وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
تحریر: عبدالکریم کریمی
قارئین! خواتین کا عالمی دن منایا گیا اس دن خصوصی تقاریب، سیمینارز اور کانفرنس ہوئیں جن میں خواتین کے حقوق، وقار کی بلندی اور ان کی عظمت کے سلسلے میں پُر جوش اور ولولہ انگیز تقاریر ہوئیں اور یہ عہد کیا گیا کہ مرد کے شانہ بشانہ خواتین بھی معاشرے میں اپنا ایک مقام رکھتی ہیں مگر اس کے برعکس خالی ٹین کی طرح ہماری صدائیں فلک شگاف اور صدا بصحرا ثابت ہوئیں لیکن ہمارے افعال یا اعمال اتنے زوال پذیر ہیں کہ جن کی کوئی نظیر نہیں، انگریزی کا ایک محاورہ ہے:
Action speak louder than words.
یعنی کسی معاشرے کا معیار یا عکس اس معاشرے کے لوگوں کے بڑے بڑے الفاظ سے نہیں بلکہ ان کے اعمال سے ناپا اور دیکھا جاتا ہے۔ شمالی علاقہ جات سمیت پاکستان مختلف مذاہب، مختلف ثقافتیں، مختلف زبانیں، مختلف سرحدیں اور مختلف فہم و فراست رکھنے والوں کا مسکن ہے یہی وجہ ہے کہ ہر علاقہ دوسرے علاقے سے مختلف دکھائی دیتا ہے۔
اس دن کے منانے کا پس منظر یہ ہے کہ اٹھارویں صدی میں امریکہ سمیت دنیا بھر میں خواتین کو وہ حقوق حاصل نہیں تھے جن کا حقدار مردوں کو سمجھا جاتا تھا، اپنے حقوق کے سلسلے میں امریکہ کی خواتین میں زیادہ بیداری پائی جاتی تھی کیونکہ امریکہ میں ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ مردوں کے مقابلے میں انتہائی غیر مناسب سلوک روا رکھا جاتا تھا، مختلف اداروں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کے اوقات کار مردوں سے زیادہ تھے جبکہ مردوں کے مقابلے میں ان کو اجرتیں بھی بہت کم دی جاتی تھیں، اس صورت حال کے خلاف اٹھارویں صدی کے آخر میں امریکی خواتین کی تحریک ۱۹۰۷ء میں عروج پر پہنچ گئی، اس سال امریکی خواتین نے زبردست احتجاجی تحریک شروع کی، خواتین کی اس تحریک کو کچلنے کے لئے ظالمانہ ریاستی تشدد کیا گیا جس میں متعدد خواتین کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا مگر خواتین اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اپنے لئے مردوں کے برابر اجرتیں اور ۸ (آٹھ) گھنٹے اوقات کار مقرر کرنے میں کامیاب ہوگئیں، اس کی یاد میں ۱۹۱۰ء میں سوشلسٹ رہنما کلا راز پٹکن نے ۸؍ مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے کی تجویز دی اور یوں ہر سال پوری دنیا میں ۸؍ مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
قارئین! میں عرض کر چکا ہوں کہ اس دن دنیا بھر میں خواتین کے حقوق اور ان کو مکمل تحفظ کی فراہمی کے سلسلے میں دھواں دار اور ولولہ انگیز تقاریر ہوتیں ہیں مگر بصد افسوس۔۔۔ اب بھی دنیا کے بیشتر حصوں میں صنف نازک ظلم و جبر کی کسی نہ کسی صورتحال سے دو چار نظر آتی ہے۔
پاکستان بالعموم اور شمالی علاقہ جات بالخصوص میں خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کے حوالے سے بات کی جائے تو نہایت دلخراش حقائق سامنے آتے ہیں۔ ہم دن بدن مذہبی، اخلاقی، سماجی اور معاشی لحاظ سے زوال پذیر ہو رہے ہیں، گذشتہ دہائی سے یہاں کے عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں جس کے باعث ان میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے، معاشرے میں خرابی کے نتائج، ایجادات، انداز اور استحصال کی نئی صورتوں نے جنم لیا۔
قارئین! حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ایک اخباری سروے کے مطابق پاکستان میں سال ۲۰۰۴ء میں ۴۳۶ عورتیں خودکُشی کے باعث اپنی زندگی ہار بیھٹیں اور دہشت گردی کے مختلف واقعات میں ۲۱ (اکیس) عورتیں قتل ہوئیں۔ گذشتہ سال خواتین کو سر عام برہنہ کرنے اور تین سال کی معصوم بچی سے لے کر ساٹھ سال کی بوڈھی عورت تک جنسی زیادتی کے ہولناک واقعات رونما ہوئے تو دوسری جانب اجتماعی زیادتی اور زنا بالجبر کے بعد بچیوں اور خواتین کو جلانے کے گھناؤنے عمل نے معاشرے میں رہنے والے ہر فرد باشعور کو ذہنی کرب میں مبتلا کیا۔
عورت مخلص ماں، وفادار بیوی، پاک دامن بہن اور پاک باز بیٹی کے روپ میں ہوکر بھی سماج میں انگنت مصائب کا شکار ہے۔ کم عمری کی شادیاں، مرضی کے خلاف نکاح اور غیرت کے نام پر قتلِ خواتین کا سلسلہ آج بھی معاشرے میں جاری ہے ہماری خواتین عزت و غیرت کے منافقانہ تصور کا شکار ہوکر زندگی گزار رہی ہیں لیکن یہاں یہ بات کسی شک و شبہ کے بغیر کہی جاسکتی ہے کہ موجودہ حکومت خواتین کو معاشرے میں ان کا جائز مقام دینے کے لئے عملی کوششوں میں مصروف ہے اور عورت کے خلاف امتیازی قوانین کے خاتمے کے لئے جامع اقدامات کر رہی ہے صحت و تعلیم، ملازمت غرض کہ زندگی کے دیگر معاملات اور ترقیاتی کاموں میں صنف نازک کو شامل کرنے کے لئے حکومت کی پالیسیاں قابلِ داد ہیں جن پر مکمل طور پر عمل درآمد کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔
ہم حکومت وقت کے شکر گزار ہیں کہ پورے ملک کی طرح شمالی علاقہ جات میں بھی خواتین کو ۳۳ فیصد نمائندگی دینا اہلِ شمال کی خواتین کے لئے ترقی کی جانب اُمید کی ایک کرن ہے، خواتین کی علمی اور معاشرتی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے ارضِ شمال کی ۳۳ فیصد نمائندہ خواتین سے یہی گزارش ہے کہ وہ دیے گئے نادر موقع سے بھر پور فائدہ اٹھائیں اور یہاں کی خواتین کی بھلائی اور بہبود کے بارے میں کوئی راہِ عمل تعین کریں تاکہ کچن میں یرغمال بن کر زندگی کے قیمتی لمحات کاٹنے والی خواتین کو یہ بھی پتہ چلے کہ باہر کی دنیا میں کیا ہے آج کے اس جدید دور میں معلومات کی فراہمی اور استعمال پر کوئی قدغن نہیں خواتین کو زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے، صرف گھر کی حویلی میں پابند سلاسل رہنے اور کچن میں یرغمال بننے سے ترقی کرنا ناممکن ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پورا معاشرہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے والی سوچ کو ترک کر دے۔ دین اسلام نے چودہ سو سال پہلے عورت کی حرمت و عظمت کا جو درس دیا تھا اسے معاشرے میں عملی جامع پہنا کر نافذ کرنا ہوگا تب ہی ہم ۸؍ مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے کا صحیح معنوں میں حق رکھتے ہیں۔ یاد رکھئے گا کہ وجودِ زن سے ہی کائنات کی رنگا رنگی ہے۔ بقول اقبالؒ
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں