کارکردگی رپورٹ یا ماڈلنگ کی کتاب
صفدر علی صفدر
گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سلف گورننس آرڈر 2009ء کے تحت ہونے والے عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے اپنے تین سالہ دور میں جمہوریت کا جنازہ نکالنے کے بعد بھی جھوٹے اعلانات ،فرضی اقدامات اور تصاویر کی رنگینی پر مبنی کتاب صوبائی حکومت کی کارکردگی کے نام سے شائع کر کے عوام میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے جس پر حکومتی سربراہ اور ان کے رفقائے کار مبارک باد کے مستحق ہیں ان لوگوں کو بھی مبارک ہو جو اس جھوٹی ،فریب اور دھوکہ بازی پر مبنی کارکردگی کے ذریعے علاقے کو سیاسی ،اقتصادی اور سماجی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ساتھ ساتھ عوام کا وہ طبقہ بھی مبارک باد کے مستحق ہے جو حکومت کی اس کارکردگی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کر کے اسے واقعی کامیابیوں کا سفر قرار دیتے ہیں ۔
مجھے حکومت کی اس کارکردگی رپورٹ کی اصلیت کا اندازہ اس وقت ہوا جب گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں صوبائی وزیر اطلاعات علی مدد شیر نے چند ممبران اسمبلی اور جیالوں کو بلا کر رپورٹ پیش کر کے تصاویر بنوا کر اپنی ذمہ داری نبھانے کی کوشش کی میں اس تقریب میں قدرے دیر سے پہنچا لیکن پہنچتے ہی تقریب کے منتظمین سے استفسار کیا کہ رپورٹ کی کاپیاں صحافیوں کو دیئے جائیں تا کہ وہ اس متعلق ذمہ داران سے سوالات پوچھ سکے جس پر وزیر اطلاعات نے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ آج اس رپورٹ سے متعلق کوئی سوال نہیں پوچھا جائے کیونکہ آج صرف اور صرف رپورٹ پیش کرنا ہے ۔اگر اس سے متعلق کسی کا کوئی سوال ہو تو وہ تحریری صورت میں ہمیں ارسل کریں تواگلی فرست میں پریس کانفرنس کا اہتمام کیا جائے گا ۔تقریب میں موجود ایک اور صحافی نے طنزیہ انداز میں کہا کہ وزیر موصوف گھبرائے نہیں یہاں محکمہ تعلیم سے متعلق کوئی سوال نہیں پوچھا جائیگا۔بہر حال اسی ٹال مٹول کے ساتھ تقریب بر خاست ہوئی۔
شام کو گھر آکر جن میں حکومتی کارکردگی رپورٹ کا جائزہ لیا تو یقین آگیا کہ وزیر اطلاعات نے رپورٹ سے متعلق سوالات نہ کرنے کی ہدایت کر کے انتہائی ہوشیاری اور عقلمندی کا مظاہرہ کیا کیونکہ 167 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کے اندر کوئی ایسا نکتہ نہیں کہ جس پر سوال نہ اٹھایا جائے۔رپورٹ کے مطابق سال 2009 ء سے 2012 ء تک سالانہ ترقیاتی بجٹ کی مد میں 22250.782 ملین روپے علاقے میں خرچ ہوئے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اگر اتنی بھاری رقوم علاقے کی تعمیر و ترقی پر خرچ کی جا چکی ہے تو اس کے باوجود علا قہ بہتری کی بجائے ابتری کی طرف کیوں جا رہا ہے ۔رپورٹ میں محکمہ تعلیم کی کارکردگی کے اندر تین سال میں 36 سکولوں اور کالجوں کی اب گریڈیشن اور تعمیر کے منصوبے جبکہ 29 تعلیمی اداروں میں سہولیات کی فراہمی کا دعویٰ کیا گیا ہے ۔اگر یہ سچ ہے تو تعلیمی ادارے اب بھی زبوں حالی کا شکار کیوں ہیں؟رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان میں این سی پی گاڑیوں پر ٹوکن ٹیکسز کی مد میں تین سال میں 117330000 کی آمدنی وصول ہوئی ہے ۔آخر وہ پیسہ کہاں خرچ ہوا ؟رپورٹ کے اندر تین سال کے عرصے میں مختلف سرکاری محکوں کیلئے 2163 نئی اسامیاں پیدا کی گئیں ہیں کیا ان اسامیوں پر میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر بھر تیاں عمل میں لائی گئی ہیں؟رپورٹ کے مطابق قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان میں تین سال کے عرصے میں 24نکات پر قانون سازی ہوئی ہے۔کیا ان میں سے صرف حکومتی مفادات کے علاوہ عوا می مفاد کے کسی قانون پر عمل درآمد ہوا ہے؟رپورٹ میں علاقے میں بجلی کی پیداوار94.8 میگاواٹ تک بڑھانے کا دعویٰ کیا گیا ہے تو پھر علاقے میں 22گھنٹے کی اعصاب شکن لوڈشیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟
رپورٹ میں محکمہ جیل خانہ جات کے قیام کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے ۔شاید اسی لئے جیلوں سے خطرناک قیدیوں کو فرار ہونے میں مدد مل رہی ہے۔رپورٹ میں شاہراہ قراقرم کو مسافروں کیلئے محفوظ بنانے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے تو پھر ایک سال کے دوران اسی شاہراہ پر تین انسانیت سوز واقعات کیونکر رونما ہوئے؟رپورٹ میں صحت کے شعبے میں بھی انقلابی اقدامات کا دعویٰ کیا گیا ہے تو پھر ہسپتالوں میں مریضوں سے فیس لاگو کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا ہے ؟رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے گلگت اور سکردو کو بگ سٹی کا درجہ دینے کا وعدہ پورا کیا ہے۔کیااس سے عوا م کو کوئی فائدہ حاصل ہوا ؟رپورٹ کے مطابق حکومت نے صحافت کے فروغ کے لئے پانچ کروڑ نوے لاکھ کی لاگت سے صوبائی سطح پر انفارمیشن سنٹر کے قیام اور پریس کلب کی تعمیر کیلئے دو کروڑ روپے کی لاگت سے ایک منصوبہ تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ کیامیڈیا کالونی کا قیام اور صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لئے پہلے ہی کئے گئے اعلانات پر عملدرآمد ہوا؟ علاوہ ازاں رپورٹ میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی طرف سے دو ارب کا جھوٹا اعلان صاف پانی کی فراہمی سمیت دیگر عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کا سرے سے ہی کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔حالانکہ اس وقت صوبائی دالخلافہ میں عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور یہ مسئلہ گزشتہ کئی سالوں سے انتہائی گھبیر صورت اختیار کر تا جا رہا ہے۔اسی لئے تو حافظ حفیظ الرحمان نے اس رپورٹ کو ماڈلنگ کی کتاب کا نام دیا ہے جو بالکل درست اور مناسب نام ہے ۔
بہر حال گلگت بلتستان کے عوام کو تین سال کے عرصے میں حکومتی جھوٹ اور فریب کا بخوبی اندازہ ہوا ہے اور حکومتی کارکردگی کا تو قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کے جرات مند سپیکر وزیر بیگ نے پہلے ہی باندہ پھوٹ دیا ہے اب حکمران عوامی اعتماد حاصل کرنے کے لئے روزانہ اس طرح کی کارکردگی رپورٹ بھی پیش کریں تو بے سود ہے۔