کالمز

چترال کی شادی شدہ خواتین میں خودکشی: ایک خاندانی مشاہداتی مطالعہ

جعفر یاد حسین، ہیڈ ڈیپارٹمنٹ آف نرسنگ، سٹی یونیورسٹی پشاور کے تحقیقی مواد کی روشنی میں نورالہدیٰ یفتالیٰ کا تجزیاتی کالم


یہ مطالعہ چترال کی شادی شدہ خواتین میں خودکشی کے محرکات کو سمجھنے کے لیے کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے گزشتہ ایک سال کے دوران خودکشی کرنے والی چھ خواتین کے چوبیس قریبی اہلِ خانہ کے تجربات کا جائزہ لیا گیا۔ یہ ایک معیاری تحقیق تھی، جس میں خاندانی طرزِ تحقیق کا طریقۂ کار اختیار کیا گیا۔ اعداد و شمار اپریل سے جولائی ۲۰۱۶ کے درمیان جمع کیے گئے، جو زیادہ تر شرکاء کے گھروں میں تفصیلی گفتگو اور مشاہدے کے ذریعے حاصل کیے گئے۔ یہ تحقیق ضلع چترال میں کی گئی۔

گزشتہ برس کیے گئے ایک خاندانی مشاہداتی مطالعے میں چھ ایسی خواتین کے خاندانوں کے چوبیس افراد کے دردناک تجربات قلم بند کیے گئے جنہوں نے 20 سے 40 سال کی عمر میں اپنی زندگی کا چراغ خود بجھا دیا۔ یہ تحقیق خاندانی ماحول، رشتوں کی نوعیت، روزمرہ کے دباؤ اور ذہنی کرب کو سمجھنے کے لیے ان گھروں کے اندر رہ کر کی گئی جہاں خاموشیاں بھی چیخیں مارتی محسوس ہوتی ہیں۔

خودکشی اب محض ایک فرد کا مسئلہ نہیں رہی؛ یہ دنیا بھر میں صحتِ عامہ کا ایک سنگین بحران بن چکی ہے۔ ہر چالیس سیکنڈ میں ایک انسان اپنی جان لے لیتا ہے۔ اگر رجحانات یوں ہی رہے تو آئندہ برسوں میں ہر سال پندرہ لاکھ سے زائد لوگ خودکشی کی نذر ہوں گے۔ ترقی پذیر معاشروں میں اس کا شکار سب سے زیادہ نوجوان شادی شدہ خواتین ہوتی ہیں، بالخصوص ایسے علاقوں میں جو غربت، پسماندگی اور صنفی ناہمواری کا شکار ہوں۔

چترال میں یہ مسئلہ کئی برسوں سے شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ مقامی رپورٹس کے مطابق اوسطاً ہر ماہ ایک خاتون خودکشی کرتی ہے۔ مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے، کیونکہ معاشرتی بدنامی کے خوف سے بیشتر خاندان واقعات کو چھپا لیتے ہیں۔ نہ حکومتی سطح پر کوئی باقاعدہ تحقیق ہوئی، نہ کوئی مربوط ذہنی صحت کا نظام موجود ہے۔ نہ تربیت یافتہ مشیر ہیں، نہ خواتین کے لیے کوئی تحفظ گاہ، اور نہ ہی مؤثر قانونی مدد۔ یہ خاموشی اس سانحے کو مزید گہرا کر دیتی ہے۔

اس مطالعے کے نتائج سے کئی اہم پہلو سامنے آئے جو شادی شدہ خواتین میں خودکشی کے محرکات کی وضاحت کرتے ہیں۔ سب سے نمایاں عوامل غربت اور گھریلو و سماجی دباؤ تھے، جنہوں نے خواتین کی زندگی کو محدود کیا اور ان کی خود اعتمادی کو بری طرح متاثر کیا۔ ایک اہلِ خانہ نے کہا کہ وہ بدقسمت تھی؛ اپنی مرضی سے ایک کپ چائے بھی نہیں بنا سکتی تھی اور ہر چیز کے لیے ہاتھ پھیلانا پڑتا تھا۔ مالی بے بسی نے ان خواتین کی خود اعتمادی کو چُور کر رکھا تھا۔

مطالعے میں خواتین کی جانب سے جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی تشدد کی تکلیف دہ کہانیاں سامنے آئیں۔ گھریلو تشدد اکثر نظر نہیں آتا، مگر اس کے اثرات گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں۔ انفرادی سطح پر شدید ذہنی دباؤ، ڈپریشن، بانجھ پن کے طعنے، اور ماضی میں خودکشی کی کوششیں عام تھیں۔ ایک بھائی نے بتایا کہ دوسری اولاد کے بعد وہ شدید ڈپریشن میں چلی گئی اور کئی بار خودکشی کی کوشش کر چکی تھی۔ ایک اور واقعے میں بتایا گیا کہ شوہر نے کہا تھا کہ اگر ایک سال میں حاملہ نہ ہوئی تو وہ دوسری شادی کرے گا۔ اس دباؤ کے نتیجے میں ایک خاتون روتی ہوئی دریا میں کود گئی۔

خاندانی سطح پر ساس اور سسر کی سختی، زبردستی کی شادی، شوہر کے ناچاق رویے، والدین کی بے توجہی اور میاں بیوی میں مستقل جھگڑے خواتین کے حالات کو مزید مشکل بناتے تھے۔ کمیونٹی سطح پر خواتین کے لیے کوئی سہارا نہ ہونا، طلاق کو بدنامی سمجھا جانا، اور "یہ گھریلو معاملہ ہے” کہہ کر معاشرتی بے حسی بھی ان کی مشکلات میں اضافہ کرتی تھی۔ ایک بہن کے مطابق، وہ حاملہ تھی مگر کبھی ڈاکٹر کے پاس نہیں گئی، اور محلے والوں نے بھی مدد نہیں کی۔

سماجی سطح پر صنفی ناانصافی، غیر حقیقی توقعات، کمزور قانونی نظام اور خواتین کے لیے پولیس اسٹیشن یا قانونی سہولت کا فقدان حالات کو مزید خراب کرتا تھا۔ محقق نے مشاہدہ کیا کہ خواتین صبح سے شام تک محنت کرتی تھیں، مگر ان کی آواز کسی نے نہیں سنی۔ ان خاندانوں میں ایک مشترکہ تصویر واضح تھی: غربت، تشدد، بے بسی، عدمِ بااختیاری، اور ٹوٹے ہوئے رشتے۔

ایسے ماحول میں رہنے والی خواتین کب تک زندہ رہنے کی کوشش کرتی رہیں؟ کب تک اپنے اندر کے درد کو برداشت کرتی رہیں؟ کب تک ایک خاموش اور بڑھتی ہوئی تنہائی انہیں اندر سے کمزور کرتی رہے؟ جب زندگی ہر دروازے پر بند ہو جائے تو موت اکثر ایک آسان راستہ بن جاتی ہے، اور یہی اس سانحے کا اصل المیہ ہے۔

یہ تحقیق پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا خاندانی مشاہداتی مطالعہ ہے اور اس نے ہمارے سماج کے چہرے سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ غربت، گھریلو تشدد، سماجی و ثقافتی پابندیاں، قانونی کمزوریاں، اور خاندان کی بے توجہی ایسے زہریلے ماحول کو جنم دیتی ہیں جہاں خواتین جینے کی خواہش تک بھول جاتی ہیں۔ یہ نتائج محض تحقیق نہیں بلکہ ایک نوحہ، ایک پکار، اور ایک انتباہ ہیں۔ پالیسی سازوں، سماجی اداروں اور کمیونٹی کو مل کر اس المیے کا حل تلاش کرنا ہوگا، کیونکہ جو زندگیاں آج خاموشی سے بجھ رہی ہیں، وہ شاید ہماری خاموشی کی قیمت پر بجھ رہی ہیں۔

آپ کی رائے

comments

نور الہدی یفتالی

نورالہدی یفتالی بالائی چترال کے علاقے مستوج سے تعلق رکھنے والے لکھاری ہیں

متعلقہ

Back to top button