ڈبل شاہ سے وہیل انٹل تک

کامیابی شارٹ کٹ کا نام نہیں بلکہ جہد مسلسل کا نام ہے۔ ایک بچہ جب ڈاکٹر ، انجنئر، سائنسدان یا پائلٹ بننا چاہتا ہے تو کئ سالوں کی محنت شاقہ کے بعد وہ اس مقام تک پہنچتا ہے۔ بڑا انسان بننے کے لئے آج تک کوئی شارٹ کٹ ایجاد نہیں ہوا ہے۔۔ بڑا انسان وہ ہے جو اپنے پیشے میں کار ہائے نمایاں سر انجام دے۔ کارہائے نمایاں سال ہاسال کی جدوجہد کا تقاضہ کرتی ہے۔ دوسری طرف دولت کے ارتکازکی خواہش یا اس کے لئے شارٹ کٹ راستوں کا انتخاب ایک غیر اخلاقی اور غیر قانونی عمل تو ہو سکتا مگر کامیابی کی علامت نہیں ہوسکتا ہے۔
بدقسمتی سے سرمایہ دارانہ نظام نے آج کی پوری دنیا میں دولت کے ارتکاز کو پرکشش بنایا ہے ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ بڑا اور کامیاب انسان کا دولت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاریخ میں علم، سیاست ، ادب، مذہب، ، سائنس، ٹیکنالوجی سمت جن جن شعبوں میں کامیاب افراد کا نام لیا جاتا ہے ان کے ساتھ دولت کا کہیں ذکر نہیں آتا بلکہ دنیا کی کئ نامور شخصیات ایسی ہیں جو انتہائی غربت اور کسمپرسی میں زندگی گزار چکی ہیں مگر انہوں نے اپنے اصولوں پر کھبی سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی شخصیات نے نہ صرف خود کو تاریخ میں امر کیا بلکہ دنیا کو مختلف شعبوں میں ایجادات، تخلیقات اور علم کی شکل میں بہت کچھ دے کر گئ ہیں۔
جن معاشروں میں دولت ہی کو کامیابی اور بڑا پن کی علامت سمجھی جاتی ہے وہاں صرف اور صرف دولت کا حصول لوگوں کا مطمع نظر ہوتا اور اس کے حصول کے لئے ہر ناجائز طریقہ بروئے کار لایا جاتا ہے۔ دولت کے ارتکاز کے لئے شارٹ کٹ کے پیچھے نفسیاتی ، معاشی، ثقافتی، سیاسی و سماجی عوامل ہیں۔
نفسیاتی عوامل میں لالچ، بے صبری، احساس کمتری، جلد پذیرائی حاصل کرنے کی خواہش، اور معاشرے سے پیچھے رہ جانے کا خوف ہے۔
سماجی عوامل میں سماجی دباو، دوستوں کا دباو، سماج کی توقعات پر پورا اترنا، عزت اور وقار کی خواہش اور سوشل میڈیا سے متاثر ہونا شامل ہے۔
معاشی وجوہات میں معاشی مشکلات، روزگار کے محدود مواقع، کم آمدنی، رہن سہن کے بڑھتے اخراجات اور معاشی عدم مساوات ہے۔
ثقافتی وجوہات میں ظاہری نمودو نمائش اور دولت کے حصول کے لئے ثقافتی دباو، وہ روایات جو دولت اور ظاہری رتبے کو اہمیت دیتی ہیں، خاندان کی کفالت اور سپورٹ کا ثقافتی دباو، معیاری تعلیم اور وسائل تک پہنچنے میں مشکلات اور کم مواقع کے علاوہ بڑھتا کرپشن اور قرباء پروری شامل ہیں۔
دیگر وجوہات میں معاشی خواندگی کا نہ ہونا، جائز سرمایہ کاری کے لئے مواقع اور وسائل کا نہ ہونا، راتوں رات امیر بننے کے لئے خواب دیکھانے والی فراڈ سکیموں سے متاثر ہونا، کرپشن اور کمزور نظام حکومت جو ایسی سیکموں کو روکنے کی بروقت کوشش نہیں کرتی، اس کے علاوہ ذاتی مسائل یعنی صحت، تعلیم، گھریلو مجبوریاں ، ذاتی مجبوریاں، معاشی دست نگری یا معاشی غلامی وغیرہ شامل ہیں۔
مذکورہ تمام وجوہات کی روشنی میں یہ بات آسانی سے سمجھ آتی ہے کہ دولت کے لئے شارٹ کٹ ڈھونڈنا ایک سماجی مسلہ ہے جس کا تعلق نظام حکومت اور معاشی عدم تحفظ سے بھی ہے۔ یہ بیماری پاکستان جیسے معاشروں میں عام ہے۔ جو لوگوں کو توہم پرستی ، آن لائن فراڈ ، جوا، منشیات و ہتھیار فروشی، جسم فروشی ، جعلی انتقالات، سمگلنگ، کرپشن، غبن، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان، موبائل سنیچنگ ، جعلی تقسیم لنگر، جادو ٹونہ، قتل و غارتگری، منی لانڈرنگ، ملاوٹ، چوری، زمینوں پر قبضہ سے لے کر ہر وہ کام سرانجام دینے پر مجبور کرتی ہے جس کے زریعہ راتوں رات امیر بننے کا خواب پورا ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ تمام کام ملک کے طول و ارض میں زور و شور سے جاری و ساری ہیں۔
ماضی میں پاکستان میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں لوگوں نے راتوں رات امیر بننے کا خواب دیکھ کر فراڈ سکیموں میں پیسہ لگایا اور لٹ گئے۔ جیسے ڈبل شاہ کے فراڈ کا کیس بڑا مشہور ہوا تھا۔ حالیہ دنوں ایک آن لائن فراڈ سکیم وہیل انٹل کے تحت گلگت بلتستان کے لوگوں سے تین ارب پچانوے کروڑ کے لوٹے جانے کی خبر بھی اسی سلسلےکی ایک کڑی ہے۔ گویا ڈبل شاہ سے وہیل انٹل تک جتنے بھی فراڈیے ہیں وہ سب لوگوں کی راتوں رات امیر بننے کی خواہش جیسی لالچی زہنیت سے فائدہ اٹھا کر پیسہ کماتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جب تک لالچی زندہ ہے کوئی بھی ٹھگ بھوکا نہیں مر سکتا۔
ان واقعات سے سبق حاصل کر کے ہمیں اپنے بچوں کو یہ سیکھانے کی ضرورت ہےکہ زندگی میں کچھ کر دیکھانے کے لئے درست راستے کے تعین کے علاوہ سال ہا سال کی محنت شاقہ درکار ہوتی ہے، یعنی بڑا انسان بننے کے لئے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے اور نہ ہی دولت کسی عزت و رتبے کا معیار ہے۔ تاریخ میں امر ہونے کے لئے زندگی کے صحرا کو اپنے خون اور پسینے سے سیچنا پڑتا ہے تب جاکر گلستان آباد ہوتا ہے۔