کالمز

روشنی کا نیا دور: آغا خان پنجم کی بطور اسماعیلی امام پہلی سالگرہ

اکتوبر کی نرم روشنیوں میں، اسماعیلی مسلم برادری ایک ایسا لمحہ مناتی ہے جو عقیدت کی لطافت اور تاریخ کے وقار دونوں کو سمیٹے ہوئے ہے، امام شاہ کریم الحسینی، آغا خان چہارم کے جانشین، حاضر امام شاہ رحیم آغا خان کی منصب امامت سنبھالنے کے بعد پہلی سالگرہ۔ آج سے ۵۴ سال قبل، ۱۲ اکتوبر ۱۹۷۱ کو شاہ رحیم الحسینی جینیوا میں پیدا ہوے تھے۔ 
یہ محض ایک سالگرہ نہیں، بلکہ ایک روحانی عہد کی تجدید ہے جو ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے سے برقرار ہے، ایک خاموش مگر روشن سلسلہ جو ایمان، عقل، اور انسانیت کو نسل در نسل جوڑتا چلا آ رہا ہے۔

اسلام میں قیادت کا معیار اقتدار نہیں، مقصد ہوتا ہے۔ امامت، شیعہ مسلمانوں کے نزدیک، حضرت محمد ﷺ کی ہدایت کا تسلسل ہے، ایک زندہ و تابندہ رہنمائی جو انسان کو توازن، انصاف، اور فہم و فراست کی راہ دکھاتی ہے۔ اسماعیلیوں کے نزدیک امام صرف ایک مذہبی پیشوا نہیں، بلکہ ایک معلم، ایک اخلاقی رہنما، اور ایک ایسا رہبر ہے جو ایمان کو زندگی کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی راہ دکھاتا ہے۔

امامت کا تصور اس عقیدے پر قائم ہے کہ رہنمائی ہر دور میں ایسے روشن ضمیر رہنما کے ذریعے جاری رہتی ہے جو ابدی اصولوں کو وقت کے تقاضوں کے مطابق سمجھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسماعیلی روایت نے ہمیشہ علم، مکالمے، اور خدمتِ خلق کو اپنے ایمان کا مرکز بنایا ہے۔ امام کی طاقت حکم دینے میں نہیں، مثال قائم کرنے میں ہے۔ اس کی ذمہ داری ایمان کو عقل سے جوڑنا، روحانیت کو عمل سے باندھنا، اور اپنے پیروکاروں کو اس دنیا میں بہتر انسان بننے کی ترغیب دینا ہے۔

اسی روحِ خدمت نے جنم دیا آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک (اے کے ڈی این) کو،  ایک ایسا عالمی ادارہ جو تعلیم، صحت، ثقافت، اور انسانی ترقی کے منصوبوں کے ذریعے اسماعیلی امامت کی اخلاقی اقدار کو عملی جامہ پہناتا ہے۔ وسطی ایشیا کے پہاڑی دیہاتوں میں بچیاں انہی کے قائم کردہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں، مشرقی افریقہ کے اسپتالوں میں ہر مذہب و نسل کے مریضوں کا علاج ہو رہا ہے، تاریخی شہروں کی گلیوں میں فنکار اپنی کھوئی ہوئی پہچان دوبارہ پا رہے ہیں، اور یونیورسٹیوں میں طلبہ سیکھ رہے ہیں کہ علم کا اصل مقصد خدمت ہے۔ یہ ایک خاموش انقلاب ہے، انسانیت کے  احترام اور ایمان کو عمل میں ڈھالنےکا۔ 

امامت کا پیغام یہی ہے کہ اسلام آفاقی مذہب ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: "وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً” 
“اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔”
اس اعلان کے ذریعے قرآن انسان کو زمین پر ایک عظیم ذمہ داری, اللہ کے نمائندے, کے طور پر پیش کرتا ہے۔
اسی تصور کو آگے بڑھاتے ہوئے ابنِ عربی اور علامہ اقبال جیسے مفکرین نے انسان کو "خلیفۃُ اللہ فی الارض” قرار دیا، یعنی زمین پر خدا کا نائب, وہ ہستی جو شعور، عدل اور تخلیق کے ذریعے الوہی صفات کا مظہر بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

امامت کی تمام کوششیں اسی قرآنی پیغام کی عملی تفسیر ہیں۔ زندگی کے معیار کو بہتر بنانا، انسانیت کی خدمت کرنا، اور مختلف عقائد و ثقافتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا۔ آج کی دنیا میں جب اختلاف اور فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں، امامت کا پیغام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایمان کی اصل روح باہمی احترام، مکالمہ، اور خدمت میں پوشیدہ ہے۔

اسی تصور کو عملی علامت ملی لزبن (پرتگال) میں، جہاں قائم ہے اسماعیلی امامت کا موجودہ مرکز۔ یہ محض ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک علامت ہے، مشرق و مغرب کے درمیان مکالمے کی، ایمان اور عقل کے امتزاج کی، روایت اور جدیدیت کے سنگم کی۔ دریائے تیجو کے کنارے پر قائم یہ عمارت اس بات کی گواہ ہے کہ ایمان جدید زندگی سے متصادم نہیں بلکہ اس کا ضمیر بن سکتا ہے۔

چودہ صدیوں پر محیط اسماعیلی امامت کی تاریخ جلاوطنیوں، ہجرتوں اور زمانے کے تغیرات سے گزرتی رہی، مگر کبھی منقطع نہیں ہوئی۔ ہر امام نے اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق ایمان کی نئی تعبیر پیش کی، علم کے فروغ سے لے کر سماجی انصاف تک، شہری ترقی سے لے کر ثقافتی تحفظ تک۔ یہی صلاحیت کہ زمانے کے ساتھ چلتے ہوئے بھی اپنی روحانی اصل کو قائم رکھا جائے، اس روایت کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔

اب جب کہ شاہ رحیم آغا خان پچاسویں امام کے طور پر قیادت سنبھال چکے ہیں، تو یہ صرف جانشینی نہیں بلکہ ایک نئے دور کی بشارت ہے۔ ان کی پہلی سالگرہ بطور امام صرف ایک ذاتی لمحہ نہیں بلکہ ایک روحانی تسلسل کا جشن ہے، علم، شفقت، عاجزی اور خدمت کی ازلی قدروں کی تجدید کا۔ یہ اس سلسلے کا تسلسل ہے جو نبیِ کریم ﷺ کے اہلِ بیت سے شروع ہوا اور آج بھی انسانیت کے مستقبل سے جڑا ہے۔

امامت کا پیغام ان لوگوں کے لیے بھی معنی رکھتا ہے جو اسماعیلی نہیں۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ایمان اور جدیدیت ایک دوسرے کے مخالف نہیں، کہ قیادت عاجزی سے بھی کی جا سکتی ہے، اور یہ کہ روحانیت کا مقصد صرف عبادت نہیں بلکہ انسانیت کی بہتری ہے۔ یہ پیغام ہر مذہب کے دل میں پوشیدہ ہے۔

جب اسماعیلی دنیا بھر میں اپنے امام کی سالگرہ مناتے ہیں، تو وہ صرف ایک رہنما کو نہیں بلکہ ایک تصور کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں — ایک ایسا ایمان جو عقل کے ساتھ ہے، ایک ایسی قیادت جو خدمت کے لیے ہے، اور ایک ایسی روحانیت جو دیوار نہیں بلکہ پُل بناتی ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں سیاست اور نظریات نے انسان کو بانٹ دیا ہے، امامت کی یہ روایت یاد دلاتی ہے کہ تسلسل، عاجزی، اور خدمت ہی انسانی عظمت کی اصل پہچان ہیں۔

ہم دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں حاضر امام شاہ رحیم آغا خان کو، جو اسماعیلی مسلمانوں کے پچاسویں امام ہیں، اور دنیا بھر کے اسماعیلیوں کو اس مبارک موقع پر۔ یہ نیا دور روشنی، علم، اور محبت کا پیامبر ہو، نہ صرف ایک برادری کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے۔

آخرکار، امامت کی کہانی صرف جانشینی کی کہانی نہیں، بلکہ ایمان کی خدمت اور خدمت کا ایمان ہے۔ چودہ صدیوں کے بعد بھی یہ روایت ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ سچی قیادت اوپر سے احکامات جاری نہیں نہیں کرتی، بلکہ دلوں کے اندر سے روشنی پھیلاتی ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button