کالمز

’’سیرتِ رسولؐ کی روشنی میں سماجی انصاف اورعمدہ حکمرانی‘‘

(یہ مقالہ شیعہ امامی اسماعیلی طریقہ اینڈ ریلیجس ایجوکیشن بورڈ برائے پاکستان‘فیسلیٹینگ کمیٹی گلگت بلتستان کی طرف سے منعقدہ سیمینار’’سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں سماجی انصاف اور عمدہ حکمرانی‘‘ 9جون2013 کوسیرینا ہوٹل گلگت میں پڑھا گیا۔(ادارہ)

سماج کا مفہوم:۔عربی زبان میں سماج کا معنی ’’معاشرہ ‘‘ اور انگریزی میں ’’Society‘‘کے ہیں۔ جو باب تفاعل عاشر یعاشر سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی باہم مل جل کررہنا ‘جیسے’’اعتشریا تعاشرالقوم‘‘ ایک دوسرے کے ساتھ رہنا(۱)۔انگریزی میں

Social mode of living, A social community.

مثال کے طور پر

Society has a right to expect peaple to obey tha law”.(2) ”

سماج کی تعریفیں مختلف مفکرین نے کی ہے جن میں سے ایک دو کی تعریفیں ہم یہاں نقل کرتے ہیں تاکہ آگے سماجی انصاف اور عمدہ حکمرانی {Social justice and Good governance} جو کہ مقالے کا عنوان ہے کو درست طریقے سے سمجھ سکیں۔ رالف لنٹن(Ralphlinton) نے سماج کو یوں بیان کیا ہے’’افراد کا ایسا گروہ

معاشرہ بن جاتا ہے جو طویل عرصہ ایک جگہ رہ رہا ہو اور اشتراک عمل کی وجہ سے اس حد تک منظم ہوجائے کہ تمام لوگ اپنے آپ کو ایک جسم کی مانند محسوس کریں(۳)۔ ایک اور انگریز مفکر پروفیسرپیٹرک کے مطابق

”Civics is a science dealing only with life and problems of cities” [4]

تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ معاشرہ/ سماج کا مفہوم یا اصطلاح بڑی جامع اور وسیع ہے۔ اس میں افراد کے شعوری اور لاشعوری طور طریقے، ان کے منضبط اور غیر منضبط تعلقات،

تمدنی،تہذیبی اورثقافتی احوال،ان کی محبت و مودت، نفرت، بغض و عداوت اور حسد وکینہ اور ان جیسے دیگر تعلقات و اعمال سب شامل ہیں۔

haqqani logo and pictureمعروف اسلامی مفکر ابن خلدون نے معاشرے کو حیوانی جسم سے تشبیہ دی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کے ابدی اصول وضع کیے ہیں۔ ارسطو نے انسان کو معاشرتی حیوان قرار دیا ہے۔ غرض ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ افراد کا ایک دوسروں کے ساتھ اشتراک و تعاون لاشعوری طور پر نہیں ہوتا بلکہ انسان سوچ سمجھ کراور شعوری طور پر معاشرتی و سماجی تعلقات استوار کرتا ہے۔اگر معاشرے کے افراد کا طرز عمل، رہن سہن کسی ضابطہ اخلاق یا قانون کے پابند نہ ہو اور ان افراد کے اندر کوئی نصب العین اور زندگی کے خاص مقاصد نہ ہوں تو ایسے ہجوم کو قطعاً معاشرہ نہیں کہا جاسکتا یاکم از کم مہذب و متمدن معاشرہ نہیں کہا جاسکتا۔

علامہ سید جمال الدین افغانی کے مطابق’’ انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا گیا، اس سے ترقی یافتہ زندگی بسر کرنے کی توفیق دی گئی ہے یہ زندگی اجتماعی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔ ان سب کے اجتماع کا نام معاشرہ ہے اور معاشر ہ ایک جسم کی مانند ہے‘‘(۵)

سماجی انصاف:Social Justice

سماجی انصاف کو انگریزی میں یوں بیان کیا جاتا ہے:

”The fair and proper administration of laws conforming to the natural law that all person,irrespective of ethnic origin, gender,possession,race, religion,ect…are to be treated equally and without prejudice”(6)

یعنی کہ معاشرے میں بسنے والے تمام طبقات کو یکساں حقوق میسر ہوں۔بغیر امتیاز قوم و نسل، اعلیٰ وادنی ، غریب و امیر اور مسلک و مذہب کے تما م لوگوں کو خوشیاں فراہم کرنا، اور ان کے حقوق کا زیادہ سے زیادہ تحفظ و نگہداشت کرنا اور ان کو تما م انسانی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنا۔اور یہ عمدہ اور انصاف پسند طرز حکمرانی کے سوا بے سود ہے۔

عمدہ طرز حکمرانی:Good Governance

عمدہ طرز حکمرانی کو موجودہ دور میں یوں بیان کیا جاتاہے:

Good governance is an indeterminate term used in international development literature to describe how public institutions conduct public affairs and manage public resources. Governance is "the process of decision-making and the process by which decisions are

implemented (or not implemented)”. The term governance can apply to corporate, international, national, local governance, or to the interactions between other sectors of society.

Good governance to a set of requirement that conform to the organization’s agenda, making "good governance” imply many different things in many different contexts [7]

یہ تو مروجہ نظریہ ہے۔ہم جب سماجی انصاف اور عمدہ حکمرانی کو سیرت رسول صلم اور احکامات الٰہی میں دیکھتے ہیں تو وہاں اس سے بھی ارفع و اعلیٰ انداز میں واضح ارشادات اور احکامات ملتے ہیں۔

اسلام میں عمدہ طرز حکمرانی کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز اللہ جل و علا نے اچھا قرار دیا ہے اور اس کے رسول اور خلفائے راشدین نے اس سے قائم کیاہے وہ اچھی ہے اور جس چیز کو اللہ تبارکت وتعالیٰ اور اس کے حبیب صلم  نے بری قرار دیا ہے وہ بری ہے۔بہترین طرز حکومت اور عمدہ حکمرانی کے مقاصد میں ہے کہ وہ’’ امربالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ یعنی حکومت اچھائی کو پھیلائے اور برائی کو روکے۔اور حکومت کے ساتھ عوام الناس پر پر بھی لازم ہے کہ وہ برائی کو روکے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ’’ من رأی منکم منکراً فلیغیّرہ بیدہ، فان لم یستطع فبلسانہ،فان لم یسطع فبقلبہ، وذالک أضعف الایمان‘‘(۸)’’یعنی: تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے، پھر اگر اُس کی کی استطاعت نہ ہوتو اپنی زبان سے(بدل دے) اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو اپنے دل سے(اُسے برا سمجھے)‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ الصلواۃ والسلام کو سماجی انصا ف کے قیام کے لیے خلافت ارضی سے نواز تھا۔قرآن کریم میں ارشاد ہے’’ یاداؤد انا جعلنک فی الارض خلیفۃ، فاحکم بین الناس بالحق ولا تتبع الھویٰ فیُضلّک عن سبیل اللہ‘‘(۹) یعنی:’’اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے، اس لیے تم لوگوں کے درمیان حق کا فیصلہ کرو، اور خواہش کے پیچھے نہ چلو، ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیگی‘‘۔

آپ صلم کا مکتوب گرامی

نبی اکرم شفیع اعظم جناب محمد مصطفی صلم نے کوہ تہامہ کو ایک مکتوب گرامی تحریر فرمایا:

بسم اللہ الرحمان الرحیم

*…من محمد رسول اللہ صلم کی طرف سے …………………………………….خدا کے آزاد بندوں کے نام

’’ جو لوگ اللہ پرا ور اس کے رسول صلم پر ایمان لائیں، نماز پڑھیں اور زکواۃ ادا کریں وہ غلامی سے آزاد ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حاکم ہیں۔ ان کو نجران کے قبیلوں میں واپس نہیں کیا جائے گا،اور نہ ہی سابقہ جرائم پر ان سے کوئی باز پرس کی جائے گی۔ ان لوگوں پر کسی قسم کی ظلم اور زیادتی نہیں کی جائے گی۔مذکورہ بالا امور پر ان لوگوں کے لیے جو اسلام لائیں، اللہ اور محمد صلم کی ذمہ داری ہی ہے‘‘ (۱۰)۔

اللہ تعالی کے حکم اور آپ صلم کے اس مکتوب مبارک سے یہ سمجھ آجاتا ہے کہ اللہ کی زمین پراللہ کا نظام قائم کیا جائے،جس سے عوام النا س کو سماجی انصاف مل سکے، رعایا کے

ساتھ عدل و انصاف والا معاملہ کیا جائے اور اس پر اسلامی حکومت کی طرف سے کسی بھی قسم کا ظلم و ستم،زیاتی اور سماجی ناانصافی والا معاملہ نہ کیا جائے۔آپ صلم کے اس خط سے واضح ہوجا تا ہے کہ سماجی انصاف کی فراہمی اور رعایا کو ظلم و ستم سے محفوظ رکھنا اسلامی نظام حکومت کے بنیادی اور اہم مقاصد میں شامل ہیں۔

اسلام میں سماجی انصاف اور بنیادی حقوق کا تصور:۔ اسلام نے سماجی انصاف، انسانی بنیادی حقوق اور معاشرے میں قیام عدل کا تصور اس وقت پیش کیا جب یہ تما م باتیں باقی دنیا اور انسانیت کے لیے بالکل اجنبی تھیں۔مدینہ کی اولین اسلامی ریاست میں سماجی انصاف کو اولین ترجیح دی گئی اور بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم کرلیا گیا تھا۔ اسلا م ہر فرد پر مکمل ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ دوسروں کی مال جان، عزت و آبرو ،غرض ہر چیز کا احترام کریں۔ اسلام کے یہ احکامات و فرامین افراد، معاشرے اور حکومت وریاست سب پر یکساں لاگو ہوتے ہیں۔

اسلام نے انسان کے تمام بنیادی حقوق بدرجہ اتم قبول کیے ہیں بلکہ ان کو پورا کرنے کے واضح احکامات بھی صادر فرمایا ہے۔

۱…حقِ زندگی ……..[Protection of life]

۲…شخصی آزادی کا حق………[Right to personal freedom]

۳…خاندانی زندگی کا حق………[Right of family]

۴…حقِ مساوات……..[Right of equality]

۵…آزادی رائے کا حق……..[Right To express]

۶…حقِ روز گار………[Right to livelihood]

۷…تحفظ ملکیت……[Protection of property]

۸…مذہب و عقائد کا حق……[Religious rights]

۹…حقِ انصاف……..[ Right to jistice]

۱۰…سماجی و سیاسی حقوق………[Political and Social rights]

اسلام نے تعلیمی حقو ق کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ حصول تعلیم کو فرض قرار دیا ہے۔اسلام ایک ایسا بہترین نظام وضع کرتا ہے جو سماجی انصاف، قیام امن و عدل اور دیگر تمام حقوق کی پوری ضمانت دیتا ہے۔طوالت سے بچنے کے لیے ماقبل میں بیان کردہ ایک دو حقوق کے حوالے سے قرآنی دلائل پیش کرتے ہیں ورنہ تو قرآن حدیث، سیرت رسول صلم اور سیرت خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔تحفظ زندگی و حق زندگی کے حوالے سے اللہ کا ارشاد ہے’’من قتل نفساً بغیر نفس او فساد فی الارض ،فکانما قتل الناس جمیعا‘ ومن احیاھا فکانّما احیا الناس جمیعا‘‘(۱۱) یعنی: جس نے کسی متنفس ،کے بغیر اس کے کہ اس نے قتل نفس کا ارتکاب کیا ہو یا زمین میں فساد انگیزی کی ہو، قتل کردیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے اس سے زندہ رکھا تو اس نے گویا تمام انسانوں کوزندہ کھا‘‘۔حق ملکیت

اور تحفظ جائیداد کے لیے بھی اللہ کا حکم صاف واضح ہے’’ لاتاکلوا اموالکم بالباطل‘‘(۱۲) یعنی باطل طریقے سے ایک دوسروں کا مال نہ کھاؤ‘‘۔خطبہ حجۃ الوداع میں بھی آنحضرت صلم نے ارشاد فرمایا کہ خبرادار! تمہاری زندگیاں اور تمہارے مال اس طرح تم پر قابل احترام ہیں جس طرح کہ آج کا یہ دن واجب الاحترام والتکریم ہے۔

سماجی انصاف کے لیے اسلام نے بڑے واضح اور جامع قوانین پیش کیے ہیں (آئندہ مزید وضاحت ہوگی) تاکہ عوام کی مال و جان، عزت وآبرو اور دولت وغیرہ ڈاکہ اور چوری سے محفوظ رہ سکے۔یہ ڈاکہ ڈالنے والے چاہیے انفرادی طور پر ہوں یا اجتماعی طور پر۔ سرکاری و ریاستی سطح پر ہوں یا بین الاقوامی سطح پر، جیسا کہ عام مشاہدے میں آرہا ہے۔ آج مغرب سے لے کر مشرق تک ، شمال سے لے کرجنوب تک ہرجگہ سماجی نا انصافیاں عروج پر ہیں۔نہ انسان کی جان محفوظ ہے نہ مال ، نہ سیادت و ریاست محفوظ ہیں ۔ہر سو تباہی و بربادی کے مناظر ہیں۔بالخصو ص مسلم ریاستوں میں بڑی طاقتوں کی طرف سے ظلم و جبرکاایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ صدیوں پر محیط ہے۔

امام الحرمین کے نزدیک عمدہ حکومت کے مقاصد: ۔ سماجی انصاف کے لیے عمدہ نظام حکومت بہت ضروری ہے۔اما م الحرمین نے بہترین حکمرانی کے لیے قرآن وسنت اور سیرت طیبہ ؑ کی روشنی میں درج ذیل مقاصد بیان کیے ہیں۔

۱…حفظۃ الحوزۃ……..مرکز اسلام کی حفاظت

۲…رعایۃ الرعیۃ……..رعیت وعوام کی نگرانی

۳۔…. اقامت دعوت دلائل و براہین اور طاقت کے ساتھ

۴۔…خوف اور ظلم کو روکنا

۵۔…ظالموں سے مظلوموں کو انصاف دلانا اور حقوق چھیننے والوں سے حقوق لے کر مستحقین کو دینا(۱۳)

حضرت شاہ اسماعیل شہید کے نزدیک عمدہ حکمرانی:۔ شاہ صاحب ؒ حضرت شاہ ولی اللہ کے فرزند ارجمند ہیں۔انہوں نے عمدہ حکمرانی کو یوں بیان کیا ہے۔’’باید دانست کہ سیاست دریں مقام عبارت است، ازتربیت بندگان الٰہی برقانون اصلاح معاش و معاد بطریق امامت و حکومت‘‘(۴ا) یعنی:سیاست سے مراد بندگان الہٰی کی اصلاح معاش و معاد کے قوانین کے مطابق امامت و حکومت کے طریقے سے ترتیب کرنا ہے‘‘۔

میثاق مدینہ،بہترین حکمرانی اور سماجی انصاف کے لیے یاد گاہ معاہدہ:۔ مدینہ منورہ میں پہنچ کرآنحضرت صلم نے سماجی انصاف اور معاشر ے میں قیام امن کے لیے جملہ اقوام سے ایک عمرانی معاہدہ بین الاقوامی اصول پر کیا تاکہ معاشرتی اور مذہبی اختلافات اور تنازعات میں قومی وحدت قائم رہے۔اور سماجی انصاف کا قیام ہوسکے۔ اس معاہدہ میں مختلف مسالک، مذاہب زبان و نسل اور علاقہ کے لوگوں کے درمیان قیام امن اور آشتی کے ساتھ رہنے کے لیے بہترین رہنمائی ملتی ہے۔اس معاہدے کے جستہ جستہ فقرے یہ ہیں۔

۱…انہم امۃ واحدۃ…………یہ سب لوگ ایک ہی قوم سمجھے جائیں گے۔

۲… وان بینہم النصح و النصیحۃ والبر دون الاثم…….معاہد ہ اقوم کے باہمی تعلقات، باہمی خیرخواہی، خیراندیشی اور فائدہ رسانی کے لیے ہونگے ضرر اور گناہ کے نہ ہونگے۔

۳…وأن النصر للمظلوم…… مظلوم کی مدد ونصرت کی جائے گی۔

۴۔وان یثرب حرام جرفہا لاہل ہذہ النصیحۃ..مدینے کے اندر کشت و خون کرنا اس معاہدے کرنے والے سب قوموں پر حرام ہے۔(۱۵)

موجودہ دور میں گڈ گورننس (Good governance)کی اصطلاح چلی ہے۔گڈ گورننس اور اچھی طرز حکمرانی کی بے شمار مثالیں اسلامی تاریخ کے صفحات سے بھری پڑی ہیں۔ ہم ایک مثال عرض کیے دیتے ہیں۔علامہ کوثرنیازی صاحب لکھتے ہیں:

’’امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ گشت کررہے تھے کہ انہوں نے ایک غیر مسلم کو دیکھاجو بھیک مانگ رہا تھا۔ آپؓ نے اس سے پوچھا، تم بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ اب میں کمانے کی سکت نہیں رکھتا، امیرالمؤمنین نے یہ سن کرفرمانے لگے کہ’’ افسوس ہے عمرؓ پر جس سے اس کی جوانی کے زمانے میں جزیہ تو لیا لیکن بوڑھا ہوگیا تو اس سے اپنے حال پر چھوڑ دیا‘‘ حکم دیا کہ اس کا وظیفہ بیت المال سے مقرر کیا جائے(۱۶)۔

اس واقعہ سے ہم آسانی کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ مسلمان حکومت غیر مسلموں کے ساتھ جس رواداری اور سماجی انصاف دینے کے فراخدالانہ مظاہرہ کررہی ہے دنیا کا کوئی دوسرا نظام حکومت اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔

مسلم ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق: ۔ سماجی انصاف مہیا کرنے میں مسلم ریاست اور مسلمان حکومت و حکمرانوں کے نزدیک مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں، اگر ایک مسلمان کسی ذمی(غیر مسلم ) کو قتل کرڈالے تو فقہ حنفی کے رو سے اس مسلمان کو قصاص میں قتل کردیا جائے گا۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہوگا کہ قاتل مسلم ہے اور مقتول غیر مسلم ہے کہہ کر کوئی ناانصافی کی جائے یا امتیاز روا رکھا جائے۔آنحضرت صلم نے فرمایا’’ من قتل معاھداً لم یرح رائحۃ الجنۃ‘‘(۱۷)یعنی: ’’ ذمی کو قتل کرنے والا مسلم کبھی جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا‘‘۔ جان بہت عزیزچیز ہے ۔اسلام نے تو غیر مسلموں کی شراب، صلیب اور سور(خنزیر) کے گوشت تک کو نقصان نہ پہنچانے کا حکم دیا ہے۔فتاویٰ عالمگیری اور بدائع الصنائع فی الترتیب الشرائع میں مذکور ہے کہ’’ولو اتلف مسلم أو ذمی علی ذمی خمراً اور خنزیراًً یضمن‘‘ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی(غیر مسلم) کی شراب ضائع کریں یا کسی عیسائی کی صلیب توڑ دیں تو بطور جرمانہ اس سے شراب اور صلیب کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔(۱۸)

معاہدہ بیت المقدس‘ذمی رعایا کے حقوق کی مقدس دستاویز:۔ حضرت عمرؓ نے بیت المقدس کے فتح کرنے کے بعد وہاں کے شہریوں سے ایک معاہدہ کیا۔ذمیوں کو جو سماجی حقوق حضرت عمرؓ نے عطا کیے وہ اس زمانے کی غیرمسلم سلطنتیں غیر قوموں کے لیے سوچنا بھی ناگوار کرتیں تھی۔بیت المقد س کا معاہدہ خود حضرت عمرؓ کے الفاظ میں ترتیب دیا گیا،اس کے چند جملے یہاں درج کیے جاتے ہیں۔

’’ہذا مااعطی عبداللہ عمر امیر المؤمنین اھل ایلیا من الامان اعطاھم امانا لِأنفسہم واموالہم وکنا یسہم وصلبانہم وسقیمہا وبریھا و سایرملتہا انہ لایسکن کنایسہم ولاتہدم ولا ینتقض منہا ولا من خیرھا ولامن صلبہم

ولامن شئی من اموالہم ولایکرھون علی دینہم ولا یضار احدہم‘‘یعنی:’’یہ وہ امان ہے جواللہ کے غلام امیر المؤمنین عمر نے ایلیا کے لوگوں کو دی‘ یہ امان ان کی جان ومال‘ گرجا‘ صلیب‘تندرست‘بیمار اوران کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے اس طرح کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کی جائے گی ‘ نہ ڈھائے جائیں گے‘ نہ ان کو یا نہ ان کے احاطے کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا۔نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں ان پرجبر نہ کیا جائے گا اور نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا‘‘۔(۱۹)

غیرمسلم رعایا کے شرائط کو پورا کرنے کا حکم:۔ حضرت عمرؓ نے شام کی فتح کے بعد حضرت ابوعبیدہؓ کو غیرمسلم رعایا کے حوالے سے جو خصوصی حکم جاری کیا اس میں یہ یادگار اور بے مثا ل الفاظ مرقوم تھے’’وامنع المسلمین من ظلمہم والاضراربہم واکل اموالہم الا بحلہا ‘ ووفّ لہم بشرطہم الذی شرطت لہم فی جمیع مااعطیتہم‘‘یعنی’’مسلمانوں کو منع کرنا کہ ذمیوں پر ظلم نہ کرنے پائیں‘ نہ ان کو نقصان پہنچائے‘ نہ انکے مال بے وجہ کھانے پائیں اور جس قدر شرطیں تم نے ان سے کی ہیں سب وفا کرو‘‘۔(۲۰)

مفکراسلام مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی تحقیق:۔ مفکراسلام ابوالحسن علی ندویؒ عالم عرب میں بڑے مقبول و معروف ہیں۔وہ اسلامی معاشرے اور مسلم حکمرانوں کے حوالے سے رقم طراز ہیں’’ اسلامی معاشرے میں مختلف طبقے شیرو شکر ہوگئے تھے۔ وہ ایک دوسرے کا سہارا بن گئے تھے۔ مرد عورتوں کے ذمہ دار اور منتطم تھے۔ عورتیں نیک، وفاشعار اور امانت دار تھیں۔ ان کے حقوق مردوں پر اور مردوں کے حقوق ان پر تھے‘‘(۲۱)۔

عمدہ حکمرانی کے لیے چند اصول:۔ بہترین طرز حکومت اور مثالی حکمرانی کے لیے یہاں چند اصول بیان کیے جاتے ہیں، اگرچہ یہ موضوع کافی تفصیل طلب ہے مگر اختصار کے ساتھ یہ باتیں موقع محل ہیں،سیرت طیبہ کی روشنی میں جو بھی حاکم یا سربراہ مملکت بنے گا اس منصب کے اہم تقاضے ہوتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں تھوڑا اقتدار مل جائے تو اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھتے ہیں۔ حاکم اللہ تعالیٰ کا نائب ہوتا ہے۔ حاکم یاخلیفہ سے مراد(نعوذبااللہ) خداکی جگہ انتظام چلانے والا ہرگز نہیں، بلکہ حاکم یا خلیفہ سے مراد رب ذوالجلال کے بنائے ہوئے قوانین اور رسول اللہ صلم کی سنت کے مطابق مملکت کا نظم و نسق چلانا ہوتا ہے۔ وزاء‘ گورنرز،اور دیگر ارباب اختیار کے فرائض و ذمہ داریاں اور اختیارات پر حضرت عمرؓ نے بارہا خطبے دیے۔ایک خطبے میں عاملوں(یعنی وزاء‘ مشیر‘ گورنرز‘اور دیگر صاحب اقتدار واختیار)کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا’’یاد رکھو کہ میں نے تم لوگوں کو امیر اور سخت گیر مقرر کرکے نہیں بھیجا ہے بلکہ امام بنا کر بھیجا ہے کہ لوگ تمہاری تقلید کریں۔تم لوگ مسلمانوں کے حقوق ادا کرو۔ان کو زدکوب نہ کرو ۔ ان کی بے جا تعریف نہ کرو کہ غلطی میں پڑیں۔ ان کے لیے اپنے دروازے بند نہ رکھو کہ زبردست کمزوروں کو کھا جائیں ۔ان سے کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح نہ دوکہ یہ ان پر ظلم کرنا ہے‘‘(۲۲)۔اصول ملاحظہ ہو:

۱…قرآن و سنت کے تابع ہونا:۔ انتہائی اہم بات یہ ہے کہ حاکم اپنے تمام احکامات‘افعال واعمال اور اقدامات میں قرآن و سنتِ رسول اور اجماعِ امت کا پابند ہوگا۔حاکم کے لیے بالکل کسی بھی قسم گنجائش نہیں کہ وہ قرآن وسنت اور اجماعِ امت کے خلاف کسی بھی قسم کا کوئی قانون بنائے اور قانونی اقدام کرے۔اگر حاکم /ارباب

اقتدار یا کوئی مقتدر طبقہ کوئی فیصلہ یا اقدام اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام وسنت رسول اللہ کے خلاف کرے گاتو وہ سراسر ظلم ہوگا۔انصاف کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔چنانچہ قرآن میں واضح ارشاد ہے’’ ومن لم یحکم بماانزل اللہ فاولئک ہم الظالمون‘‘(۲۳) یعنی جو لوگ ان احکام کے مطابق فیصلہ (امورمملکت نہ چلائے) نہ کریں جو اللہ نے نازل فرمائے ہیں،تو وہ لوگ ظالم ہیں‘‘۔

۲…حاکم کاشوریٰ سے مشورہ لینا:۔ فقہ اسلامی کے نزدیک سربراہ مملکت کو شوریٰ سے مشورہ کرنا واجب ہے،اقتدار حاصل ہونے کے بعد تو حاکم یا خلیفہ پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی شوریٰ سے تمام امور میں مشورہ کرے، فقہاء کرام کے نزدیک جو بھی حاکم سرکاری امور چلانے میں مشورہ نہیں کرتا یا لیتاوہ معزولی کا مستحق ہے۔قرآن کریم میں بھی ارشاد ہے’’ وشاورہم فی الأمر،فاذا عزمت فتوکل علی اللہ‘‘(۲۴)یعنی:’’ان(مسلمان عوام یارعیت) سے مشورہ کیاکرو، پھر جب تم عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو‘‘۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ بتا تاہے کہ آپ بہت زیادہ مشورہ کا اہتمام فرماتے تھے۔مشورہ آپ صلم کی عادت ثانیہ بن گئی تھی۔ آپ صلم اکثرمعاملات میں صحابہ کرامؓ سے مشورہ فرمایاکرتے تھے۔حضرت ابورھریرہؓ سے روایت فرماتے ہیں’’مارأیت أحداً قطّ أکثر مشورۃ لأصحابہ من رسول للہ صلم‘‘(۲۵)یعنی:’’میں نے رسول اللہ سے زیادہ کسی کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے والا نہیں دیکھا‘‘۔

۳…عدل و انصاف کا قیام: ۔ عدل و انصاف اسلامی معاشرے کا ایک اہم اور بنیادی ستون ہے۔عدل و انصاف ہی کی وجہ سے ہی حقدار حق پالیتا ہے اور مجرم سزا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے’’واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل‘‘(۲۶) یعنی:’’ جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔ایک اور جگہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’وان حکمتم فاحکم بینہم بالقسط، ان اللہ یحب المقسطین‘‘(۲۷) یعنی:’’اور اگر تم ان کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ ابی و امی و ارثی و نفسی ) کا ارشاد گرامی ہے کہ’’انما أھلک الذین قبلکم أنہم کانوا اذا سرق فیہم الشریف ترکوہ واذا سرق فیہم الضعیف أقاموا علیہ الحد.وأیمُ اللّہ أنّ فاطمۃ بنت محمّد سرقت لقطعت یدھا‘‘(۲۸)یعنی:’’ جو لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں، انہیں اسی چیز نے ہلاک کیا کہ جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے، اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر سزاجاری کردیتے، اور اللہ کی قسم اگرمحمد( صلم) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کریگی تو میں اس کا ہاتھ بھی ضرور کاٹوں گا‘‘۔

مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب رقم طراز ہیں’’چنانچہ اسلامی حکومت کی تاریخ میں ایسی بہت سی تابناک مثالیں موجود ہیں کہ سربراہ حکومت پر نہ صر مقدمہ چلایا گیا ، بلکہ قاضی نے اس کے خلاف فیصلہ دیا۔حضرت علی ؓ کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ جب و ہ امیرالمؤمنین تھے، اس وقت قاضی شریح ؒ نے ایک یہودی کے مقابلے میں ان کے خلاف فیصلہ دیا۔حضرت علی ؓ کی ایک زرہ گم ہوگئی تھی۔آپؓ نے ایک یہودی کے پاس دیکھی جو اسے بیچنے کی کوشش کررہا تھا۔لیکن یہودی نے کہا کہ یہ تو میری زرہ ہے اور میرے قبضے میں ہے۔چنانچہ معاملہ قاضی شریح رحمۃ اللہ کی عدالت میں پہنچا۔قاضی شریح رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے گواہ مانگے۔حضرت علیؓ نے ایک گواہ قنبر کو پیش کیا اور دوسرے گواہ کے طور پر اپنے

بیٹے کو پیش کیا۔حضرت قاضی شریح ؒ نے فرمایا کہ بیٹے کی گواہی اپنے باپ کی حق میں قبول نہیں ہوتی ہے۔ چنانچہ یہودی کے حق میں فیصلہ کردیا‘‘(۲۹)۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ کا بے لاگ عدل وانصاف مشہور ہے۔صدیاں گزرنے کے بعد بھی آج تک ان کے عدل و انصاف کی گواہیاں دی جاتی ہیں۔ یہ گواہیاں دینے والے مسلم بھی ہیں اور غیر مسلم بھی۔ علامہ شبلی نعمانی ؒ نے لکھا ہے کہ’’سب سے بڑی چیز جس نے ان(عمرؓ) کی حکومت کو مقبول عام بنا دیا اورجس کی وجہ سے اہل عرب ان کے سخت گیر احکام کو بھی گوارا کرلیتے تھے ‘ یہ تھی کہ ان کا عدل وانصاف ہمیشہ بے لاگ رہا،جس میں دوست‘دشمن کی تمیز نہ تھی۔ ممکن تھا کہ لوگ اس بات سے ناراض ہوتے کہ وہ جرائم کی پاداش میں کسی کی عظمت و شان کامطلق پاس نہیں کرتے لیکن جب لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ خاص اپنی آل واولاد اور عزیز و اقارب کے ساتھ بھی ان کا یہی برتاؤ ہے تو لوگوں کو صبر آجا تھا۔ ان کے بیٹے ابوشحمہ} ابوشحمہ کے قصے میں واعظوں نے بڑی رنگ آمیزیاں کی ہیں لیکن اس قدر صحیح ہے کہ حضرت عمرؓ نے ان کو شرعی سزا دی اوراسی صدمہ سے انہوں نے انتقال کیا‘دیکھو معارف بن قتیبہ،ذکر اولاد عمرؓ{ نے جب شراب پی توخود اپنے ہاتھ سے ان کو ۸۰(اسی) کوڑے مارے اوراسی صدمے سے وہ بیچارے قضا کرگئے۔قدامہ بن مظعون ؓ جو ان کے سالے اور بڑے رتبے کے صحابی تھے‘ جب اسی جرم میں ماخوذ ہوئے تو اعلانیہ ان کو ۸۰ درے لگوائے۔(۳۰)۔

آج ہم اپنے اردگرد نظریں دوڑاتے ہیں تو ہمیں اس کے بالکل برعکس نظر آتاہے۔ دعویٰ کی حد تک تو سب کرتے ہیں مگر عملی طور پر ایسا دکھائی نہیں دیتا ہے۔ہر حاکم اور ہر نظام حکومت زبان و بیان سے تو انصاف اور عدل کی بات کررہا ہوتا ہے اورڈھنڈورا پیٹ رہا ہوتا ہے۔ اس نے جو بھی جائز ناجائز طریقہ اختیار کیا ہوا ہے اس سے برحق اور انصاف پر مبنی سمجھتا ہے۔ اور اس پر مصر بھی ہوجاتا ہے لیکن عدل و انصاف کے ساتھ ان کا دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا ہے۔آج کی جدید جمہوریت کا تو نعرہ ہی انصاف اور مساوات ہے لیکن عملی طور پر جمہوریت کی تمام اقسام میں سربراہ مملکت اور دیگر اہم شخصیات کواستشنٰی کے نام پر وہ کھلی چھوٹ مل جاتی ہے کہ الامان و الحفیظ۔آج کی جمہوری سلطنتوں کے آئین اور قوانین میں لکھا ہوتا ہے کہ سربراہ مملکت پر کسی بھی کسی کا کوئی مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا ہے۔قانون او رآئین کی رو سے ہی وہ بری الذمہ قرار پاتا ہے بلکہ آئین اسی کا محافظ بن جاتا ہے۔یہی بات اسلام کے تصور انصا ف و نظام عدل کے سراسر مخالف اور متضاد ہے۔اسلام میں کسی کو کوئی استشنیٰ حاصل نہیں۔

۴…نقص امن کی ممانعت/قیام امن: ۔ اسلام کا سیاسی نظام قیام امن پر بے حد زور دیتا ہے۔امن کی غیر موجودگی میں پورے معاشرے کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے۔معاشرتی امن ہو تو معاشرے میں پیار و محبت، مساوات ،حقوق کی حفاظت اور عدل و انصاف ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے’’ ولا تفسدو ا فی الارض بعد اصلاحہا‘‘(۳۱) یعنی :’’کسی سرزمین میں اصلاح ہوجانے کے بعد خرابی نہ کرو‘‘۔ اگر کوئی خرابی کریں، حکومتی رٹ کو چیلنچ کریں اور لااینڈ آرڈر کا خیال نہ کریں تو مسلم حکمرانوں اور اسلامی ریاست کافریضہ ہے کہ وہ اس سے بزرو طاقت روکے اور امن اور قیام امن میں خلل ڈالنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے۔

۵…ظلم وستم سے بچنا/ظلم باعث زوال ہے:۔ معاشرے کے تمام افراد کے ساتھ یکساں سلوک ہوناچاہیے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کافرمان گرامی ہے کہ کافر کے ساتھ حکومت چل سکتی ہے مگر ظالم کے ساتھ نہیں۔قرآن کریم کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جن اقوم و ملل نے ظلم کیا ،جن بادشاہوں اور حکمرانوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور جن معاشروں میں ظلم پروان چڑھتا رہا ان کو بالاخر زوال آگیا۔تباہی و بربادی اور ذلت ورسوائی ان کا مقدر بن گیا۔ ارشاد باری ہے’’ وکم قصمنا من قریۃ کانت ظالمۃ وانشانا بعد قوماً آخرین‘‘ (۳۲) ۔یعنی: ’’ اور ہم نے بہت سی بستیاں جہاں کے رہنے والے ظالم (کافرتھے) غارت کردی اور ان کے

بعد دوسری قوم پیدا کردی‘‘ .آج مسلم دنیا بالخصوص پاکستان اس حوالے سے کمزور دکھائی دے رہا ہے۔ہر اس آدمی کی عزت کی جاتی ہے جو ظلم اور ستم کو روا رکھتا ہے۔انسانوں کا قتل کرنا اس کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔وہ اپنی طاقت اور مال و متاع کے زعم میں ظلم وستم اور بربریت کے نئے نئے باب قائم کرتا جا تا ہے مگر اس سے پوچھنے والا کوئی نہیں۔بڑے بڑے مجرم دندناتے پھرتے ہیں۔ان ظالموں نے غریب رعایا پر ہر قسم کا ظلم یعنی قتل، معاشی،سماجی اور تعلیمی اور عدالتی ظلم روا رکھا ہوا ہے،پھربھی وہ معزز اور صاحب اقتدار ہیں۔

۶…دنیاوی جاہ ومنصب کی وجہ سے روزجزا کو نہ بھولنا: ۔ یہ ذہن میں رہے کہ حاکم بننا اتنا ضروری نہیں کہ اس کے لیے باقاعدہ جدوجہد کی جائے۔یہ ایک عظیم ذمہ داری ہے جس سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔ہاں اگر اشد ضرورت یعنی اسلامی معاشرہ کی اشد ضرورت کی وجہ سے کسی پر یہ ذمہ داری آجائے تو اس میں امانت اور دیانت کے ساتھ ذمہ داری سمجھ کر امور مملکت نبھانے چاہیے۔ آپ صلم کا فرمان مبارک ہے’’ الامام راع و مسؤل عن رعیتہ‘‘(۳۳)۔حضرت ابو ذر غفاریؓ ایک جلیل القدر صحابی تھے۔ ایک دفعہ پیارے آقا کی خدمت میں خواہش ظاہر کی مجھے کسی جگہ حکومت دے دی جائے۔ اس پر پیارے آقا صلم نے کیا خوبصورت ارشاد فرمایا:’’یا اباذرّ! انّک ضعیف،انہا امانۃ،ویوم القیامۃ خزی وندامۃ، الاّ من أخذہا بحقہا وأدّی الذی علیہا فیہا‘‘(۳۴) یعنی ’’ اے ابوذر! تم ایک کمزور آدمی ہو،اور یہ (حکومت و سیادت) ایک امانت ہے اور روز جزاء پریشانی اور پیشمانی ہے، الا یہ کہ کوئی شخص برحق طریقے سے یہ امانت لے، اور اس پر اس کے جو حقوق عائد ہوجاتے ہیں و ہ پورے پورے ادا کرے‘‘۔ ہمارے ہاں تو معاملہ بالکل الٹ ہے۔ ہم حصول اقتدار کے لیے باقاعدہ قتل و غارت اور لعن وطعن کا بازار گرم کیے رکھتے ہیں۔پروپیگنڈہ ایک عام سی روایت بن چکی ہے جس میں دوسرں کی تضحیک لازمی ہے اور اقتدار کے حصول کے بعد مزید شیر ہوکرروز آخرت کو بھی بھول جاتے ہیں۔چند دنوں کی جاہ و جلال اور اقتدارو اختیار کے لیے اصلی اور اخروی زندگی کی نہیں بھولنا چاہیے۔اگر ایسا ہوا تو انجام قارون سے مختلف نہ ہوگا۔ہمیں فرعونیت اور قارونیت سے حتی الوسیع بچنا چاہیے۔ اللہ رب ذوالجلال کا صاف فرمان ہے کہ’’ ولاتنس نصیبک من الدنیا‘‘(۳۵) یعنی اے قارون! تو دنیا کے گھمنڈ میں آکر اپنے نجات کا حصہ(آخرت میں لیجانا) کو فراموش نہ کر‘‘

۷…سماجی انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا:۔ اقوام و ملل اور مذاہب عالم کے تقابلی مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام سماجی انصاف کی فراہمی اور معاشرتی مساوات کا سب سے بڑا علمبردار ،قائل اورسچا داعی مذہب ہے۔ اسلام نے معاشرے میں موجود تمام انسانوں کو ایک جیسا مقام سے نوازا ہے۔ اسلام میں رنگ و نسل، قوم و قبیلہ،ذات پات، دولت و ثروت،اختیار و اقتدار، عرب وعجم،غریب و امیر، کالاو گورا،گلگتی بلتی،پختون پنجابی،سندھی بلوچی وغیرہ وغیرہ ہونے پر کوئی خصوصی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ اور نہ ہی مرتبہ و شرف کو کسی بنا پرتقسیم کیا ہے بلکہ اس کے تقسیم کا واحد قاعدہ واصول صرف اور صرف ’’تقویٰ و للہیت‘‘ پرقائم ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے’’یا أیہا الناس انّا خلقنکم من ذکرِِ و انثیٰ وجعلنکم شعوباو قبائل لتعارفوا،ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم‘‘(۳۶) یعنی ’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرداور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔اور تم کو مختلف شاخوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسروں کو پہچان سکو، اللہ کے نزدیک زیادہ متقی ہی عزت والا ہے‘‘۔ان احکام کی روشنی میں سماجی انصاف کا قیام ایک اچھے حاکم بننے کے لیے ضروری ہے۔ جب تک و معاشرے کے تمام طبقات کو ایک نظر سے نہیں دیکھتا بلکہ کسی خاص وجہ سے کسی کو ترجیح

دیتا ہے تو یہ اس معاشرہ اور حاکم دونوں کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔اچھا اور برا ہونا اور انسانیت کا احترام خدائی قوانین اور سیرت نبوی صلم کے مطابق ہونا چاہیے نہ کہ ذاتی خواہش کے مطابق۔ انصاف کی فراہمی کے لیے خدا کا حکم اور رسول کا طریقہ سامنے رکھنا چاہیے اور اپنے اعزہ،احباب،ہم مسلک اور ہم زبان لوگوں کی خواہشات کے مطابق احکامات صادر نہیں کرنے چاہیے،خدا کا ارشاد ہے’’فاحکم بینہم بماانزل اللہ والاتتبع أھواءھم‘‘(۳۷)۔یعنی:’’لہذا ان کے درمیان اس حکم کے مطابق فیصلہ کرو جواللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ اور ان لوگوں کی خواہش (یعنی ان کی پسند اورناپسند اور ناجائز مطالبات ) کے پیچھے مت چلو‘‘۔

عمدہ حکمرانی کے لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے رہنما اصول:۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے مصر کے گورنرمالک اشتر کو ایک طویل خط تحریر کیا۔یہ صرف ایک خط نہیں بلکہ نہایت قیمتی دستاویز ہے۔امیرالمؤمنین نے نہایت اختصار اور فصاحت و بلاغت کے ساتھ حکمرانی‘ سیاست و سیادت اور سماجی انصاف اور قیام عدل کے جامع اصول وضع کیے ہیں۔چند جملے درج کیے دیتے ہیں۔

۱۔’’ثم اختر للحکم بینَ النّاس أفضل رعیّتک فی نفسک ممّن لاتضیق بہ الامور ‘ ولا تمحکہ الخصومۃ، ولایتمادی فی الذّلۃ ولایحصر من لفیءِ الی الحق اذا عرفہ ، ولا تُشرفُ نفسَہ علی طمع،ولایکتفی بادنیٰ فہم دن أقصاہ، واوقفہم فی الشّبہات وآخذہم بالحجج‘‘یعنی ’’ پھر ملک میں انصاف قائم کرنے کے لیے ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا جو تمہاری نظر میں سب سے افضل ہوں، ہجوم معاملات سے تنگ دل نہ ہوتے ہوں،اپنی غلطی پر اَڑے رہنا ٹھیک نہ سمجھتے ہوں‘ اور حق کے ظاہر ہونے کے بعدباطل سے چمٹے نہ رہتے ہوں۔طمع نہ ہوں، اپنے فیصلوں پر غور کرنے کے عادی ہوں، فیصلے کے وقت شکوک و شبہات پررکنے والے ہوں،صرف دلائل کو اہمیت دیتے ہوں۔‘‘(۳۸)

۲…’’ ان شرّ وزُرائک مَن کان للاشرار قبلک وزیراً، ومَن شرکہم فی الاثام فلایکوننّ لک بطانۃً، فانّہم أعوانُ الاثمۃِ واخوان الظّلمۃِ، وأنت واجدُُ منہم خیرَ الخلف ممّن لہ مثلُ آراۂم و نفاذِ ہم ،ولیس علیہ مثل آصادہم وأوزادہم ممن لم یعاون ظالماً علی ظلمہ و آثماً علی اثمہ ‘‘ یعنی:’’بدترین وزیر وہ ہے جو شریروں کی طرف داری کرے اور گناہوں میں ان کا ساتھی ہو۔ ایسے آدمی کو اپناوزیر نہ بنانا۔کیونکہ اس قسم کے لوگ گنہ گاروں کے مددگار اور ظالموں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان کی جگہ تمہیں ایسے آدمی مل جائیں گے جو عقل و تدبیر میں ان کے برابر ہونگے مگرگناہوں سے ان کی طرح لدے نہ ہونگے۔نہ کسی ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کی ہوگی،نہ کسی گناہ گار کا اس کے گناہ میں ساتھ دیا ہوگا‘‘۔(۳۹)

۳…’’ وان افضل قُرّۃِ عین الولاۃِ استقامۃ العدل فی البلاد، وظہور مودّۃِ الرّعیّۃَ۔ وانّہُ لاتظہر مودّتہم الابسلامۃ صدرورہم ، ولاتصحّ نصیحتہم ا لا بحیطتہم علی وُلاۃِ امورہم وقلّۃ استثقال دُوَلِہم،وترکِ استبطاءِ انقطاعِ مُدّتہم،فافسح فی آمالہم ،وواصِل فی حسنِ الثناء علیہم‘‘یعنی حاکم کی آنکھ کی ٹھنڈک کس چیز میں ہونا چاہیے،اس میں کہ خود انصاف قائم کرے، اور رعایا اس سے اپنی محبت ظاہر کرتی رہے۔رعایا کی محبت ظاہر نہیں ہوتی جب تک اس کے دل سلیم نہ ہوں اوررعایا کی خیر خواہی صحیح نہیں ہوتی جب تک اسے حاکم سے سچی محبت نہ ہو،

اس کی حکومت کو بوجھ اور اس کے زوال میں دیر کو وبال نہ سمجھتی ہو۔لہذا ضروری ہے کہ رعایا کی امیدوں کے لیے میدان کشادہ رکھنا، اس کی دل جوئی برابرکرتے رہنا‘‘(۴۰)

سماجی انصاف اورعمدہ حکمرانی کے قیام کا نتیجہ: ۔ سماجی انصاف کو یقنی بنانے اور قیام عدل اور عمدہ طرز حکمرانی سے جو نتیجہ حاصل ہوسکتا ہے یا ماضی میں ہوا ہے اس کی ایک جھلک مفکر اسلام ابوالحسن علی ندوی صاحبؒ کی زبانی سنیں:’’تمام مسلمان حق کے مدد گار بن گئے تھے، ان کا کام مشورہ سے ہوتا تھا،خلیفہ جب تک خدا کا مطیع رہتاوہ (عوام)اس کے مطیع ہوتے اور اگر نافرمانی کرتا تو اطاعت باقی نہ رہتی۔حکومت کا شعار’’ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق‘‘ بن گیا تھا،وہ مال اور خزانے جو سلاطین اور امراء کا ذاتی جائیداد سمجھے جاتے تھے اب اللہ کی امانت سمجھے جانے لگے تھے۔ اس کی رضا میں خرچ اور صحیح محل پر صرف کیے جاتے۔ اور مسلما ن اس دولت کے امین اور متولی تھے‘‘(۴۱)

مختلف مسالک کی موجودگی ‘ سماجی انصاف کے لیے رکاوٹ نہیں:۔ میں مکمل وثوق اور دعوے سے کہتا ہوں کہ کسی بھی علاقے میں مختلف مسالک اور مذاہب کا پایا جانا سماجی انصاف کے قیام کے لیے قطعاً رکاوٹ نہیں۔ انسانی تاریخ بالخصوص برصغیر کی تاریخ کا عمیق مطالعہ بتاتا ہے کہ ادیان مختلفہ اور مسالک متعددہ کا کسی ریاست میں ہونا، کبھی بھی سماجی انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہوا۔مولانا مفتی محمد زاہد صاحب(۴۲) اپنے ایک تحقیقی مضمون میں لکھتے ہیں ’’ برصغیر میں اہل السنتہ والجمامعتہ ہمیشہ اکثریت میں رہے ہیں۔تاہم اہلِ تشیع کا بھی ہمیشہ قابل ذکر وجود رہا ہے۔ بعض علاقوں میں ان کی تعدا د خاصی زیادہ رہی ہے۔بعض جگہوں پر مقامی حکمران یا نواب وغیرہ اہلِ تشیع میں سے رہے ہیں۔نظریاتی طور پر اہل السنتہ اور اہلِ تشیع کے درمیان بڑے نازک مسائل میں اختلاف موجود رہا ہے ۔ ان مسائل میں بحث و مباحثہ اور کتابیں لکھنے کا سلسلہ بھی رہا ہے۔ لیکن سوائے چند استثنائی مثالوں کے یہ اختلاف کبھی ایک دوسروں کے لیے جانی خطرات کا باعث نہیں بنا۔(۴۳) اگے چل کر لکھتے ہیں کہ’’ یہ کہنا تو شاید خالی از مبالغہ نہ ہو کہ برصغیر میں اہل السنتہ او ر اہلِ تشیع کے تعلقات بہت مثالی اور قابل رشک رہے ہیں، لیکن یہ کہنا ضرور درست ہوگا کہ ان میں کبھی اتنا زیادہ اور طویل عرصے کا تناؤ نہیں رہا جتنا ہمارے ہاں اسی(۸۰) کی دہائی کے بعد نظر آتا ہے‘‘۔(۴۴)

ماحاصل/خلاصہ کلام: ۔ ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ سماجی انصاف اور بہترین قیام عدل کے بغیر کوئی معاشرہ/ریاست /حکومت و سیادت دیر تک قائم نہیں رہ سکتی ہے۔اللہ کا ہی فرمان ہے’’وما کنا مہلک القرٰی الا واھلہا ظٰلمون‘‘(۴۵) یعنی:’’اور ہر گز نہیں غارت کرنے والے بستیوں کے مگر جبکہ وہاں کے لوگ گناہ گار ہوں.‘‘۔سماجی ظلم کے نتیجے میں حالیہ دنوں میں مشرقی وسطیٰ میں کئی تبدیلیاں آئی ہیں۔سماجی انصاف کے بغیر نسلی تعصبات اور امتیازات کا خاتمہ ناممکن ہے۔اعلیٰ اقدار کی ترویج اورعدل و انصاف کا قیام خواب بن کر رہ جائے گا۔قانونی اور معاشرتی مساوات کا جنازہ نکل کر رہ جائے گا۔مذہبی آزادی کی جگہ مذہبی دل آزاری لے گی۔ مال وجان ، عزت وآبرو اور بنیادی انسانی حقوق بری طرح پامال ہونگے۔شخصی آزادی ختم ہوکر رہ جائے گی۔تعلیم و تعلم اور روشن خیالی و فکری کے دروازے بند ہوکر رہ جائیں گے۔اطاعت حکومت، قانون کی پابندی، آئین کی بالادستی، لااینڈآرڈر اور باہمی تعاون ایثار، اخلاقی صفات،رواداری،رفاہ عامہ اور ان جیسی بے شمار باتیں مفقو د ہونگیں۔معیشت کی گاڑی بیٹھ جائے گی۔احتساب ،سزا و جزا کا تصور ختم ہوگا۔ تب چوروں کا راج ہوگا۔ اندیھر نگری ہوگی۔ڈاکوؤں کے موج ہونگے۔لٹیرے مسلط ہونگے۔حرام حلال کی تمیز ختم ہوجائے گی۔غربت ،بیروزگاری،کرپشن،اقرباء پروری اور افراتفری شیش ناگ کی طرح پھن نکالیں گے۔نمود ونمائش عام ہوگا۔تجارتی اور معاشرتی اخلاقیات کا جنازہ نکلے گا۔ذخیرہ اندوزی جڑیں پکڑے گا۔جوا بازی معمول بن جائے گا۔سماجی فلاحی اورمعاشی انصاف خواب بن جائے گا۔

ہم بار دگر عرض کرتے ہیں کہ آپ صلم نے ارشاد فرما ہے’’ حکومت ہر اس شخص کی ولی ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو‘‘۔خدائی احکامات اور سنت نبوی صلم کے مطابق جو نظام ہوگا، جو ریاست چلے گی اورجو حاکم اس کا عملی نمونہ بنے گا تو اس ریاست میں زمین اپنے چھپے ہوئے قیمتی خزانے اُگل دے گی۔ اسمان اپنی بے انتہا نعمتوں اور رحمتوں کی بارش کرنے لگتا ہے۔ افلاس و تنگی، ظلم وجبر،تشدد و دہشت اور انتہا پسندی اور دیگر مکروہات ختم ہوکررہ جاتی ہیں۔اور ہر طرف امن و آمان، خوشحالی و خوش بالی اور سماجی انصاف قائم ہوجاتا ہے۔نعمتوں اور رحمتوں کا دورہ دور ہوتا ہے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

2 کمنٹس

  1. ایک نفیس اور تحقیقی مقالہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جناب بے حد اچھا لگا۔ اللہ اپ کی تحقیق میں مزید کامیابوں سے نوازے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امین

Back to top button