گلگت بلتستان میں "غیرت” کے نام پر قتل – روایت کے پردے میں چھپا ہوا ظلم

گلگت بلتستان میں حال ہی میں دو خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا۔ یہ واقعات صرف دو جانوں کا ضیاع نہیں بلکہ ایک پورے معاشرتی رویے کا عکاس ہیں جو خواتین کی آزادی، وجود، اور زندگی کو "عزت” کے تنگ زاویے میں قید کر کے رکھتا ہے۔ جب کوئی عورت پسند کی شادی کی بات کرتی ہے، جب وہ اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے، یا سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی ظاہر کرتی ہے، تو اسے "خاندان کی عزت” کے لیے خطرہ قرار دے کر خاموش کروا دیا جاتا ہے — کبھی لفظوں سے، کبھی گولی سے۔
مگر سوال یہ ہے کہ آخر عزت کا بوجھ ہمیشہ عورت کے کاندھوں پر ہی کیوں؟ وہی کام اگر مرد کرے تو اسے اکثر معاف کر دیا جاتا ہے، بلکہ بعض قبائل میں تو اس پر فخر کیا جاتا ہے کہ "یہ تو مرد کا بیٹا ہے”۔ پسند کی شادی، viral videos ، یہاں تک کہ بے حیائی کے الزامات تک—اگر مرد پر لگیں تو معاملہ دب جاتا ہے، لیکن عورت کو اسی فعل پر موت کا پروانہ تھما دیا جاتا ہے۔ غیرت جیسے الفاظ صرف عورت کے ساتھ ہی کیوں جوڑے جاتے ہیں؟ کیا مرد کا کوئی کردار نہیں؟ یہ امتیازی رویہ نہ صرف انصاف کے خلاف ہے بلکہ معاشرتی دوغلے پن کی واضح مثال ہے۔
زیادہ تر غیرت کے نام پر قتل کی گئی خواتین کی لاشیں دریاؤں میں پھینک دی جاتی ہیں، اور ان کی موت کو خودکشی کا نام دے کر فائلیں بند کر دی جاتی ہیں۔ کئی کیسز میں تو ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی، کیونکہ قاتل خاندان کے بااثر افراد ہوتے ہیں — اکثر چچا، تایا، چچا زاد، یا شوہر کے رشتہ دار، جو کسی بیٹے، بھائی یا شوہر کی "عزت” کے خود ساختہ رکھوالے بن بیٹھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو نہ تو یہ حق دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کسی عورت کی زندگی یا موت کا فیصلہ کریں۔ اور افسوسناک امر یہ ہے کہ آج تک گلگت بلتستان میں کسی غیرت کے نام پر قتل کے مجرم کو کھلی سزا یا مثال بنانے والی سزا نہیں دی گئی۔ مجرم آزاد گھومتے ہیں، اور متاثرہ خاندانوں کو خاموش کرا دیا جاتا ہے۔
اسلام میں غیرت کے نام پر قتل کی کوئی گنجائش نہیں۔ قرآنِ مجید اور احادیث مبارکہ میں واضح ہے کہ کسی انسان کو بغیر شرعی عمل اور عدالتی کارروائی کے قتل کرنا سخت گناہ ہے۔ سورۃ النساء، سورۃ المائدہ، اور سورۃ الانعام جیسی آیات میں انسانی جان کے احترام اور عدل پر زور دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جاہلیت کے دور کی رسومات کو ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ عزت اور شرافت کا معیار تقویٰ ہے، نہ کہ عورت پر کنٹرول حاصل کرنا۔
پاکستانی قانون کے مطابق غیرت کے نام پر قتل قتلِ عمد کے زمرے میں آتا ہے۔ 2016 میں منظور شدہ انسدادِ غیرت قتل قانون کے مطابق اگر قاتل کو خاندان معاف بھی کر دے تب بھی اسے عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے قانون کے ہوتے ہوئے بھی اکثر کیسز جرگہ سسٹم، پولیس کی لاپروائی، اور معاشرتی دباؤ کی نذر ہو جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان پولیس کے مطابق 2024 میں 18 کیسز رپورٹ ہوئے، مگر مقامی کارکنان کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ اکثر واقعات کو خودکشی، حادثہ یا خاندانی جھگڑا قرار دے کر دبا دیا جاتا ہے۔
یہ واقعات صرف جرم نہیں بلکہ خواتین کے خلاف صنفی تشدد کی بدترین شکل ہیں۔ یہ ان کی خودمختاری، ان کی مرضی، اور ان کے جینے کے حق پر حملہ ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے (UDHR) کے مطابق ہر انسان کو زندگی، آزادی، اور ذاتی تحفظ کا حق حاصل ہے۔ اسی طرح خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے کنونشن (CEDAW) کے تحت پاکستان پر لازم ہے کہ وہ خواتین کو تشدد سے بچانے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ، اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے ادارے بارہا پاکستان سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل کو ختم کرنے کے لیے سخت قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
گلگت بلتستان میں خواتین کے لیے نہ تو محفوظ پناہ گاہیں ہیں، نہ ہی فوری قانونی مدد یا ہیلپ لائنز۔ کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں وہ کسی خطرے یا ہنگامی صورتِ حال میں پناہ لے سکیں۔ نہ عدالتی نظام ان کی مدد کرتا ہے، نہ پولیس، اور نہ ہی مقامی قیادت۔ جب ریاست خاموش رہے تو معاشرہ بہرا ہو جاتا ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم خاموشی توڑیں۔ ہر بیٹی، بہن، اور ماں کے لیے آواز بلند کریں جنہیں صرف اس لیے قتل کر دیا گیا کہ وہ جینا چاہتی تھیں۔ غیرت کا مطلب قتل نہیں بلکہ کردار کی حفاظت ہے، اور کردار کسی کی جان لے کر ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم ان واقعات پر صرف افسوس نہ کریں بلکہ ان کے خلاف کھڑے ہوں، قانون کو حرکت میں لائیں، اور ایسی سوچ کو جڑ سے ختم کریں جو عورت کو زندگی نہیں، سزا دیتی ہے۔