احساس برتری یا گھمنڈ؟
ہدایت اللہ آختر
انگریزی کا ایک لفظ ہے کنفیڈنس جس کو اردو میں خود اعتمادی کہا جاتا ہے اس کے ساتھ کبھی کبھی ایک اور لفظ کو بھی استعمال میں لایا جاتا ہے وہ ہے اور کنفیڈنس اب اسکو اردو والے احساس برتری کا نام دیتے ہیں کچھ لوگ اس احساس برتری کی مزید تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں بہت ہی زیادہ خود اعتمادی ارے بابا یہ بہت ہی زیادہ خود اعتمادی کیا ہوتی ہے؟
خود اعتمادی تو بس خود اعتمادی ہی ہوتی ہے اگر اس اور کنفیڈنس کواحساس برتری کے بجائے ایروگینس یعنی گھمنڈ کا نام دیا جائے توزیادہ بہتر رہیگا وہ اس لئے کہ جب انسان اپنی حد عبور کرے اور کسی بات کا اسے خیال نہ ہو تو وہ گھمنڈ ہی ہوا نا ایسے میں وہ یہ سمجھتا ہے کہ ایک وہ ہی ہے باقی سارے ہیر پھیر اس لفظ کو استعال کرتے ہوئے مجھے بڑی کوفت ہو رہی ہے اور مجھے یوں لگ رہا ہے کہیں میں بھی اور کنفیڈنس کا شکار تو نہیں ہم میں سے کئی لوگ اس بیماری کا شکار ہیں لیکن محسوس نہیں کرتے وہ اس لئے کہ اس اور کنفیڈنس کو ہ اپنی قابلیت تصور کرتے ہیں ۔۔ اپنے اوپر اعتماد کرنا بہت ہی اچھی بات ہے اس سے انسان کے اندر خود اعتمادی آجاتی ہے اور وہ اپنے کام احسن طریقے سے انجام دیتا ہے لیکن جب یہ خود اعتمادی اپنی حدوں کو عبور کرتی ہے اور انسان اپنی خود اعتمادی کو یہ سمجھے کہ میں جو کچھ کرتا ہوں وہ ٹھیک ہی ہوتا ہے اور دوسرے انسانوں کی رائے یا مشوروں کو نظر انداز کر دے یا ان کو خاطر میں نہ لائے تو یہ اس کا گھمنڈ کہلاتا ہے اور یہ گھمنڈ پھر کبھی کبھار بلکہ اکثر اس کے لئے وبال جان بنتا ہے انسان کی زندگی میں کچھ لحمے ایسے آتے ہیں جہاں اس کو بڑی سوچ بچار کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے اپنے ماحول کے مطا بق بڑی احتیاط کے ساتھ فیصلہ اور قدم اٹھانا پڑتا ہے بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی گھمنڈ کی وجہ سے کچھ ایسے فیصلے کرتا ہے جو ہمارے معاشرے اور ہمارے ماحول سے میل نہیں کھاتے اوروہ اپنے پیچھے بہت سارے منفی اثرات کو جنم دیتے ہیں ہماری اپنی روایات ہیں اپنی ایک تہذیب ہے اور مشرقی آداب ہیں جن کی پامالی کسی طرح سے بھی ہمارے لئے سود مند ثابت نہیں ہو سکتی چاہئے اس پر ہم جتنی بھی مغربی تہذیب کی لپائی کریں وہ اس رنگ میں تبدیل کبھی نہیں ہوگی بلکہ اس کی مثال ایسی ہوگی کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا ۔۔ہم مسلمان بھی عجیب ہیں رات دن اللہ سے دعائیں مانگتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا اور خود سیدھا راستہ چھوڑ کر الٹی سمت دوڑنے لگتے ہیں۔
ہمارے تعلیمی نظام ہی کو دیکھ لیں پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام میں سے ننانوے فیصد لوگ اردو بول اور سجھتے ہیں لیکن ہماری دفتری زبان انگریزی ہے ہماری مادری زبان اردو ہے لیکن سکولوں میں انگریزی پڑھائی جاتی ہے یعنی ہمیں زبردستی انگریز بنایا جارہا ہے پچھلے چھیاسٹھ سالوں سے یہی کچھ ہو رہا ہے لیکن ہوا کیا یہ سبھی جانتے ہیں نہ ادھر کے رہے ہیں اور نہ ادھر کے جب ایسی باتیں لکھی جاتی ہیں تو لوگ یہی کہتے ہیں؟ یہ قدامت پرست لوگ دنیا کہاں جارہی ہے اور یہ لوگ ابھی تک چروہاوں کی زندگی گزارنے کے درپے ہیں خواہ مخواہ اچھے کاموں پر اعتراض کرتے ہیں بڑے عجیب لوگ ہیں پڑھ لکھ کر بھی دقیانوسی خیالات کے مالک ہیں ان کو سمجھ ہی نہیں ہے بڑے آئے ہیں اپنی ثقافت کی بات کرنے والے ارے بابا یہ تو پرانی ہوچکی ہیں دور جدید میں اس کاکوئی فائدہ نہیں ہماری ثقافت کیا ہے یہی نا کہ اسلای اقدار عورتوں کا احترام بچوں کو روایات کے مطابق بزرگوں کی عزت کرنا چھوڑو جی یہ سب پرانی باتیں ہیں اب تو مینا بازار کا دور ہے اب تو مدر ڈے فادر ڈے اور ٹیچر ڈے اور ایجوکیشن اکسپوز منعقد کرانے کا دور ہے ابھی تو بچوں کو اتنی آزادی دینی ہے اور ان کو ایسا سبق پڑھا ناہے کہ وہ اپنی بھی بولی بھول جائے تعلیی تقریبات کوئی بری چیز نہیں لیکن جب یہ تقریبات تعلیم سے زیادہ نمائشی میلوں کا روپ دھاریں اور نظم و ضبط کا فقدان ہو تو اس سے معاشرے میں سدھار کے بجائے بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے ۔
ابھی پچھلے ہی دنوں گلگت میں ایک تعلیمی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔کچھ احوال اسکا بھی مختلف نہ تھا نظم ضبط کا فقدان بد انتظامی میرٹ اور مشرقی روایات کی پامالی اور اقربا پروری اور مغربی تہذیب کا خول ہمیں وہاں بھی نظر آیا ۔۔چند ایک طلبا تنظم اور سکولوں کی بائکاٹ کے علاوہ دو گروپوں کے تصادم کی خبریں بھی اخباروں کی زینت بنیں۔۔ لگتا ایسا تھا کہ اس تقریب کے انعقاد کے لئے وہ ہوم ورک نہیں کیا گیا تھا جس کی یہ تقریب متقاضی تھی۔۔ اس تقریب کے منتظمین کے کردار پر شک کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی ان کی نیتوں پر شک کیا جا سکتا ہے بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ شائد ان کےذہنوں کے اندر بھی اور کنفیڈنس احساس برتری اور ایروگینس گھمنڈ کے جراثیم نےبسیرا کیا ہو جسکے باعث انہوں نے کسی اور سے مشورہ لینا ضروری نہ سمجھا ہو.