کالمز

نقل کا بڑھتا ہوا رحجان

ہدایت اللہ آختر

  اسلای نقطہ نگاہ سے تعلیم کی اہمیت اور اس کی ضرورت سے    سبھی مسلمان واقف اور آگاہ ہیں بلکہ  اس سے متعلق جتنی احادیث اور قرانی آیات ہیں سب مسلمانوں کو ازبر ہیں   یہاں ان احادیث اور اقوال کا ذکر کرکے  قرطاس کو کالا اور  کالم  کو لمبا کرنے والی بات  ہوگی   جس محفل میں آپ بیٹھیں  سب کو ایک ہی شکایت ہے کہ بچوں کی صحیح تربیت نہیں  سکولوں میں تعلیم صحیح نہیں ہورہی  معاشرہ بڑا خراب ہوا ہے.

پھر بحث کا سلسلہ چل پڑتا ہے  اور  لوگوں کے منہ سے  مختلف اقوال  زریں  اور  قرانی آیات  و احادیث  پھوٹ پڑتی ہیں  کہ انسان ہکا بکا رہ جاتا ہے  اور یہ سوچ گردش کرتی ہے  یا الہی یہ ماجرہ کیا ہے   سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود  ہمارے بچوں کے اندر نظم و ضبط کیوں نہیں  سکولوں کی اچھی عمارتیں اور  ڈگری یافتہ اساتذہ کی موجودگی پھر بھی  یہ بچے  پڑھے لکھے ان پڑھ کیوں ہیں؟

کہا یہ جاتا ہے کہ بچوں کی  تربیت اور تعلیم اور انہیں معاشرے کا ایک اچھا شہری بنانے  میں  تکونی زاویے (اساتذہ،والدین اور طلبا)  کا بڑا اہم کردار ہے.  سب باتیں درست  ہیں  لیکن  تینوں کی انتھک کوشش کے باوجود اس میدان میں سدھار نہیں آیا  طلبا کا کہنا یہ ہے کہ  جب وہ سکول پہنچتے ہیں تو انہیں جو تعلمیی ماحول ملنا چاہئے وہ اس سے محروم ہیں  اور اساتذہ تعلیم سے زیادہ اپنے مراعات کی بحث میں سارا دن صرف کرتے ہیں  اساتذہ کا کہنا یہ ہے کہ والدین  بچوں کو سکول داخل کرنے کے بعد اس بات سے بے خبر ہو جاتے ہیں کہ  ان کا بچہ یا بچی سکول میں داخل ہے. والدین کا کہنا یہ ہے کہ  اساتذہ بچوں کی پرگریس رپورٹ والدین کو نہیں بھیجتے جس کے باعث وہ اپنے بچوں کی کارکردگی سے بے خبر رہتے ہیں  صرف سال کے آخر میں  رذلٹ کے وقت والدین کو بلایا جاتا ہے.

اور بھی بہت ساری باتیں  ہیں لیکن ذرا ان سے ہٹ کر ایک خطرناک اور کینسر قسم کا زہر جو پھیلا ہوا ہے اس پہ غوراور مستقبل میں اس کے اثرات   کا سوچ کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ آئیندہ برسوں میں کیا  کوئی قابل جوہر کی توقع کی جا سکتی ہے   جبکہ یہ کینسر اور بیماری جس کو نقل اور انگریزی میں چیٹنگ کہا جاتا ہے  آج کل ایک فیشن بن گیا ہے  بلکہ  طلبا نے تو  اب اس کو اپنا  حق سمجھ  رکھا ہے  اور وہ نقل کا مطالبہ کچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ جیسے یہ انکے بنیادی حقوق میں سے ایک حق ہے.

تعلمیی معیار اور سکولوں کی حالت اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی جب تک  نقل کے رحجان کی حوصلہ شکنی   نہیں ہوگی اور جب تک یہ تکونی زاویے والے افراد آپس میں مل بیٹھ کر کوئی لانحہ عمل تیار نہیں کرینگے  اس وقت تک  یہ سلسلہ چلتا رہیگا  کہا یہ بھی جاتا ہے کہ  یہ سلسلہ ان تکونی زاویے والوں کا پیدا کردہ ہے اس لئے اس کا علاج بھی ا ن ہی کو کرنا ہے ایک  ستم یہ بھی ہے کہ آئے روز  اساتذہ   نے  اپنی مراعات کے لئے ہڑتال  کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے    حق لینے کے اور بھی تو بہت سارے طریقے ہیں  کیا   کبھی اساتذہ نے  اس بات پہ ہڑتال کی ہے کہ  سکول کی عمارت نہیں ہے سکول میں بچوں کے لئے سہولیات نہیں ہیں  اگر طلبا اساتذہ اور والدین کی کج ادیوں  کی نشاندہی  کرنے بیٹھوں تو  اس کے لئے بڑے صفحے درکار ہیں  کیونکہ میں خود بھی  اسی تکون کا ایک کونہ ہوں  سکولوں کے مسائل سے بخوبی اگاہ ہوں وسائل  کی کی اور مسائل کہاں نہیں ہوتے   اگر انسان کے اندر جذبہ موجزن ہو تو کم وسائل سے بھی بہتریں پڑھائی کے موا قع فراہم ہو سکتے ہیں  بس    ہم تکونی زاویے والوں میں اسی جذبے کی کمی ہے۔ہماری غفلت اور لاپرواہی کا نتیجہ ہے کہ   نقل کا  یہ کینسر اس تیزی سے پھیلا ہے کہ سارا ملک اس کی لپیٹ میں آیا ہوا  ہے.

تعلیم کے شعبے میں سیاست  اور کرپشن نے اس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کر دی ہے  رشوت کا بازار کچھ اس طرح سے گرم ہوا ہے کہ اپ گریڈ ون بھی مفت میں پانی پلانے کے لئے تیار نہیں  وہ بھی ایک گلاس پانی کے لئے دس کے نوٹ کا انتظار کرتا ہے . تو سنٹر میں دوسرے اہلکار  کیا مفت میں نقل کروئینگے  نہیں نا  ہر ایک کا اپنا ریٹ ہے  کہا یہ جاتا ہے  بلکہ  مشاہدے میں آیا ہے کہ  سنٹروں سے ان اہلکاروں کو نقل کی مد میں اچھی خاصی امدنی  وصول ہو جاتی ہے اس لئے  سکول کے اہلکار  امتحان کے دوران سنٹروں  میں ڈیوٹیاں لگوانے کے لئے  یو نیورسٹی کا طواف کرتے رہتے ہیں  اور اپنے من پسند سنٹروں میں ڈیوٹیاں لگواتے ہیں تو  دوسری طرف والدین  امتحان کے دنوں میں  سنٹروں کے اہلکاروں کو دھمکیوں سے نوازتے ہیں کہ  صحیح سلامت رہنا ہے تو  سنٹر میں سختی نہیں کرنی ہے  اور طلبا ہیں  کہ شہزادے  رنگ بھرنگے لباس زیب تن کر کے اپنے نئے نئے سٹائل کے موبائلز اور نقل کے ہتھیاروں سے لیس سنٹروں میں ایسے داخل ہوتے ہیں کہ  جیسے  کسی فلم کا شو دیکھنے جا رہے ہو   ایک سرکاری سکول کے ٹیچر سے اس سلسلے میں بات ہوئی تو اس نے اپنا دکھڑا سنایا   اس کا کہنا یہ تھا کہ جب ہم کلاس میں  پڑھانے جاتے ہیں تو لڑکے پڑھنے سے انکار کرتے ہیں استفسار پر جواب ملتا ہے کہ جناب  ہم نے نقل کرکے پاس ہونا ہے اس لئے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔  اس لئے ہم لوگ  یعنی اساتذہ کلاس چھوڑ کر  اپنے لئے زائد آمدنی کا بندوبست کرنے کے لئے  دوسرے دھندوں میں لگ جاتے ہیں  رہی بات والدین کی تو ماشااللہ وہ اپنے بچوں کے شانہ بشانہ ہمیشہ  کھڑے ہیں یعنی امتحان کے دنوں میں  سفارش اوررشوت اور  دھمکی کے ساتھ ۔۔ صورت حال انتہائی بھیانک اور گھمبیر ہے ۔ نقل کے اس بڑھتے ہوئے رحجان اور اس  کینسر کا  علاج اور کسی کے ہاتھ یں نہیں اس کا علاج بھی انہوں نے خود ہی کرنا ہےاور جب تک اساتذہ والدین اور طلبا  اپنے رویوں میں تبدیلی  نہیں لائینگے  یہ نظام یوں ہی چلتا رہیگا اس کے لئے بہت جلد اور اہم  اقدامات  فوری طورپر کرنا ہوں گے۔۔ نہیں  تو آنے والے سالوں بلکہ دنوں میں  تعلیم کاجنازہ بڑی دھوم دھام  سے نکل جائیگاْ۔۔۔

ہم جیسے بیج بوئینگے  ویسی ہی فصل کاٹینگے لہذا ہمیں  اچھی بیج اور اچھی کھاد کی ضرورت ہے  جو ہمارے بچوں کی صحیح نشونما کر سکے  ہمیں نقل کے زہر کو ملیا میٹ کرنے کے لئے کرپشن کے سارے دروازے بندکرنے ہونگے  اور یہ صرف اور صرف اس وقت ممکن ہے کہ ہم اپنے اندر پرہیزگاری  ایمانداری خلوص  اور حلال کے اچھے بیج پیدا کریں تاکہ ہماری آئندہ آنے والی نسل  پاکباز اور علم   دوست ثابت ہو اگر ایسا نہیں ہوا تو ملک میں بے روزگار پڑھے ہوئے ان پڑھ  جا بجا ملینگے جس سے  نہ والدین کو فائدہ ہوگا اور نہ اس ملک کواور اس کے لئے  آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button