کالمز

میرٹ اینڈ ڈی میرٹ + ضمیر کی آواز

تحریر:شاہد حسین ساحل

میرٹ ایک زبان زدہ عام لفظ ہے جسکی اگر ہم سادہ سی تعریف کریں تو وہ خوبیاں یا ٹیلنٹ جسکی بدولت انسان سوسائٹی کیلئے ایک کارآمد شہری ثابت ہوتا ہے، جسکی وجہ سے معاشرے کی تعمیر و ترقی پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ڈی میرٹ وہ خامیاں جس سے معاشرے میں ناانصافی، مایوسی اور نفرت کو فروغ ملتا ہے۔ میرٹ کی بحالی اور میرٹ کی پامالی ایسے الفاظ ہیں جس کو ہم صبح سے لیکر رات تک سینکڑوں بار سنتے بھی ہیں اور بولتے بھی ہیں۔ صبح اٹھ کر ٹی وی آن کرو تو ایک طرف میرٹ کی بالادستی اور دوسری طرف میرٹ کی پامالی کے دعوے اور الزامات کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ لگا رہتا ہے۔ اخبار دیکھو تو ٹاپ ٹو باٹم آپکو میرٹ کا دور اور میرٹ کا جنازہ ہی نظر آئے گا۔ دفتر، چائے خانے اور دیگر عوامی مقامات غرض کہ آپ جہاں چاہے چلے جائیں آپکو میرٹ کا راگ ہی سننے کو ملے گا ۔ اگر ہم اپنی روزانہ کی گفتگو کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہم دن بھر جس لفظ کا سب سے زیادہ ورد کررہے ہیں وہ لفظ میرٹ ہی ہوگا۔میں اکثر سوچتا ہوں ہم جس حساب سے میرٹ اینڈ ڈی میرٹ کا تکرارکررہے ہیں اگر ہم اللہ تعالیٰ سے اپنی مغفرت طلب کریں تو میرا ایمان ہے کہ اللہ سبحان تعالیٰ ہمیں ضرور بخش دیگا مگر ہم مجبور ہیں کہ ہم نے میرٹ کی تسبیح پڑھنی ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن میرٹ کو ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ حکومت کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ہر اقدامات کو چاہے وہ خلاف میرٹ ہی کیوں نہ ہو ایسے میرٹ کے عین مطابق ظاہر کریں جبکہ اپوزیشن اپنی ساری توانائی سرف کرتی ہے کہ حکومت کے ہر کام کو میرٹ کے خلاف ثابت کریں چاہے و ہ میرٹ پر ہی کیوں نہ ہو۔

حکمرانوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ہم نے میرٹ کو بحال کرکے اسکا بول بالا کردیا ہے جبکہ اپوزیشن کے الزامات ہوتے ہیں کہ حکمرانوں نے میرٹ کو پامال کرکے اسکا جنازہ نکال دیا ہے۔ اس سارے نوراکشتی کے کھیل میں وہ لوگ جن کا سیاسی اثروسوخ ہے چاہے وہ حکومتی ٹیم کا حصہ ہوں یا اپوزیشن کا وہ فائدہ میں رہتے ہیں۔غریب عوام جس کا کوئی سیاسی اثر نہ ہو وہ بیچارے میرٹ اور ڈی میرٹ کے زد میں آکر اپنے حق سے محروم رہتے ہیں۔ میرٹ کی پامالی، کرپشن اور اقربا پروری کے دعوے اور الزامات2009کے الیکشن کے بعد زیادہ شدت کے ساتھ فضاؤں میں گونجنے لگے ہیں۔اس سے پہلے گلگت بلتستان کے عوام ان القابات اور الزامات سے نا آشنا تھے۔ سابقہ حکومت کے پانچ سال اور موجودہ حکومت کے دو سال یعنی سات سالوں میں لفظ میرٹ اور ڈی میرٹ کا اس قدر کثرت سے استعمال ہوا ہے جسکی وجہ سے آج یہ لفظ زبان زد عام ہوچکا ہے۔بات صرف لفظ کی حد تک ہوتی تو کوئی مسلہ نہیں تھا بدقسمتی ہے میرٹ کی پامالی بھی اس قدر عام ہوچکی ہے۔ سابقہ دور حکومت میں اسوقت کی اپوزیشن اور موجودہ حکومت نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا کہ حکومت نے میرٹ کا جنازہ نکال دیا ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہےکہ سابقہ دور حکومت میں میرٹ کے ساتھ برا سلوک ہوا اسپیشلی ایجوکیشن کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ناقابل معافی جرم ثابت ہوا۔ عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے سابقہ حکمرانوں کو ایسی سزا دی کہ ان کو دن میں تارے نظر آنے لگے اور آج تک اپنے دامن سے وہ داغ مٹانے سے قاصر ہیں۔ موجودہ حکمرانوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد حسب روایت سابقہ حکومت کو حدف تنقید کا نشانہ بنایا میرٹ کی بالادستی کو قائم کرنے اور میرٹ کی بحالی کو یقینی بنانے کے دعوے بھی کئے مگر آج ان دعوؤں کو عملی جامہ پہنا نے کی کسی نے زحمت گوارہ نہیں کی۔ میرٹ کی پا ما لی اُ سی حسا ب سے جا ری ہے جیسے سا بقہ حکومتوں میں ہو رہا تھا۔ آج بھی اگر عام لو گوں سے با ت کرو تو معلوم ہو گا کہ میرٹ کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے۔ یہ صرف فرض حکمران اور اپوز یشن کی با ت نہیں یہاں توا نائی سے لیکر منتری جس کو جہا ں پر چانس ملتا ہے وہ ڈنڈی مارنے میں دیر نہیں کرتا ہے۔

بحیثیت ایک سما جی و سیاسی ورکر میرایہ مشا ہدہ ہے کہ ہم جس معا شرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں یہاں میرٹ کی بالا دستی کے دعوے کر نے والے صرف عوام کو بیوقوف بنا نے کی کو شش کرتے ہیں۔ اگر انکو اپنی دنیا وی ساخت یا خوف آ خرت کی وجہ سے کسی معاملے میں مداخلت نہ کر نا چا ہیں تو اسکے آ س پاس کے لوگ جن کے بدولت وہ ا قتدار میں آیا ہے انکے آگ ے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور ہو تا ہے کیوں انکی فرما ئش پوری نہ کرنے کی صورت میں استعفیٰ سے لیکر فارورڈ بلاک تک کی نوبت آتی ہے جس سے اسکی سیاسی پوزیشن کمزور ہوتی ہے اور وہ شخص جو میرٹ کو اپنی اوڑنا بچھونا بتاتا ہے وہ اپنے کارندوں کی ناجائز فرمائشوں کو پورا کرنے کیلئے کسی غریب کی حق تلفی کرنے پر اُوپر آجاتاہے جسکے بعد میرٹ کی بحالی اور بالادستی کے سارے دعوے تحلیل ہوجاتیں ہیں اور میرٹ کی پامالی حسب سابقہ جاری و ساری رہتا ہے جسکے سبب غریب عوام اپنے جائز حق سے محروم ہوتے ہیں۔

روز ہوتا ہے تماشا دل بیمار کے ساتھ
سنگ برسے ہیں سدا عشق کے اظہار کے ساتھ
دل تو پاگل ہے بھلا دل کا بھروسا کیا ہے
یہ بدل جاتا ہے ہر سانس کے رفتار کے ساتھ

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button