کالمز

میں اور الواعظ ۔۔۔ ایک مکالماتی سلسلہ، قسط دوم

میں قدرت کی تقسیم پر پریشان ہوں۔ دیکھیں ناں کسی نے شادی کرلی اور دس سال تک صاحب اولاد ہونے کا منتظر رہا، اور دوسری طرف کسی کو شادی کے پہلے برس ہی اولادِ صالح کی نعمت مل گئی۔

کسی نے بائیس سال کی عمر میں امریکہ سے گریجویشن کیا اور پانچ سال ایک اچھی ملازمت کے حصول میں دھکےکھاتا رہا، اور دوسری طرف ایک شخص ستائیس سال کی عمر میں سرکاری یونیورسٹی سے گریجویٹ ہوا اور فوری طور پر اسے اسکی ’’ڈریم جاب‘‘ مل گئی۔

کوئی پچیس سال کی عمر میں کروڑ پتی اور اپنے بزنس کا مالک تو بن گیا مگر اس کی اولاد انتہائی نااہل، نکمی اور ان پڑھ رہی اور دوسری طرف ایک شخص نے بچپن سے غربت اور محرومیاں دیکھیں مگر پچاس سال کی عمر میں اس کے بچے پڑھ لکھ کر سول اور ملٹری بیوروکریٹس بنے، بزنس ٹائیکون بنے کہ کروڑ پتی افراد بھی اس کی قسمت پر رشک کرنے لگے۔

میں ان سوچوں میں مگن تھا میرے اندر کے واعظ نے مجھے ٹوکا۔ فرمانے لگے:
’’ہم میں سے ہر شخص اپنی نیت اور مسلسل جدوجہد سے اپنی معاشی حالت کو بدلتاہے۔ مگر قسمت اور تقدیرکا ’’فیکٹر‘‘ ان سب سے اوپر ہے۔ آپ کے کلاس فیلو، دوست یا رشتہ دار یا آپ سے عمر میں چھوٹے لوگ بظاہر آپ سے آگے ہو سکتے ہیں، ان سے جیلس نہ ہوں اور نہ اللہ سے بدگمان ہوں کہ اس کو یہ کیوں دیا اور مجھے کیوں نہ دیا نہ اس کی شکل ہے نہ عقل اللہ نے کیا دیکھ کے اس کو یہ سب دے دیا؟ اس میں ایسی کیا خوبی اور صلاحیت ہے جو مجھ میں نہیں؟ صحت، تندرستی، اولاد، تعلیم، عزت شہرت، جاب دولت گاڑی بڑا گھر یہ سب اللہ کی تقسیم اور اس کی عطا ہے اس لیے اللہ کی تقسیم سے اختلاف اور اس کو چیلنج مت کیجئے۔ جو آپ کی قسمت میں ہے وہ کوئی چھین نہیں سکتا اور جو نہیں ہے وہ کوئی دے نہیں سکتا۔ ہر نعمت کو دیکھتے ہی آپ کی سوچ اس انسان کی بجائے اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے جس نے درحقیقت اسکو یہ نعمت عطاکی۔‘‘

میں نے ان کی یہ لمبی تقریر سنی تو الواعظ سے پوچھا ’’حسد کیا ہے؟‘‘
فرمایا ’’اللہ کی تقسیم سے اختلاف رکھنا۔‘‘

ایک دفعہ پھر میرے اندر کے واعظ کا آخری جملہ مجھے حیران کرنے کے لیے کافی تھا۔ کہنے لگے:

’’ہم کیسے نادان لوگ ہیں جو اپنے مالک سے نعمت کا سوال تو کرتے نہیں لیکن کسی اور پہ کرم ہوتا دیکھ نہیں سکتے۔ ہم دن میں کئی بار اللہ کی تقسیم سے اختلاف بھی کرتے ہیں اور ’’مجھ میں کیا کمی ہے‘‘ کہہ کے اس کی تقسیم کو چیلنج بھی کرتے ہیں اور پھر سکون اطمینان سےخالی دل کا شکوہ بھی کرتے ہیں۔‘‘

میں اس مکالمے کے بعد صرف اتنا کہنے کی سکت رکھتا ہوں کہ اللہ پاک ہمیں حسد سے محفوظ رکھے۔ آمین!

یکے از تصنیفاتِ کریمی

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button