کالمز

بلدیاتی نظام کی بحالی۔۔وقت کی اہم ضرورت

ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی قوانین بنانے کی باز گشت شروع ہو گئی ہے ، 2009 ء کے انتخابات کے بعد سے بلدیاتی نظام کوتا حال غیر فعال رکھا گیا اور گذشتہ چار سالوں میں بلدیہ کے فنڈز کو ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور تحصیل ایڈمنسٹریشن اپنے صوابدیدی اختیار کے تحت نام نہاد سرگرمیوں(شاہ خرچیوں ) میں خرچ کرتے رہے ۔دوسری طرف بلدیہ اور ڈسٹرکٹ کونسل کے وہ ممبران جو 2009 ء سے قبل چنے گئے تھے وہ تا حال غیر فعال اپنا کام کر تے چلے آ رہے ہیں ۔

گلگت بلتستان بلدیات اور ضلعی نظم کو لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1979 ء کے ماتحت چلایا جاتا رہا ،وزیر لوکل گورنمنٹ نے بارہا گلگت بلتستان میں لوکل گورنمنٹ کے نئے قوانین بنانے کی بات کی لیکن تا حال ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا گیا جس کی مدد سے یہاں یہ باڈیز فعال ہو سکیں ، حال ہی میں گلگت بلتستان اسمبلی نے ایک پرائیوٹ فرم کی مدد سے گلگت بلتستان کے مختلف سٹیک ہولڈر زکے صاحب رائے افراد کا اجلاس طلب کیا ہے تاکہ وہ گلگت بلتستان کیلئے الگ بلدیاتی قوانین کا مسودہ تیار کر سکیں ۔اس سے بیشترکہ یہ مشاورتی اجلاس اور سوچ بچار کے نتیجے میں بننے والے قوانین گلگت بلتستان کیلئے کتنے مفید ثابت ہونگے ،اس حوالے سے ہمیں ماضی کے کچھ اوراک سے پردہ اٹھانا پڑیگا ۔

ranaگلگت بلتستان میں 1999ء سے قبل بلدیہ کونسل اور ڈسٹرکٹ کونسل کی چونگیوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے یہ دونوں ادارے چلائے جا رہے تھے ، بعد ازاں میاں محمد نواز شریف کے اس وقت کے دور حکومت میں ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی چونگی نظام کو ختم کر دیا ، چونکہ گلگت بلتستان کے بلدیاتی اداروں کا اپنا کوئی فنڈ نہیں تھا اس لئے حکومت پاکستان نے گرانٹ ان ایڈ کے نام سے ایک فنڈ مختص کر دیا ، یہ گرانٹ سالانہ 15 سے 20 فیصد بڑھائی جاتی رہی، ایک فارمولے کے تحت 6 اضلاع میں گرانٹ کو تقسیم کیا گیا اور فارمولے کے مطابق 2001 ء تک 50 فیصد چونگی اور 50 فیصد آبادی کے تناسب سے فنڈز تقسیم کئے جاتے رہے ، 2001 ء کے بعد اس وقت کے بعض سیکریٹریز کی مداخلت اور علاقائی تعصب کی بنیاد پر اس فارمولے میں تبدیلی کی گئی اور 50 فیصد برابری اور 50 فیصد آبادی کے تناسب کے تحت تقسیم کار بنایا گیا جس کی وجہ سے فنڈز کی منصفانہ تقسیم مشکوک ہو گئی ۔ اس کا سب سے بڑا نقصان ضلع گلگت کو اٹھانا پڑا ، غذر گانچھے کی چونگیا ں جو اس دور میں انتہائی کم آمدنی دیتے تھے انکی اور ضلع گلگت کے فنڈز ایک جیسے ہوگئے ۔جبکہ گلگت شہر میں بڑھتی ہوئی آبادی اور یہاں کاروباری مراکز کی بھر مار کی وجہ سے میونسپل کمیٹی کو مشکلات درپیش ہیں ۔

ضرورت اس امر کی ہیکہ گلگت بلتستان کے جنرل الیکشن کے ساتھ ساتھ بلدیاتی اور ضلعی انتخابات کو یقینی بنایا جائے اس سلسلے میں نئے قوانین وضع کئے جائیں تاکہ ڈائریکٹ عوام کو فائدہ دینے والے یہ ادارے فعال ہو سکیں ، بلدیہ کونسل ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس سے براہ راست عوام مستفید ہوتے ہیں اور یونین کونسل سطح پر عوامی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ ان باڈیز کی غیر فعالیت کی وجہ سے جہاں عوام کو خاطر خواہ نقصان پہنچا ہے وہیں نکاسی آب ، سیوریج سسٹم ،پانی اور لنک روڈز کی خستہ حالی جیسے مسائل بھی حد سے بڑھ گئے ہیں ۔ نئے ڈرافٹ میں Maintenance کا فنڈ پی ڈبلیو ڈی سے اٹھا کر بلدیہ کو دیا جائے جبکہ گلگت ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو بلدیہ سے منسلک کیا جائے تاکہ شہروں کا نظام بہتر بنایا جا سکے۔ ٹاون پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے شہر جنگل کا منظر پیش کر رہے ہیں جبکہ مجینی محلہ اور کشروٹ میں سیوریج سسٹم نہ ہونے کی وجہ پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے اگر وقت پر اس کا سد باب نہیں کیا گیا تو یہ علاقے ڈوب سکتے ہیں ۔ بلدیہ کے ملازمین کی بھی تنخواہیں اور مراعات دیں جائیں تاکہ وہ دیگر اداروں کے ملازمین کی طرح دل جمعی کے ساتھ خدمات سر انجام دے سکیں ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button