خصوصی خبر

پروفیسرز ہاسٹل چلاس سے پروفیسرز کی بے دخلی، تعلیمی ایمرجنسی کے دعوؤں کی نفی

 تجزیاتی رپورٹ 

ضلع دیامر میں تعلیمی ایمرجنسی کے حکومتی دعوے ایک بار پھر مشکوک ہوگئے جب گزشتہ روز گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج چلاس کے پروفیسرز کو سرکاری کالونی میں واقع پروفیسرز میس سے مبینہ طور پر زبردستی بے دخل کر دیا گیا۔ سامان باہر پھینک دیا گیا، پولیس، مجسٹریٹ و ضلعی انتظامیہ کی بھاری نفری نے سامان نکال کر صحن میں رکھا اور مکان کو تالہ بندی کی اور پروفیسر ہاسٹل میں موجود پروفیسرز کو کھانا کھانے کی مہلت بھی نہیں دی۔
یہ اقدام نہ صرف متعلقہ اساتذہ کے لیے تشویش کا باعث بنا بلکہ گلگت بلتستان بھر کے چار سو سے زائد پروفیسرز اور لیکچررز نے اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے تعلیمی ترقی کے لیے ایک سنگین رکاوٹ قرار دیا ہے۔

جس ہاسٹل سے پروفیسروں کو بے دخل کیا گیا اس میں 1980 سے 2000 تک یعنی بیس سال ڈگری کالج چلاس کے پرنسپل قیام پذیر رہے، جو کہ بطور پرنسپل ہاوس الائٹمنٹ تھی، 2001 میں ڈپٹی کمشنر دیا جناب سعید صاحب نے اس کو پروفیسر ہاسٹل قرار دے کر نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں تاحال گلگت بلتستان اور ملک کے دیگر صوبوں سے آنے والے پروفیسرز مقیم رہے۔

ذرائع کے مطابق گورنمنٹ ڈگری کالج چلاس میں ماضی میں ہمیشہ 15 سے 20 فیکلٹی ممبران خدمات انجام دیتے رہے ہیں، جن میں اکثریت دوسرے اضلاع سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کی ہوتی ہے۔
سن 1980ء کی دہائی سے 2018ء تک سرکاری کالونی میں چھ مکانات صرف کالج فیکلٹی کے لیے مختص تھے۔ ان میں سے چار گھر فیملی کے ہمراہ آنے والے پروفیسرز کے لیے جبکہ دو گھر بیچلرز (بغیر فیملی والے پروفیسرز اور لیکچررز) کے لیے مخصوص تھے۔

تاہم 2020ء کے بعد یہ صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی اور پانچ مکانات بشمول مدنی مسجد کے قریب واقع ایک لیکچررز میس، اقربا پروری اور طاقتور محکموں کے اثر و رسوخ کے باعث دیگر محکموں جیسے عدلیہ، اے جی پی آر، پی ڈبلیو ڈی اور پولیس کو الاٹ کر دیے گئے۔
اب صرف ایک پروفیسرز میس باقی تھا، جو 10 ستمبر 2025ء کو زبردستی خالی کروا لیا گیا۔

انتظامیہ کا موقف اور حقیقت

انتظامیہ کی جانب سے یہ مؤقف پیش کیا گیا کہ کالج کے احاطے میں پہلے ہی سرکاری مکانات موجود ہیں، اس لیے میس کی ضرورت نہیں۔

نوٹیفیکیشن جس میں عمارت کو پروفیسرز ہاسٹل قرار دیا گیا تھا

تاہم فیکلٹی ذرائع کے مطابق کالج کے اندر صرف ایک پرنسپل ہاؤس، دو فیکلٹی ہاؤسز اور چار لور اسٹاف ہاؤسز موجود ہیں، جو موجودہ فیکلٹی کی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں۔ اور بے دخل کیے گئے پروفیسرز کے لیے کوئی مکان خالی نہیں، کالج کے باہر سے لوگوں کو الاٹ کرکے انہیں قبضہ دیا گیا ہے۔

اساتذہ کا مؤقف

متاثرہ پروفیسرز کا کہنا ہے کہ"جب دوسرے اضلاع سے آنے والے اساتذہ کو بنیادی رہائش میسر نہ ہو اور انہیں اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے تو وہ یکسوئی کے ساتھ طلبہ کو تعلیم فراہم نہیں کر سکتے۔ یہ اقدام دراصل ضلع دیامر کے تعلیمی مستقبل کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، اس پروفیسر ہاسٹل میں گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع اور مکاتب فکر کے لوگ رہ رہے ہیں جن کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔”

دیامر وہ ضلع ہے جہاں 2018ء سے تعلیمی ایمرجنسی نافذ ہے، مگر اعداد و شمار اس کے برعکس ہیں:

نوجوانوں میں 60 فیصد سے زائد ناخواندگی موجود ہے۔

مجموعی شرح خواندگی 29 فیصد سے بھی کم ہے۔

خواتین میں شرح خواندگی 11 فیصد سے بھی کم ہے، جو ملک بھر میں سب سے کم ہے۔

تعلیمی ماہرین کے مطابق ایسے خطے میں باہر سے آنے والے تجربہ کار اساتذہ کو سہولیات فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ دلجمعی سے خدمات انجام دے سکیں۔

چلاس ٹرانسفر ہونے والے دیگر محکموں جیسے انتظامیہ، عدلیہ، پولیس، پی ڈبلیو ڈی، اے جی پی آر کے افسران کو عالی شان رہائش، پروٹوکول اور سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، جس کے باعث وہ مطمئن رہتے ہیں۔
اس کے برعکس فیکلٹی ممبران کو مناسب رہائش نہ ملنے کی وجہ سے چلاس ٹرانسفر ان کے لیے مشکلات کا باعث بن جاتا ہے۔

گورنمنٹ ڈگری کالج چلاس گزشتہ دو برسوں سے فیڈرل بورڈ کے تحت شاندار نتائج دے رہا ہے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بیچلر پروفیسرز کے لیے پروفیسرز میس جیسی سہولت فراہم نہ کی گئی تو کوئی بھی استاد اس ادارے میں خدمات دینے کو تیار نہیں ہوگا، جس کے نتیجے میں ادارہ اپنی تعلیمی کارکردگی کھو بیٹھے گا۔

اساتذہ اور عوامی نمائندوں نے ارباب اختیار سے درج ذیل اقدامات کا مطالبہ کیا ہے:

1. پروفیسرز میس کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔

2. جس محکمے کے ملازم کو یہ گھر الاٹ کیا گیا ہے، اسے متبادل رہائش فراہم کی جائے۔

3. ڈگری کالج چلاس کے فیکلٹی ممبران کے لیے مستقل رہائشی منصوبہ تیار کیا جائے تاکہ آئندہ اس قسم کے مسائل پیدا نہ ہوں۔

پروفیسرز میس سے زبردستی بے دخلی کا یہ واقعہ نہ صرف اساتذہ کی تضحیک ہے بلکہ ضلع دیامر کے تعلیمی مستقبل پر بھی سنگین سوالات اٹھا رہا ہے۔
اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ مسئلہ صرف پانچ یا چھ پروفیسرز تک محدود نہیں رہے گا بلکہ گلگت بلتستان کے تمام کالجز میں تعلیمی معیار اور فیکلٹی کی دستیابی پر براہِ راست اثر ڈالے گا، جس سے تعلیمی ایمرجنسی کا نعرہ محض ایک سیاسی نعرہ بن کر رہ جائے گا۔
اس وقت پورے گلگت بلتستان کے کالجز کے اساتذہ اور طلبہ میں غم و غصہ پایا جاتا ہے اور طویل احتجاج کی طرف جانے کا رخ کیا جارہا ہے، مختلف اضلاع کے پروفیسرز کا کہنا ہے کہ کالجز اور پروفیسرز کے ساتھ صرف چلاس میں نہیں بلکہ استور، غذر اور بلتستان میں بھی ناروا سلوک کیا جارہا ہے اور مختلف اضلاع میں موجود ہاسٹل چھینے جارہے ہیں جو تعلیم دشمنی ہے، سماجی سطح پر ان اقدامات کی نفی کی جارہی ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button