کالمز

نیت شوق بھر نہ جائے کہیں

پاکستان کےشمالی علاقہ جات اپنی خوبصورتی کی وجہ سے زبان زد عام ہیں۔آج سے کچھ دہائی پہلے تک کوئی آسانی سے ان علاقوں کا رخ بھی نہیں کرتا تھا۔وجہ شاید وہاں راستوں کی کم یابی ہا شہری سہولتوں کا فقدان رہی ہوگی۔ لیکن وجہ چاہے جو بھی ہو گلگت بلتستان میں مقامی سیاحوں کا بڑھنے والا رش اس بات کا ثبوت ہے کہ اب وہ علاقے ہر خاص و عام کی پہنچ میں ہیں۔سننے میں یہ بات بہت اچھی لگ رہی ہوگی کہ اب ان علاقوں تک سب کی رسائی ہے۔ ہر کوئی اپنے خاندان یا دوستوں کے ساتھ ان علاقوں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے لیکن اگر میں اپنی بات کروں تو مجھے یہ بالکل پسند نہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اس بات پر اعتراض کرنے والی کون ہوتی ہوں تو جناب اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ میرا تعلق چونکہ اس علاقے سے ہی ہے اس لیے وہاں ہونے والی کسی بھی ناانصافی پر بولنے کا میں پورا حق رکھتی ہوں۔

   ویسے تو وہاں،  مقامی سیاحوں کی جانب سے کچرا پھیلانے اور مقامی آبادی کو تنگ کرنے کے متعدد واقعات آپ کی نظروں سے گزرے ہوں گے لیکن آج میں بالخصوص گلمت کے "اوندرا پوئیگا” کی ان تصاویر کا ذکر کرنا چاہوں گی جن پر وال چاکنگ کی گئی ہے۔ لیکن اس سے پہلے میں اس کے پس منظر کے بارے میں تھوڑا ذکر کرنا چاہوں گی۔

   قدیم زمانے میں ہنزہ میں کئی قلعے موجود تھے۔ جن میں شاہی افراد کی بساست بھی ہوگی۔ ان میں سے ایک، اوندرا نامی یہ قلعہ گلمت میں موجود تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قلعہ زمیں بوس ہوگیا اور اس کی کچھ باقیات ہی رہ گئیں۔ ہنزہ والوں کے لیے یہ بات ببانگ دہل کہی جا سکتی ہے کہ انھیں اپنی تاریخ اور ثقافت سے بہت محبت ہے اور وہ اس کی تزئین و آرائش میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی بات کے پیشِ نظر سنہ 2020 میں جہاں ساری دنیا کو کووڈ نامی وبا نے جمود کا شکار بنادیا تھا وہیں گلمت کے مقامیوں نے ایک اچھوتے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا سوچا۔ یہ منصوبہ گلمت سے اوندرا پہاڑ کی چوٹی پر قلعے تک پتھر کی سیڑھیوں کی تعمیر تھی۔ گلمت کے جفاکش مرد وزن نے اپنی مدد آپ کے تحت 1655 قدمچوں پر مشتمل پاکستان کی اس بلند ترین سیڑھیوں کی تعمیر کی۔

اوندرا تو جیسے بیان کیا جا چکا ہے اس قلعے کا نام تھا جبکہ پوئیگا مقامی زبان میں سیڑھیوں کو کہتے ہیں۔ محض دو ماہ کی قلیل مدت میں بنائی جانے والی ان سیڑھیوں کو عبور کرکے جب اس قلعے کی چوٹی پر پہنچاجاتاہے تو وہاں سے پورے ہنزہ کا جو نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے اس کا بیان ممکن ہی نہیں ہے۔ کس قدر محنت اور جانفشانی سے ان سیڑھیوں کو بنایا گیا ہوگا۔ موسم کی سختیاں جھیل کر مقامی افراد نے اس منصوبے پر دن و رات مشقت کی ہوگی۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اب اس نظارے سے پہلے آپ کو قلعے کی ایک دیوار پر وال چاکنگ دکھائی دے گی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی پکا پاکستانی یہاں آیا ہوگا جس نے اس حسین منظر کے منہ پر یہ بدنما داغ لگایا ہے۔
   

  ہنزہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی۔ خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کے حسین نظارے بیرون ممالک بھی انتہائی مشہور ہیں جب ہی غیر ملکی سیاح بھی یہاں بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ لیکن شرم کا مقام یہ ہے کہ اپنے پاکستانی ہی اس مقام کو تباہ کرنے پر تلے ہیں۔ سیاحت کے فروغ سے نہ صرف اس علاقے میں مالی ترقی ہوتی ہے بلکہ ملک کا ایک بہتر امیج بھی دیگر ممالک کو جاتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم پاکستانی اپنی ہی چیزوں کو خراب کرنے میں ماہر ہیں۔ اس تاریخی اور اچھوتی جگہ پر وال چاکنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی جاہل اپنی جہالت کا ثبوت چھوڑ کے گیا ہے۔
    

خدارا اگر آپ اس علاقے میں آتے ہیں تو یہ ہی سمجھ کے آئیں کہ یہ بھی آپ کے اپنے ملک کا حصہ ہے۔ یہاں بھی آپ کے ہم وطن پاکستانی ہی رہتے ہیں۔ آپ یہاں آتے ہیں تو اس علاقے کی خوبصورتی کو بڑھانے کی تگ و دو کریں یا کم از کم اس خوبصورتی کو جوں کا توں رہنے دیں۔ اس میں بگاڑ پیدا کرنے سے آپ کو کچھ حاصل نہ ہوگا۔ یہ علاقہ بھی لوگوں کے رہنے کی جگہ ہے۔ یہاں ان کی پرائیویسی ہے۔ ان کا گھر بار ہے۔ ان کی تصویریں کھینچنا یا وہاں گندگی پھیلا کر انھیں ہراساں کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں۔ اگر کوئی آپ کے گھر میں گھس کر ایسی حرکتیں کرے تو کیا آپ برداشت کرلیں گے؟؟؟

اگر آپ کا جواب نہ میں ہو تو کوشش کیجیئے گا کہ اگر آپ کبھی دوبارہ وہاں جائیں تو ایک مہذب شہری بن کے جائیں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب یہ علاقے ایک بار پھر آپ سب کی پہنچ سے بہت دور ہو جائیں گے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button