ہیں۔ ان کے لیے اصل ترجیح مدد کرنا نہیں، بلکہ اس مدد کا دکھاوا کرنا بن چکا ہے۔ جب کسی غریب شخص کی تصویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جاتی ہے، تو کیا ہم نے سوچا کہ وہ کیسا محسوس کرے گا؟ کیا ہم نے یہ سوچا کہ کیا وہ اپنی غربت کو اس طرح دنیا کے سامنے لانے پر آمادہ تھا؟
یہ روش نہ صرف مدد لینے والے کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچاتی ہے بلکہ فلاحی کاموں کے جذبے کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ اسلام میں خدمتِ خلق کا درس دیا گیا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ مدد ایسے کی جائے کہ لینے والا خود کو کمتر محسوس نہ کرے۔
خوش قسمتی سے بلتستان میں کئی ایسے فلاحی ادارے اور فلاحی کام کرنے والے بھی موجود ہیں جو واقعی خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہیں۔ یہ ادارے اور لوگ خاموشی سے کام کرتے ہیں، مستحقین تک ان کی ضرورت کی چیزیں پہنچاتے ہیں، اور اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ مدد لینے والے کو کسی قسم کی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
کچھ ایسے گمنام ہیروز بھی ہیں جو رات کے اندھیرے میں لوگوں کے گھروں کے دروازے پر امدادی سامان چھوڑ آتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو خاموشی سے سینکڑوں خاندانوں کی کفالت کر رہے ہیں۔ کئی افراد ایسے ہیں جو غریب طلبہ کی تعلیمی مدد کر رہے ہیں، مگر انہوں نے کبھی ان لوگوں کا نام یا ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر نہیں کیں۔
یہی وہ حقیقی خدمت ہے جس کی تلقین اسلام کرتا ہے۔ نیکی کا اصل حسن اسی میں ہے کہ وہ خاموشی سے، محض اللہ کی رضا کے لیے کی جائے، نہ کہ لوگوں کی داد و تحسین سمیٹنے کے لیے۔
یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں ہر چیز کی تشہیر عام ہو چکی ہے۔ اگر ہم واقعی نیکی کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے عمل سے مثال بننا ہوگا، نہ کہ سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے نیکی کی نمائش کرنی ہوگی۔ اگر ترغیب دینا مقصود ہو تو یہ کام بغیر کسی کی عزت کو مجروح کیے بھی کیا جا سکتا ہے۔
فلاحی اداروں کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات کریں جن سے امداد کی تقسیم باوقار انداز میں ہو۔ محتاجوں کی مدد کرتے وقت ان کی عزتِ نفس کا خاص خیال رکھا جائے اور انہیں یہ محسوس نہ ہونے دیا جائے کہ وہ کسی پر بوجھ ہیں۔
خدمتِ خلق کا اصل حسن تبھی برقرار رہ سکتا ہے جب یہ خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے کی جائے، بغیر کسی دنیاوی غرض یا تشہیر کے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے فلاحی کام حقیقی معنوں میں لوگوں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لائیں، تو ہمیں اپنے طریقہ کار پر غور کرنا ہوگا۔
ورنہ خدمت کے نام پر یہ خود نمائی ایک دن اصل خدمت کے جذبے کو بھی ماند کر دے گی، اور نیکی ایک "سوشل میڈیا ٹرینڈ” بن کر رہ جائے گی۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم خدمت کر رہے ہیں یا محض خود نمائی میں مصروف ہیں؟