کالمز

مولانا فضل الرحمن : اصول، فہم اور تدبر کی سیاست

"یہ بات سمجھنے کی ہے کہ سیاست وہ فن ہے جس میں وقتی جوش نہیں، دیرپا ہوش درکار ہوتا ہے۔
اور پھر کیا یہ سچ نہیں کہ مولانا فضل الرحمن کی سیاست اسی شعور، صبر، اور اصول پسندی کی آئینہ دار ہے۔
انہوں نے نہ طاقت کے بل پر جھکنا سیکھا، نہ مخالفت کے خوف سے رکنا۔ ان کا ہر قدم آئین، قانون اور قومی مفاد کے محور پر گھومتا ہے۔”

آپ یقین کیجیے، میں بطور پاکستانی پولیٹیکس کے طالب علم، مولانا فضل الرحمن صاحب کی سیاست اور شخصیت کا تنقیدی جائزہ لیتا رہتا ہوں۔ تنقیدی جائزہ کا مطلب یہی ہے کہ مولانا کی ملی و ملکی سیاسی حرکیات سے اپنے علم و فہم کی بنیاد پر اختلاف و اتفاق کروں۔ تنقیدی جائزہ کا مطلب بدتمیزی قطعاً نہیں۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ لوگ تنقید کو برا سمجھتے ہیں، اور تضحیک و تشنیع کو تنقید کا نام دیتے ہیں۔جبکہ اصل تنقید علم، عدل، اور شائستگی کا تقاضا کرتی ہے، اور تضحیک صرف کم فہم لوگوں کا ہتھیار ہوتی ہے۔ تنقید کسی کی توہین نہیں، بلکہ درستگی کا دروازہ ہے، مگر افسوس کہ ہم نے اس دروازے پر تمسخر کے تالے لگا دیے ہیں۔

میں ہمیشہ یہ سمجھتا رہا ہوں کہ کسی بھی سیاست دان کو سمجھنے کے لیے اس کی تقریروں، فیصلوں، اتحادوں، اختلافات، اور حالات کے تناظر میں اختیار کردہ رویوں کو دیکھنا ضروری ہے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب کی سیاست کا مطالعہ بھی اگر اسی نظر سے کیا جائے تو وہ محض ایک مذہبی لیڈر نہیں، بلکہ ایک ایسے سیاسی مفکر اور حکمت کار کے طور پر سامنے آتے ہیں جنہوں نے نصف صدی پر محیط سیاسی جدوجہد میں پاکستان کے ہر بڑے اور مشکل موڑ پر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔

مولانا صاحب کی اسمبلی میں کی گئی تقاریر سننے والا اگر انصاف کرے تو مانے گا کہ ان کے جملوں میں ایک علمی وقار، آئینی شعور، اور قومی مصلحت کا توازن نظر آتا ہے۔ وہ بات کرتے ہیں تو دلیل کے ساتھ، اور تنقید کرتے ہیں تو دائرۂ ادب میں رہ کر۔ آرمی کے کردار پر جب وہ تنقید کرتے ہیں تو وہ ادارے کی تذلیل نہیں بلکہ آئینی حدود کی بات کرتے ہیں۔ جب وہ تائید کرتے ہیں تو وہ ملکی سالمیت کے تناظر میں کرتے ہیں۔ یہی سیاسی بلوغت ہے جو انہیں ایک متوازن اور تجربہ کار رہنما بناتی ہے۔

ان کے سیاسی و قوم پرست جماعتوں سے مذاکرات اور اختلافات بھی اصولی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ مولانا نے کبھی اپنی جماعت کو کسی انتہاپسندانہ یا غیر آئینی راستے پر نہیں ڈالا۔ وہ مفاہمت کے قائل ہیں لیکن مفاہمت کو اصولوں کی قیمت پر نہیں بیچتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مخالفین بھی اکثر ان کی سیاسی حکمت اور صبر و تدبر کے قائل نظر آتے ہیں۔

مذہبی جماعتوں سے اتحاد و مشاورت میں بھی وہ ایک بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مذہبی قوتوں کی تقسیم دراصل نظریاتی کمزوری بن جاتی ہے، اس لیے وہ ہمیشہ اتحادِ امت، اتفاقِ ملت، اور اجتماعیت کی بات کرتے ہیں۔

عسکری گروپس کے بارے میں ان کے خیالات ہمیشہ دو ٹوک اور واضح رہے ہیں۔ وہ کسی بھی غیر ریاستی تشدد یا مسلح جدوجہد کے قائل نہیں۔ ان کی گفتگو میں ہمیشہ آئین، دستور، اور جمہوریت کے احترام کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

بین الاقوامی سطح پر بھی مولانا فضل الرحمن نے ہمیشہ مسلم ممالک کے باہمی اتحاد، امتِ مسلمہ کے مفادات، اور فلسطین و کشمیر اور افغانستان کے مسائل پر جاندار موقف اختیار کیا۔ وہ مغرب سے تعلقات کے بھی قائل ہیں مگر غلامی کے نہیں۔ ان کا مؤقف ہمیشہ یہی رہا کہ تعلقات برابری اور احترام کے اصول پر استوار ہوں۔ اور خوشگوار حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ مولانا گلگت بلتستان کی پوزیشن اور اس کا قضیہ کشمیر کے ساتھ تعلق اور اس کی آئینی و عالمی صورت حال کا بھی خوب ادراک رکھتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کی ایک بڑی پہچان مدارس، جامعات اور دینی شعائر کے حوالے سے ان کا واضح، مدلل، اور جاندار موقف ہے۔ انہوں نے نہ صرف مدارس کے دفاع میں آواز اٹھائی بلکہ تعلیمی نظام میں اصلاحات کی بات بھی کی۔ وہ مذہب کو جمود نہیں بلکہ ترقی کا راستہ سمجھتے ہیں، بشرطیکہ اس کی بنیاد علم اور اعتدال پر ہو۔

اگر مولانا کے گفتگو کے سلیقے اور طرزِ بیان کا تجزیہ کیا جائے تو ان کی شخصیت میں ایک غیر معمولی سنجیدگی، علمی گہرائی، اور سیاسی فہم جھلکتا ہے۔ وہ اپنے مخالفین کے لیے بھی احترام کا لہجہ رکھتے ہیں۔ یہی اوصاف انہیں ایک "سیاست دان” سے زیادہ ایک "قائد” کے درجے پر فائز کرتے ہیں۔
کبھی کبھار ان کی گفتگو میں طنز و مزاح کا ایسا نادر امتزاج جھلکتا ہے کہ سننے والا محظوظ بھی ہوتا ہے اور حیران بھی۔ وہ نہایت پیچیدہ سوال کا جواب بھی ایک چٹکلے میں یوں دے دیتے ہیں کہ بات کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے، یا پھر ایک تلخ و شیریں قہقہے سے سوال کے بخیے اس انداز میں ادھیڑتے ہیں کہ محفل سنجیدگی کے باوجود مسکراہٹوں میں ڈوب جاتی ہے۔

کیا یہ بدیہی حقیقت نہیں کہ مولانا فضل الرحمن صاحب نے ہمیشہ جمہوریت، آئین اور ریاست کے تسلسل کی بات کی ہے؟۔ ان کے سیاسی فیصلے وقتی نہیں بلکہ تاریخی ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ طاقت کے کھیل میں وقتی کامیابیاں ممکن ہیں مگر اصولی استقامت ہی کسی لیڈر کو دوام دیتی ہے۔

آج کے سیاسی منظرنامے میں جہاں الزام، انتقام اور انتشار نے گفتگو کا حسن اور اختلاف کا ادب مٹا دیا ہے، وہاں مولانا فضل الرحمن جیسے رہنما ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ سیاست صرف اقتدار کی دوڑ نہیں، یہ اصول، استقامت اور خدمت کا نام ہے۔ وہ اختلاف کو دشمنی نہیں سمجھتے، اور اقتدار کو منزل نہیں بلکہ ذمہ داری مانتے ہیں۔ ان کی سیاست ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ مذہب، سیاست، اور قوم پرستی تینوں کا امتزاج اگر عقل و توازن سے ہو تو وہ بگاڑ نہیں، اصلاح کا ذریعہ بنتا ہے۔
مولانا کی فکری بصیرت اور جمہوری و پارلیمانی کردار آنے والی نسلوں کے لیے ایک سبق ہے کہ سیاست میں پائیدار کامیابی انہی کو ملتی ہے جو اصولوں پر ڈٹے رہتے ہیں، چاہے زمانہ کتنی ہی مخالفت کیوں نہ کرے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button