کالمز

ذہنی صحت کے مسائل کا حل: قابلِ عمل تجاویز

گلگت بلتستان میں ذہنی صحت کا مسئلہ اب ایک سنگین سماجی بحران کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، مگر افسوس کہ اسے ابھی تک حکومتی ترجیحات میں وہ مقام نہیں دیا گیا جس کی یہ حقیقی طور پر مستحق ہے۔ چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کی زیرِ صدارت قائم مینٹل ہیلتھ اسٹیئرنگ کمیٹی کو تین سال مکمل ہوچکے ہیں، لیکن اس طویل عرصے میں ذہنی صحت کے حوالے سے کوئی نمایاں پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ کمیٹی کا حالیہ پندرواں اجلاس یقیناً ایک مثبت قدم ہے، مگر ایسے اجلاس اگر عملی بنیادوں پر نہ اتارے جائیں تو یہ محض کاغذی کارروائی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔
ذہنی صحت کے بگڑتے مسائل کا سب سے بڑا عامل یہی حکومتی عدم توجہی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں ہر دوسرا یا تیسرا شخص ذہنی صحت کی خدمات کا محتاج ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ خدمات ملک کے دیگر صوبوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی تقریباً ناپید ہیں۔ یہاں کے بچے، نوجوان، طلبہ، خواتین، بزرگ، افراد باہم معذوری اور دوردراز علاقوں میں رہنے والے شہری نفسیاتی دباؤ، اضطراب، ڈپریشن اور سماجی تنہائی جیسے مسائل میں اضافہ محسوس کر رہے ہیں۔ اس بدتر صورتحال کی ایک وجہ وہ سرکاری منصوبہ بھی ہے جسے دو سال قبل منظور کیا گیا تھا، مگر جس پر آج تک عملدرآمد نہ ہوسکا۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ ذہنی صحت کا بحران کسی ایک وقتی منصوبے سے حل نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے مستقل ڈھانچہ، تربیت یافتہ عملہ، بجٹ اور طویل المدتی حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ذہنی صحت کی ابتری ہمارے معاشرے میں کئی نئے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ جیسے گھریلو جھگڑے، صنفی تشدد، منفی رویوں میں اضافہ، منشیات کا بڑھتا رجحان، نوجوانوں کا بے سمتی کا شکار ہونا، اور سب سے بڑھ کر خودکشی کے بڑھتے واقعات اور دیگر سماجی مسائل، یہ سب اسی غفلت کے نتائج ہیں۔ گلگت بلتستان جیسے حساس خطے میں جہاں معاشی مواقع محدود، سماجی دباؤ زیادہ اور رسائی کے مسائل گہرے ہیں، وہاں ذہنی صحت کے لیے مضبوط نظام کی تشکیل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
کچھ دہائیوں سے جاری موسمیاتی تبدیلیوں کے نتجے میں ہونے والی تباہی اور نقل مکانی نے ذہنی صحت کے مسائل میں کئ گنا اضافہ کر دیا ہے۔
المیہ یہ بھی ہے کہ خطے میں کام کرنے والی سول سوسائٹی تنظیمیں اگرچہ محدود وسائل میں اہم کام کر رہی ہیں، مگر پالیسی سازی کے فورمز پر ان کی آواز شاذ و نادر ہی سنی جاتی ہے۔ اسٹیئرنگ کمیٹی کو چاہیے کہ وہ نہ صرف ان اداروں کو سنے بلکہ ان کی تجرباتی معلومات کو صوبائی حکمت عملی کا حصہ بنائے۔ ذہنی صحت کے بحران کے حل کے لیے حکومت کو فوری طور پر ایک مضبوط قانون سازی کی طرف جانا ہوگا اور گلگت بلتستان میں ایک فعال مینٹل ہیلتھ ایکٹ نافذ کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر ضلع میں مینٹل ہیلتھ یونٹس کا قیام، ماہرینِ نفسیات اور پروفینشلز کے علاوہ کمیونٹی ورکرز یا لے کونسلرز کی تعیناتی، سکولوں اور یونیورسٹیوں میں کونسلنگ پروگراموں کا آغاز اور کمیونٹی سطح پر بیداری مہمات ناگزیر ہیں۔
اس کے علاوہ ہنگامی بنیادوں پر ایک 24/7 مینٹل ہیلتھ ہیلپ لائن کا قیام بھی ضروری ہے تاکہ ذہنی دباؤ، گھریلو تشدد یا خودکشی کے خطرے سے دوچار افراد کو فوری سہارا مل سکے۔ جنرل فزیشنز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو عالمی معیار کے مطابق WHO mhGAP پروگرام کے تحت تربیت دینا بھی ایک اہم قدم ہوگا۔ خطے میں ذہنی صحت کے حقیقی اعداد و شمار کا کوئی منظم نظام موجود نہیں، اس لیے ہر ضلع میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کا مستقل میکنزم قائم کرنا چاہیے اور سالانہ بنیادوں پر ذہنی صحت کی صورتحال پر رپورٹ شائع کی جانی چاہیے۔
دنیا بھر میں ذہنی صحت کو انسانی ترقی کا بنیادی ستون سمجھا جاتا ہے، اور یہ شہریوں کا بنیادی انسانی حق بھی ہے کہ ان کو جسمانی ، ذہنی اور تولیدی صحت کی آگاہی اور سہولیات بہم پہنچائی جائیں۔ مگر گلگت بلتستان میں اس حوالے سے حکومتی بے حسی وقت گزرنے کے ساتھ بحران کو مزید گہرا کر رہی ہے۔ یہ وقت تقاضا کرتا ہے کہ حکومت جسمانی صحت کی طرح ذہنی صحت کو بھی اپنی اولین ترجیح بنائے، پائیدار حکمت عملی ترتیب دے، اور اسٹیئرنگ کمیٹی کو فعال اور بااختیار بنائے۔ اگر اب بھی سنجیدہ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ بحران معاشرتی، معاشی اور انسانی سطح پر ایسے نقصانات کو جنم دے گا جن کی تلافی مستقبل میں ممکن نہیں ہوگی۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button