کالمز

دادی اماں کی کہانیوں کے شہزادے سے ملیئے

کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ جن سے مل کر روح تک سرشار ہوتی ہے۔ یونیورسٹی آف بلتستان کے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ، پروفیشنل ڈویلپمنٹ کے ڈائریکٹر ہمارے دوست ڈاکٹر ایچ کریم خان کا شمار ایسی ہی شخصیات میں ہوتا ہے۔ بچپن میں جب دادی اماں ہم بچوں کو کہانیاں سنایا کرتی تھیں تو ہر کہانی میں ایک ایسے شہزادے کا تذکرہ ضرور ہوتا کہ گمان گزرتا کہ اس شہزادے کے بغیر شاید کہانی مکمل نہ ہو۔ کہانی سنتے وقت جب اس شہزادے کی خوبصورتی، نازکی اور شہزادیوں کے دلوں کی دھڑکن ہونے کا تذکرہ تکرار اختیار کرتا تو ہم بچے اپنے تخیل میں کہانیوں کے اس شہزادے کا حلیہ بناتے اور نیند کی آغوش میں چلے جاتے تو خواب میں ضرور ایسے کسی شہزادے سے ملاقات ہوجاتی۔ دوسرے دن دادی اماں جب کہانی کے اس حصے میں پہنچ جاتیں تو ہر بچہ کہتا جی دادی کل خواب میں ہم نے اس شہزادے کو دیکھا ہے۔ دادی ہمیں ڈانٹتیں، کہتیں چل ہٹ بدمعاش، شہزادے کا آپ سے کیا کام۔ ہم منہ بسورتے رہ جاتے دادی چسکے لے لے کر کہانی آگے بڑھاتیں۔ کاش دادی اماں آج زندہ ہوتیں تو ہم ان کو اپنے دوست ڈاکٹر کریم سے ملواتے اور ان سے پوچھتے آپ کی کہانی کے شہزادے اور ہمارے اس دھان پان سے خوبصورت دوست میں کوئی فرق۔ یقین کیجئے گا دادی اماں حیران ضرور ہوجاتیں۔

ربِ کریم نے ڈاکٹر کریم کو جتنی خوبصورتی سے نوازا ہے اتنی ہی سیرت سے بھی مالامال کیا ہے۔ کل سکردو شہر میں یوم امامت کی کسی تقریب میں اچانک ان سے ملاقات ہوئی۔ سفید شلوار قمیض اور کالے واسکٹ میں وہ ہماری دادی اماں کی کہانیوں کے شہزادے لگ رہے تھے۔ دھان پان سا یہ نوجوان جب خوبصورت چترالی لہجے میں کہوار بولنے لگے تو گفتگو میں ایسی نفاست اور مٹھاس در آئی کہ ہم تو بس انہیں سنتے رہیں۔ احمد فراز کا شعر ان سے مل کر سمجھ آیا۔ انہوں نے کہا تھا؎

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں

اب اتنا پیارا انسان آپ کو گھر پر کھانے پہ اپنے گھر بلائے تو انکار کیسے ممکن ہے۔ صرف سرسری طور پر مصروفیت کا بہانا بنانا پڑا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب خود گاڑی لے کر ہماری رہائش گاہ پہنچے تو انکار ناممکن تھا سو، ہم اہل و عیال سمیت ان کے ساتھ چل دئے۔ بلتستان یونیورسٹی سکردو کیمپس کے ساتھ ہی ان کی خوبصورت رہاش گاہ پہنچ کر ہمیں دادی اماں ایک دفعہ پھر یاد آئیں۔ دادی اماں اپنی کہانیوں میں شہزادے کے خوبصورت باغ کا تذکرہ بھی کیا کرتی تھیں۔ اب ہمارے سامنے وہ خوبصورت باغ، لان میں کیاریاں، خوبانی، چیری، توت کے درخت اور پھولوں کے بیج کرسیوں پر گاؤ تکیے جہاں ہماری نظروں کو تراوت بخشنے کے لیے کافی تھے وہاں آشا اور آذین کی مستیوں کے لیے بھی وسیع جگہ موجود تھی۔ شہناز بھابھی نے گیٹ کھول کر جس خلوص اور اپنائیت سے ہمارا استقبال کیا مجھے بے اختیار اپنی بہنیں یاد آئیں کہ میں چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی ہوں جب کبھی ان سے ملنے جاتا ہوں تو ایسی ہی پیش آتی ہیں۔ بھابھی سے مل کر دادی اماں کی کہانیوں کی شہزادیاں بھی یاد آئیں۔ ڈاکٹر کریم پر کتنی شہزادیاں مر مٹیں، نہیں معلوم۔ لیکن شہناز بھابھی اور ڈاکٹر صاحب کی محبت کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اس کہانی میں یک طرفہ محبت نہیں بلکہ دھڑکنیں دونوں طرف سے کافی دھڑکی ہوں گی۔ بس اللہ پاک سے دعا ہے کہ انہیں اور زیادہ خوشیوں سے ہمکنار فرمائے۔

بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ذرا ڈاکٹر صاحب کا تعارف ہو جائے۔ ڈاکٹر کریم یاسین کے خوبصورت گاؤں مورکہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایف ایس سی کے بعد آغا خان ایجوکیشن سروس میں بحیثیت استاد اپنے سفر کا آغاز کرنے والے ڈاکٹر کریم آج پوسٹ ڈاکٹریٹ کے بعد جس علمی منصب جلیلہ پر فائز ہیں اس کا تذکرہ کالم کے شروع میں ہوچکا ہے۔ ان کے بقول وہ شاہ کریم ہاسٹل گلگت میں تین سال قیام پذیر رہے ہیں۔ شاہ کریم ہاسٹل گلگت کا یہ اعزاز ہے کہ اس علمی درسگاہ نے خطۂ شمال کو ایسے کئی فرزندوں سے نوازا ہے جو آج ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ شاہ کریم ہاسٹل سے فراغت کے بعد وہ انیس سو چھیانوے سے دوہزار عیسوی تک بحیثت مدرس اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ پھر دوہزار عیسوی ہی میں وہ آغا خان یونیورسٹی کراچی سے ایم ایڈ کرنے چلے جاتے ہیں واپسی پر دوہزار دو سے دوہزار چار تک پی ڈی سی این سے منسلک ہوتے ہیں۔ پھر دوہزار پانچ میں وہ پی ایچ ڈی کے لیے دوبارہ آغا خان یونیورسٹی کی یاترا کرتے ہیں اور چار کی سال علمی عرق ریزی کے بعد آغا خان یونیورسٹی کے پہلے پی ایچ ڈی اسکالر کا اعزاز اپنے نام کرتے ہیں۔ بعد ازاں دوہزار نو سے دوہزار بارہ تک آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کے ہیڈ آفس کراچی سے بحیثیت سینئر منیجر اکیڈمکس منسلک ہو جاتے ہیں۔ پھر قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی جب اپنے سکردو کیمپس کا اعلان کرتی ہے ڈاکٹر صاحب کیمپس اکیڈمک کوآرڈینیٹر کی حیثیت سے سکردو کیمپس سے منسلک ہوجاتے ہیں۔ دو ہزار سولہ کو وہ امریکن اسکالرشپ پر امریکہ کی قدیم تاریخی یونیورسٹی مساچوسیٹس (University of Massachusetts) سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنے چلے جاتے ہیں۔ وہاں وہ نہ صرف اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں بلکہ یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی ہیں۔ ایک سال کا عرصہ وہاں گزارنے کے بعد جب وہ واپسی کی راہ لیتے ہیں تو مذکورہ یونیورسٹی انتظامیہ ان کو بحیثیت پروفیسر جاب آفر کرتی ہے لیکن ڈاکٹر صاحب کو دھرتی ماں کی مٹی کی سوندھی سوندھی مہک امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک اور سہولیات سے بھرپور زندگی کو خیرباد کہنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ دوہزار سترہ کو واپس بلتستان پہنچتے ہیں تو کے آئی یو کا سکردو کیمپس بلتستان یونیورسٹی کا روپ دھار چکا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب تب سے اب تک اس یونیورسٹی میں ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی ہذا کے پروفیشنل ڈویلپمنٹ کے ڈائریکٹر کے علمی منصب جلیلہ پر فائز ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ کئی بار پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے لندن یونیورسٹی میں اپنا تحقیقی مقالہ پڑھنے اور پاکستان میں کئی عالمی سیمنارز میں بھی درجن بھر مقالے پڑھنے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ آپ کے درجن بھر ریسرچ پیپرز انٹرنیشنل میگیزینز میں شائع ہوئے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے آپ کے کئی بکس چیپٹرز شائع ہوئے ہیں اور کئی ممالک کے تعلیمی اداروں میں آپ کے مضامین بطور نصاب پڑھائے جاتے ہیں۔ پھر وہی بات کہ؎

کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں

لیکن آپ ان سے ملیں گے تو آپ کو یقین نہیں ہوگا کہ آپ اتنی بڑی علمی شخصیت سے مل رہے ہیں۔ آپ ان سے مل کر اپنی دادی اماں کی کہانی والے شہزادے کو اپنا روبرو پائیں گے وہی نفاست، وہ حلیمی، وہی انکساری، وہی جھکاؤ جو کہانی کے شہزادے کا خاصہ تھیں، یہ ساری صفات آپ کو ان کی شخصیت میں ملیں گی۔ میری خوش نصیبی کہ مجھے بلا ناغہ پڑھنے والوں میں ایسے نفیس علمی لوگ بھی شامل ہیں۔

مولا علی علیہ السلام کا قول ہے کہ علم جس کے سر سے گزر جائے وہ مغرور ہوتا ہے اور علم جس کے اندر سے گزر جائے وہ حلیم۔

ڈاکٹر کریم اور بھابھی شہناز کا اس خوبصورت نشست اور پُرخلوص مہمان نوازی کے لیے از حد شکریہ۔ محترم موکھی محمد جان صاحب کا بھی بہت شکریہ کہ انہوں نے بھی ہمیں اچھا وقت دیا۔ سب سے زیادہ شکریہ اس بات کا کہ انہوں نے آشا اور آذین کی شرارتوں کو برداشت کیا۔

اللہ پاک انہیں شاد و آباد رکھیں۔ آمین!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button