گلگت شہر:جنت نظیر یا مسائل کا بھنور

تحریر: صفدرعلی صفدر
بستیوں کا سکون تب چھن جاتا ہے جب حکمرانوں کی ترجیحات عوام کے دکھ درد سے ہٹ کر ذاتی مفادات میں الجھ جائیں۔اور جب اقتدار، خدمت کی بجائے مفاد کی جاگیر بن جائے تو شہروں کا چہرہ بھی اجڑ جاتا ہے اور دلوں کا چین بھی ۔یہی افسوسناک منظرنامہ آج گلگت شہر کے چہرے پر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
یہ وہی گلگت ہے جسے کبھی جنت نظیر کہا جاتا تھا۔ یہاں کی شامیں پرسکون، لوگ خوش مزاج اور فضائیں مہربان ہوا کرتی تھیں۔ مگر اب اس شہر کی گلیاں فریاد کناں ہیں۔ یہاں لوگ پانی کو ترس رہے ہیں، بجلی کی غیر اعلانیہ بندش معمول بن چکی ہے، انٹرنیٹ سروس اتنی غیر یقینی ہو چکی ہے کہ طالب علم، مریض، ملازمین،وکلا،صحافی، سب بے بس ہو چکے ہیں۔ سڑکیں کھنڈرات میں بدل چکی ہیں، ہسپتالوں میں مریض نہیں بلکہ مایوسی بھٹکتی ہے اور سرکاری دفاتر احتجاجی نعروں سے گونج رہے ہیں۔
اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اب گلگت کا شہری محفوظ نہیں رہا۔ کہیں راہ چلتی خواتین کے پرس چھین لیے جاتے ہیں، کہیں جعلی چیک اور نوٹوں سے دکانداروں کو لوٹا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ٹرانسفارمر، زیورات اور مویشی بھی محفوظ نہیں۔ چوری، ڈکیتی، فراڈ، سود، منشیات ، کوئی ایسا جرم نہیں جو اس شہر کی سرزمین پر پروان نہ چڑھ رہا ہو۔ عوامی جان و مال، عزت اور کاروبار سب غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ لیکن افسوس، ریاستی ادارے محض نگرانی کے دعوے کرتے رہ گئے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان سب کے باوجود ہم خاموش ہیں۔ نہ صرف خاموش، بلکہ بے حس۔ یہاں صرف حکمران قصوروار نہیں، ہم عوام بھی اس زوال کے برابر کے شریک ہیں۔ ہم جو دن رات سوشل میڈیا پر امریکہ کو للکارتے ہیں، ایران کے نوحے پڑھتے ہیں، فلسطین اور کشمیر کے حق میں نعرے لگاتے ہیں، مگر اپنی گلی کے گندے نالے، محلے کی خراب سڑک اور اپنے گھر کی بجلی و پانی کی محرومی پر کبھی زبان نہیں کھولتے۔ ہم نے اجتماعی مسائل کو تقدیر کا حصہ مان لیا ہے اور احتجاج کو فیس بک پوسٹ یا واٹس ایپ اسٹیٹس تک محدود کر دیا ہے۔ ہماری بے حسی، ہمارا خاموش تماشائی بنے رہنا، اور اپنی بستی کی بربادی پر چپ سادھ لینا بھی ایک بڑا المیہ ہے۔
کیا یہ سچ نہیں کہ ہم نے اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داریاں ترک کر دی ہیں؟ ہم نے شہر کے بگاڑ کو معمول سمجھ لیا ہے۔ ہم نے بے نظمی کو تقدیر مان لیا ہے اور بدترین نظام کو نصیب کا کھیل بنا دیا ہے۔ ہمیں شاید اس وقت ہوش آئے گا جب خدانخواستہ یہ شہر مکمل طور پر اُجڑ چکا ہوگا، جب سکون کی جگہ شور اور تحفظ کی جگہ دہشت لے چکا ہوگا۔
حکمران طبقہ اپنی جگہ، مگر ہم عوام بھی اب بری الذمہ نہیں رہے۔ ہم نے اپنا کردار ادا کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے قلم، آواز، احتجاج، احتساب اور سوال ، سب کچھ ترک کر دیا ہے۔ ہم نے کبھی یہ سوال اٹھانے کی زحمت نہیں کی کہ ہمارے ان برف پوش پہاڑوں سے نکلنے والے پانی سے پورا ملک سیراب ہوتا ہے، تو ہم ایک گلاس صاف پانی پینے کو کیوں ترس رہے ہیں؟ ہمارے گھروں میں ایک بلب روشن کیوں نہیں ہوسکتا؟ ہمارے پہاڑوں کی چوٹیوں پر لگے ان ٹاورز سے انٹرنیٹ کے سگنلز کیوں غائب ہوتے ہیں؟ ہسپتالوں میں مریض کیوں سسک سسک کر مر رہے ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر، ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے حکمرانوں کی عیاشیاں کیوں کر ہو رہی ہیں؟
ہم نے سیکھا ہی نہیں کہ آواز نہ اٹھانے والے خود بھی ظالم کے صف میں آ جاتے ہیں۔ لیکن یہاں عوامی مسائل پر آواز اٹھانا بھی جرم اور گستاخی کے زمرے میں آجاتا ہے۔ احسان ایڈووکیٹ، شیر نادر شاہی، تعارف عباس اور اسلم انقلابی وغیرہ کے تو یہی مطالبات تھے جن کی سزا وہ قید و بند کی صعوبتوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ ہم کنویں کے مینڈک بن کر رہ گئے ہیں کہ عوامی مسائل پر آواز اٹھائیں تو گرفتار کیے جاتے ہیں، نہ اٹھائیں تو مسائل بڑھتے جا رہے ہیں، رکنے کا نام نہیں لیتے۔ ہمیں چوروں کا بھی ڈر ہے اور محافظوں سے بھی خوف۔
کاش ہم صرف اتنا سمجھ لیں کہ اگر ہم نے آج اپنے شہر کے لیے آواز نہ اٹھائی، اگر ہم نے صرف دوسروں کو کوسنے میں زندگی گزار دی، تو کل یہ شہر ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ یہ کھنڈر بنتی سڑکیں، یہ بجھتے بلب، یہ روٹھتی ندی نالیاں اور ادویات سے خالی پڑے ہسپتال ہمارے مجرمانہ سکوت کی گواہی دیں گے۔ اور جب تاریخ گواہی دے گی، تو وہ نہ صرف حکمرانوں کو بلکہ ہم عوام کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرے گی۔ کیونکہ بستیوں کا سکون صرف حکمران نہیں، عوام کی بے حسی سے بھی چھن جاتا ہے۔