وہیل انٹیل: آسان منافع کا جال یا مالی تباہی کا راستہ؟

سجاد ہنزائی
گلگت بلتستان ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت ایک مثالی خطہ سمجھا جاتا ہے، جہاں تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر، غربت کے خاتمے، کھیل اور فٹنس سمیت مختلف شعبوں میں نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں یہاں وہیل انٹیل جیسے دھوکہ دہی پر مبنی سرمایہ کاری اسکیموں کا رجحان بڑھا ہے، جس نے ہنزہ، سکردو، گلگت اور دیگر علاقوں کے نوجوانوں، والدین، تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ افراد کو شدید مالی نقصان پہنچایا ہے۔
وہیل انٹیل ایک آن لائن سرمایہ کاری پلیٹ فارم کے طور پر متعارف کرایا گیا، جس نے مختصر مدت میں زیادہ منافع کا جھانسہ دے کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ابتدا میں، کچھ افراد کو منافع دیا گیا تاکہ مزید سرمایہ کاروں کو راغب کیا جا سکے، لیکن جیسے ہی بڑی رقم جمع ہوئی، پلیٹ فارم اچانک غائب ہو گیا، اور ہزاروں افراد اپنی محنت کی کمائی سے محروم ہو گئے۔ یہ رجحان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ بغیر تحقیق کے سرمایہ کاری کرنے کی عادت رکھتے ہیں، جو کہ سنگین مالی نقصان کا باعث بن رہی ہے۔
گزشتہ روز جب وہیل انٹیل کا پلیٹ فارم اچانک بند ہوا، تو سوشل میڈیا پر ایک شدید بحث چھڑ گئی۔ سینکڑوں متاثرین نے اپنی کہانیاں شیئر کیں، جن میں بیشتر نے اپنی محنت کی کمائی کھونے کا شکوہ کیا۔ کچھ افراد نے اپنی تمام تر جمع پونجی اس اسکیم میں لگا دی تھی، جبکہ دیگر نے قرض لے کر سرمایہ کاری کی، جو اب ناقابل واپسی ہو چکی ہے۔ دوسری جانب، ایسے افراد بھی سامنے آئے جنہوں نے اس اسکیم سے منافع کمایا، مگر حقیقت میں ان کا منافع ان سرمایہ کاروں کی رقم سے حاصل ہوا جو نقصان اٹھا چکے ہیں۔ اس صورت حال نے ایک تلخ حقیقت کو آشکار کیا کہ ایسی دھوکہ دہی پر مبنی اسکیمیں بظاہر کچھ لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں، لیکن مجموعی طور پر زیادہ تر سرمایہ کار نقصان میں رہتے ہیں۔
معروف اخبار *ڈان* کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایک تجربہ کار ٹریڈر نے ایک مستند پلیٹ فارم پر دس لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی، جس پر ابتدائی طور پر اسے منافع حاصل ہوا۔ مزید منافع کی امید پر اس نے پچاس لاکھ روپے مزید لگائے، لیکن چند دن بعد، جس ایپ سے وہ ٹریڈنگ کر رہا تھا، وہ موبائل سے غائب ہو گئی اور یوں وہ اپنی پوری سرمایہ کاری سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ یہ معاملہ صرف ایک فرد تک محدود نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں سینکڑوں افراد نے وہیل انٹیل کے ذریعے اپنی سرمایہ کاری گنوا دی۔
ایک تحقیق کے مطابق، اس اسکیم کے ٹیلیگرام گروپ میں اٹھارہ ہزار سے زائد افراد شامل تھے، جنہوں نے مجموعی طور پر تین ارب نوے کروڑ روپے کھو دیے۔ اگر یہی سرمایہ گلگت بلتستان کے ترقیاتی منصوبوں میں لگایا جاتا تو نمایاں بہتری آ سکتی تھی۔ صحت کے شعبے میں ایک سو بستروں پر مشتمل جدید اسپتال تعمیر کیا جا سکتا تھا، تعلیم کے شعبے میں دس جدید اسکول بنائے جا سکتے تھے، جبکہ پانی کے بحران کو حل کرنے کے لیے صاف پانی کے فلٹریشن اور سپلائی سسٹم پر کام کیا جا سکتا تھا۔ توانائی کے متبادل ذرائع پیدا کرنے کے لیے پانچ میگاواٹ کا ہائیڈرو پاور پلانٹ تعمیر ہو سکتا تھا، سڑکوں کی مرمت اور چھوٹے پلوں کی تعمیر ممکن تھی، اور پانچ سو سے زائد گھروں کے لیے سولر پینلز فراہم کیے جا سکتے تھے۔
یہ حقیقت ہے کہ سرمایہ لوگوں کا ہے اور محنت بھی انہی کی ہے، لیکن عقل مندی کا تقاضا ہے کہ کسی بھی مالیاتی اسکیم میں سرمایہ لگانے سے پہلے اس کی مکمل تحقیق کی جائے۔ عام طور پر ایسی اسکیمیں ابتدائی دنوں میں کچھ سرمایہ کاروں کو منافع دیتی ہیں تاکہ مزید لوگوں کو راغب کیا جا سکے۔ جیسے ہی ان کے پاس بڑی تعداد میں پیسے جمع ہو جاتے ہیں، یہ کمپنیاں اچانک غائب ہو جاتی ہیں، جس کے بعد سرمایہ کاروں کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ حیران کن طور پر، ہنزہ اور اسکردو جیسے علاقوں میں جہاں شرح خواندگی ملک میں سب سے زیادہ ہے، وہاں بھی لوگوں کا وہیل انٹیل جیسے اسکینڈل میں ملوث ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ تعلیم یافتہ افراد بھی جلد بازی میں مالی فیصلے کر رہے ہیں، بغیر اس بات پر غور کیے کہ آیا یہ سرمایہ کاری مستند ہے یا محض ایک دھوکہ دہی پر مبنی اسکیم۔
اس اسکینڈل نے خاندانی تعلقات کو بھی متاثر کیا ہے۔ ایک نوجوان نے اپنے کزن کو اس اسکیم میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی، اور انکار پر اس سے رشتہ ختم کرنے کی دھمکی دی۔ یہ افسوسناک ہے کہ لوگ دھوکہ دہی پر مبنی اسکیموں کو اپنے قریبی رشتوں پر ترجیح دے رہے ہیں۔ نوجوانوں کو مستقبل کے رہنما سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر وہ اسی طرح کے کاموں میں لگے رہے، تو لیڈر بننا تو دور کی بات، بلکہ دھوکہ دہی کے ماہر ضرور بن جائیں گے۔
آن لائن سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں، لیکن ان کا استعمال دانشمندی سے کرنا ضروری ہے۔ ہر قسم کی سرمایہ کاری میں خطرہ ہوتا ہے، لیکن دھوکہ دہی سے بچنے کے لیے تحقیق اور محتاط فیصلے کرنا ناگزیر ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ کسی بھی نامعلوم یا غیر رجسٹرڈ سرمایہ کاری پلیٹ فارم میں اپنی محنت کی کمائی لگانے سے پہلے تمام ممکنہ پہلوؤں پر غور کریں تاکہ مستقبل میں بڑے مالی نقصان سے بچا جا سکے۔ کسی بھی پلیٹ فارم پر سرمایہ لگانے سے پہلے اس کے قانونی پہلوؤں، رجسٹریشن اور سابقہ ریکارڈ کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ سرمایہ کاروں کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان یا دیگر متعلقہ اداروں سے تصدیق شدہ پلیٹ فارمز پر ہی سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ جو اسکیمیں غیر معمولی منافع دینے کا دعویٰ کرتی ہیں، عام طور پر وہی دھوکہ دہی پر مبنی ہوتی ہیں۔ سرمایہ کاری سے قبل ماہرین سے مشورہ کرنا بھی دانشمندی ہے اور ایسی سرمایہ کاری سے گریز کرنا چاہیے جو مالی بحران کا باعث بن سکتی ہو۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ آن لائن سرمایہ کاری کے حوالے سے سخت قوانین متعارف کرائے اور جعلی سرمایہ کاری پلیٹ فارمز کے خلاف فوری اقدامات کرے۔ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو ایسی اسکیموں کے خلاف فوری کارروائی کرنی چاہیے اور عوامی آگاہی مہمات چلانی چاہئیں تاکہ لوگ دھوکہ دہی پر مبنی اسکیموں کا شکار نہ ہوں۔ اس کے علاوہ، ڈیجیٹل فنانس کے میدان میں شفافیت لانے کے لیے حکومت کو مزید سخت ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں اس قسم کی سرمایہ کاری اسکینڈلز کی روک تھام ممکن ہو سکے۔
یہ ضروری ہے کہ عوام آن لائن سرمایہ کاری کے بنیادی اصولوں کو سمجھیں اور ہر قسم کے دھوکہ دہی پر مبنی پلیٹ فارمز سے محتاط رہیں۔ کسی بھی نئی سرمایہ کاری اسکیم میں داخل ہونے سے پہلے ماہرین کی رائے لینا، پلیٹ فارم کی قانونی حیثیت کی تصدیق کرنا اور سرمایہ کاری کے خطرات کو سمجھنا ضروری ہے۔ دولت سب کچھ نہیں ہوتی، اصل دولت محنت، ایمانداری اور دانشمندی سے لیے گئے فیصلے ہیں۔ حکومت اور مالیاتی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ عوامی شعور اجاگر کرنے کے لیے مزید اقدامات کریں تاکہ مستقبل میں لوگ کسی بھی ایسی اسکیم کا شکار نہ ہوں جو انہیں مالی تباہی کی طرف دھکیل دے۔