کالمز

پانی، جنگ اور دھمکیوں کا کھیل — برِّصغیر ایک اور بحران کے دہانے پر

حمایت اللہ 
جنوبی ایشیا کی سرزمین ایک مرتبہ پھر شدید اضطراب اور بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے۔
پاکستان اور بھارت، دو ایٹمی طاقتیں، ایک ایسے تصادم کے کنارے کھڑے ہیں جس کا انجام نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کے امن کو متاثر کر سکتا ہے۔ حالیہ کشیدگی کی بنیاد، مقبوضہ کشمیر کے علاقے پاہلگام میں پیش آنے والا دہشت گردی کا واقعہ ہے، جس میں چھببیس بے گناہ جانیں ضائع ہوئیں۔ اس سانحے کو بنیاد بناتے ہوئے نئی دہلی نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے، براہِ راست پاکستان پر الزام عائد کر دیا۔
بھارت کی طرف سے کیے گئے جوابی اقدامات نہ صرف غیر سفارتی تھے بلکہ بین الاقوامی ضابطوں سے بھی متصادم ہیں۔ ان میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی، اٹاری بارڈر کی بندش، ویزوں کی منسوخی، اور پاکستان ہائی کمیشن کے عملے میں تخفیف شامل ہے۔ ان یک طرفہ فیصلوں نے دونوں ممالک کے درمیان قائم معمولی رابطہ کاری کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔
پاکستان نے بھی اس صورتِ حال میں نہایت سنجیدگی، مگر ٹھوس اصولی مؤقف کے ساتھ ردِعمل دیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں طے پایا کہ اگر بھارت نے پاکستان کے حصے کے پانی کو روکنے یا بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی، تو یہ اقدام اعلانِ جنگ سمجھا جائے گا اور اُس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ ساتھ ہی پاکستان نے واہگہ سرحد بند کر دی، فضائی حدود کو بھارتی طیاروں کے لیے بند کر دیا، اور دوطرفہ تجارت بھی معطل کر دی۔
سندھ طاس معاہدہ، جو 1960ء میں دونوں ممالک کے درمیان طے پایا تھا، نصف صدی سے زائد عرصے تک جنگوں، کشیدگیوں اور بداعتمادی کے باوجود قائم رہا۔ اس معاہدے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون کے دائرے میں ایک مؤثر ادارہ جاتی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔ مگر بھارت کی جانب سے اسے یک طرفہ طور پر معطل کرنا، نہ صرف اس معاہدے کے متن کی خلاف ورزی ہے، بلکہ ایک خطرناک نظیر بھی قائم کرتا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق، کسی بھی معاہدے میں ترمیم یا تعطل صرف باہمی رضامندی سے ممکن ہوتا ہے، اور کسی فریق کو تنہا اس کا اختیار حاصل نہیں۔
اگرچہ فی الحال بھارت کے پاس وہ انفرا اسٹرکچر موجود نہیں کہ وہ فوری طور پر پانی کو روک سکے، لیکن اس قدم کے طویل المدت اثرات نہایت مہلک ہو سکتے ہیں، بالخصوص پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے جہاں آبی وسائل پہلے ہی دباؤ میں ہیں۔
زیادہ تشویش ناک پہلو بھارت کے عسکری عزائم سے متعلق بیانات ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی اشتعال انگیز تقریریں، خاص طور پر بہار میں دی گئی دھمکی آمیز تقریر، اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ بھارت ممکنہ طور پر پاکستان کے خلاف محدود نوعیت کی فوجی کارروائی یا خفیہ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے۔ بالاکوٹ کا 2019ء کا واقعہ، جب بھارت نے فضائی حملے کیے اور پاکستان نے بھرپور جواب دے کر ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کیا، آج بھی ذہنوں میں تازہ ہے۔ اُس وقت دوست ممالک کی ثالثی سے تنازع ٹل گیا، مگر موجودہ صورتحال میں کوئی مؤثر ثالث فی الحال نظر نہیں آ رہا۔
اس خطے میں "جوہری ہتھیاروں کے نیچے رہ کر محدود جنگ” کا تصور ایک خطرناک مغالطہ ہے۔ ذرا سی چوک، غلط فہمی یا تقدیر کی ستم ظریفی، ایک مکمل جنگ کو جنم دے سکتی ہے جس کے نتائج ناقابلِ تصور ہوں گے۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک جلد از جلد سفارتی محاذ پر رجوع کریں، پسِ پردہ رابطے بحال کیے جائیں، اور کسی ممکنہ المیے کو روکنے کے لیے تدبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔
یہ بات یاد رکھنا لازم ہے کہ سندھ طاس معاہدہ جیسا ادارہ، جو تمام تر اختلافات کے باوجود قائم رہا، محض وقتی سیاسی فائدے یا انتخابی مہم کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ پانی کی جنگ درحقیقت انسانیت کی جنگ ہے، اور اگر سیاستدانوں نے ہوش کا دامن نہ تھاما تو مستقبل کی نسلیں اس کی بھاری قیمت چکائیں گی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button