کالمز

حقیقت کی آنکھ سے دیکھو، کھوپے ہٹا دو

گھوڑے کی آنکھوں کے اطراف کھوپے اِس لیے لگائے جاتے ہیں تاکہ اس کی نگاہ صرف سامنے کی جانب مرکوز رہے۔ اور وہ اطراف میں ہونے والی غیر ضروری حرکات یا شور و غل سے متاثر نہ ہو۔ یہ ہی کھوپے 1947 سے ہماری قوم کی آنکھوں پر بھی چڑھائے جا رہے ہیں ۔تاہم فرق یہ ہے کہ گھوڑے کو منزل کی سمت میں لے جایا جاتا ہے، جبکہ ہمیں گمراہی کی دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے۔ ہم اب ان کھوپوں کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ان کے بغیر دیکھنا، سوچنا، اور جینا ناممکن سا لگتا ہے۔

پاکستان کے طوفان زدہ معاشی سفر میں ایک ہولناک حقیقت آج کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ ملک میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج اس قدر گہری ہو چکی ہے کہ اب وہ انصاف نہیں، بلکہ مذاق محسوس ہوتی ہے۔ یہ عدم مساوات محض قدرتی سانحہ نہیں، بلکہ عشروں پر محیط پالیسیوں کے سڑے ہوئے ڈھانچے کا نتیجہ ہے، جہاں جمہوریت کے نام پر عدل کو اشرافیہ کے ہاتھوں نیلام کر دیا گیا۔

آج ملک کا محض ایک فیصد امیر ترین طبقہ، نچلے ستر فیصد عوام کی مجموعی دولت سے زیادہ کا مالک ہے۔ دس فیصد بالا طبقہ 40 فیصد سے زائد آمدنی پر قابض ہے، جبکہ  چالیس فیصد عوام بمشکل 10 فیصد آمدنی میں گزر بسر کرتے ہیں۔ چمکتے ٹاورز، بلند و بالا محفوظ محلات کے دنیا کے نیچے محرومی، مایوسی اور ذلت کے سائے بسیرا کیے ہوئے ہیں۔ کروڑوں لوگ قلت اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو کسی مہذب ریاست کے ماتحت عوام کے لیے باعث شرم ہونی چاہیے۔

ہر پانچ میں سے تقریباً دو پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی جنگ خوشحالی کے لیے نہیں، صرف بقا کے لیے ہے۔ یہ اعدادوشمار نہیں، بلکہ ریاست کے اِس مقدس عہد کا جنازہ ہیں جو اس نے اپنے شہریوں سے وفاداری اور مساوات کے نام پر کیا تھا۔

اس اجتماعی بدحالی کی جڑ پاکستان کا غیرمنصفانہ ٹیکس نظام ہےایک ایسا ظالمانہ نظام جو غریب پر بالواسطہ ٹیکسوں کے کوڑے برساتا ہے، مگر امیروں کو زرعی دولت، سرمایہ جاتی منافع، اور جاگیروں پر چھوٹ دے کر ان کی دولت پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ بنیادی اشیائے ضروریہ پر ٹیکس عائد ہیں، جبکہ مراعات یافتہ طبقہ احتساب سے بالاتر ہے۔

اور شاید سب سے بھیانک منظر تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبوں کا زوال ہے۔ وہ اسکول، جو روشنی بانٹنے کے لیے بنائے گئے تھے، اب خالی عمارتیں بن چکے ہیں نہ اساتذہ، نہ وسائل، نہ امید۔ نجی تعلیمی ادارے اب ایسے قلعے بن چکے ہیں جہاں داخلہ صرف دولت کے پروانے پر ملتا ہے۔
اسی طرح اسپتالوں کا حال بھی دو پاکستان کی کہانی بیان کرتا ہے ایک طرف نجی کلینکس ہیں جہاں صرف صاحبِ حیثیت افراد کا علاج ہوتا ہے، اور دوسری طرف خستہ حال سرکاری وارڈز، جہاں غربت کا درد انتظار کی اذیت میں بدل جاتا ہے۔

یہ صرف ایک معاشی بحران نہیں، بلکہ اجتماعی شعور کی بند آنکھوں پر بندھے کھوپوں کا شاخسانہ ہے۔ اور سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک پر وہ لوگ حکمران ہیں جو نہ علم رکھتے ہیں، نہ اہلیت، نہ وژن۔ محض میٹرک پاس افراد اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں، جبکہ ان کے ماتحت سیکرٹریز 20ویں گریڈ کے وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ہیں جنہوں نے عمر بھر علم، تجربے اور محنت کے سفر طے کیے۔ اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہوگی کہ فیصلہ کرنے والے ناتجربہ کار ہیں اور جنہیں علم ہے، انہیں محض قلم چلانے تک محدود کر دیا گیا ہے؟
ایسا نظام کسی بھی قوم کو ترقی نہیں، بلکہ تباہی کی جانب لے جاتا ہے۔

آپ کی رائے

comments

نور الہدی یفتالی

نورالہدی یفتالی بالائی چترال کے علاقے مستوج سے تعلق رکھنے والے لکھاری ہیں

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button