کالمز

گلگت بلتستان کا کربناک المیہ  

بچپن میں پڑھایا گیا تھا کہ انسانی بقا کے لیے تین چیزیں ناگزیر ہیں،ہوا، پانی اور خوراک۔ ان میں سے کسی ایک کی بھی عدم دستیابی، زندگی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ 
مگر وقت نے پلٹا کھایا اور حالات یکسر بدل گئے۔ انسانی معاشرہ ایک ایسے موڑ پر آکھڑا ہوا ہے، جہاں سانس لینے سے زیادہ جینے کی سہولتیں اہم ہو گئی ہیں۔
آج کی دنیا میں بقا کے نئے "تین عناصر” وجود میں آ چکے ہیں، بجلی، انٹرنیٹ اور پیسہ۔ یہ وہ بنیادی سہولتیں ہیں، جن کے بغیر آج کی زندگی نہ صرف ادھوری ہے بلکہ اذیت ناک بھی۔
لیکن گلگت بلتستان جیسا خوبصورت مگر محرومیوں کا شکار خطہ ان تینوں سہولیات سے یکسر محروم ہے۔ یہ وہی علاقہ ہے جو پورے ملک کو پانی فراہم کرتا ہے، ڈیمز کے لیے اپنی زمین پیش کرتا ہے، اپنی ثقافت، تاریخ اور آثار قدیمہ قربان کرتا ہے، مگر خود اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔
لوڈشیڈنگ اب عارضی نہیں، دائمی مصیبت بن چکی ہے۔ بیس، بیس گھنٹے کی بجلی بندش نے زندگی کو تاریک، مفلوج اور بے جان بنا دیا ہے۔ بجلی کی پیداوار کے منصوبے یا تو کاغذوں کی حد تک ہیں یا کسی سرخ فیتے کی نظر ہو جاتے ہیں۔
دوسری اذیت انٹرنیٹ کی ہے، جو کبھی صرف سہولت تھی، اب تعلیم، صحت، روزگار، کاروبار، معلومات، ہر شے کی بنیاد بن چکی ہے۔ مگر گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ کا نام لینا گویا زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
 انٹرنیٹ فراہم کرنے والا ادارہ صارفین سے بھاری رقوم تو بٹور رہا ہے، مگر سروسز کی فراہمی میں یکسر ناکام دکھائی دیتا ہے۔ 
مسئلے کے خلاف عوام نے ہر فورم پر آواز اٹھائی، احتجاج کیے، سوشل میڈیا پر ٹرینڈز چلائے، مگر حکام کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
تیسرا اور سب سے سنگین مسئلہ پیسہ ہے، جو کہ آج کے دور کا سب سے طاقتور "پاس ورڈ” ہے۔ مگر جب ذریعہ آمدن ہی نہ ہو تو پاس ورڈ کیسے کھلے؟
گلگت بلتستان میں نہ صنعت ہے، نہ تجارت، نہ کوئی اور ذریعہ آمدن۔ سیاحت، معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ غربت اور بیروزگاری کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ نوکریاں گنتی کی ہیں اور وہ بھی اکثر سفارش اور مصلحت کی نذر ہو جاتی ہیں۔
ہر طرف سے مسائل میں گھرے عوام کی آخری امید یہاں کے سونے جیسے پہاڑ تھے، مگر مقامی لوگوں کو خبر ہونے تک وہ بھی ہاتھ سے نکل گئے۔ 
حکمرانوں کو ان پہاڑوں سے معدنیات نکال کر اپنے قرضے چکانے کی فکر تو ہے مگر سونے کی بوریوں پر بھوکے سونے والی قوم کی حالت زار کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔
 اب یہاں صرف تنگدستی ہے، مایوسی ہے، دھول ہے، شور ہے اور ایک بے یقینی کی فضا۔
ایسے میں، جب عوام اپنی محرومیوں پر آواز بلند کریں، تو ان کی حب الوطنی کو مشکوک قرار دے دیا جاتا ہے۔ 
سوال یہ نہیں کہ لوگ شکایت کیوں کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ریاست نے اب تک ان کی کتنی سنی ہے؟
تاریخ گواہ ہے، گلگت بلتستان کے لوگوں نے ہر مشکل گھڑی میں ریاست کا ساتھ دیا، قربانیاں دیں، خاموشی سہی، وعدے سنے، خواب دیکھے۔ لیکن ہر خواب کو وقت نے چکنا چور کر دیا۔
اب وقت ہے کہ یہاں کے عوام کو ادھورے خواب دکھانے کے بجائے عملی اقدامات کئے جائیں، کیونکہ اب بجلی، انٹرنیٹ اور روزگار صرف سہولتیں نہیں، زندگی کی ضرورتیں بن چکی ہیں۔ اب عوام انہی سہولیات کے حصول کے لیے کسی بھی قربانی سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
  

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button