کالمز

چیزیں سستی بیچنے کی سزا

یہ خبر سن کر قارئین بھی حیرت زدہ ہونگے کہ گزشتہ دنوں گلگت شہر سے متصل آبادی دنیور کے مقام پر سستی سبزی اور فروٹ بیچنے والے ریڑھی بانوں کو انتظامیہ اور پولیس نے گرفتار کر کے ان کی ریڑھیوں سمیت تھانے میں بند کر دیا تھا ۔ جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی سبزیاں اور فروٹ ضائع ہوا بلکہ انہوں نے آئندہ اشیائے ضروریہ سستی بیچنے سے بھی توبہ کیا ہے۔
اس ضمن میں جب دنیور تھانہ کے عملے سے بات کی گئی تو ان ریڑھی بانوں کی گرفتاری کی وجہ یہ بتائی گئی کہ انہوں نے غلط جگہ ریڑھی لگائی تھی جس کی وجہ سے ٹریفک میں خلل پیدا ہوتا تھا۔ اس حوالے سے جب ریڑھی بانوں سے بات کی گئی تو پتہ چلا کہ دنیور کے دکانداروں نے سستی چیزیں بیچنے والے ریڑھی بانوں کو ایک دن پہلے ہی متنبہ کیا تھا کہ وہ سستی چیزیں بیچ کر ان کے گاہگ توڑتے ہیں اور ان کا کاروبار خراب کرتے ہیں اگر وہ باز نہیں آئے تو ان کے خلاف کارروائی کرائی جائے گی۔ چنانچہ اگلے دن ان کو ٹریفک میں خلل پیدا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ پھر ان کو رہا کر کے ان کی ریڑھیوں کو فروٹ اور سبزی سمیت سڑنے کے لئے تھانے میں رکھا گیا۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ سستی چیزیں فروخت کرنے والے ریڑھی بانوں اور کاروباریوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ان کو انعامات دئیے جاتے۔ مگر یہاں معاملہ الٹا ہے ۔ یہاں قانون طاقتور کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے تاکہ ان کی طاقت کو دوام بخشا جائے اور سرمایہ کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
ٹرانسپو ٹرز سمیت مکانوں اور دکانوں کے مالکان کی طرف سے من مانے کرایے جبکہ دکانداروں کی طرف سے من پسند قیمتیں وصول کرنا لوگوں کی فطرت بن گئی ہے ایسے میں کوئی شخص آکر سستی چیزیں بیچنے لگے تو مارکیٹ میں موجود مافیا اس سے نالا ں ہوتا ہے اور وہ قانون کے رکھوالوں کے کان بھر تا ہے تاکہ ایسے لوگوں کو سستی چیزیں بیچنی کی سزا مل سکے۔قانون کے رکھوالوں کو بھی اس بات کا احساس نہیں ہے کہ وہ عوام کی بھلا ئی کے لئے اپنے اختیارات کا ستعمال کریں بلکہ وہ قانون کو اپنا زاتی اختیار سمجھتے ہیں اور وہ ہر اس جگہ حر کت میں آتا ہے جہاں عام آدمی کی فلاح کا کام یا بات کی جاتی ہے۔
عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد زندگی کی تمام ضروریات سستی ہوجانی چاہئیے تھیں مگر یہاں صرف تیل اور کرایوں میں کچھ کمی کے علاوہ کسی چیز کی قیمت کم نہیں ہوئی ہے۔ سبزی اور فروٹ سمیت دیگر اشیاء ضروریہ وہی پرانے نر خوں میں بیچی جاتی ہیں۔ سستی چیزیں بیچنے والوں کے ہاتھ روکنے کے لئے مارکیٹ میں دوکانداروں کا گہرا اتحاد ہے اور وہ باہمی مشاورت سے ایک ہی قیمت مقرر کرتے ہیں اسی کے تحت وہ سستی چیزیں بیچنے والوں کے ہاتھ روکتے ہیں۔ ورنہ مقابلے کا رجحان جاری رہے تو چیزیں سستی بیچنے کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ مقابلے کا رجحان روکنے کے لئے اجارہ داری کا نظام متعارف کرایا جاتا ہے تاکہ کوئی بھی نیا ء شخص مارکیٹ میں داخل ہو تو وہ پہلے سے طے شدہ ریٹ پر چلے ،جس سے گاہگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا کیونکہ گاہگ کے لئے اس میں کوئی نیاء پن نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح پرانے دوکانداروں کا دھندہ جاری رہتا ہے۔ اسی طرح دکانوں ، آفسوں اور مکانوں کے مالکان بھی کسی ضابطے اور قانون سے بالا تر ہوکر من پسند کرایے وصول کرتے ہیں ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔
کارپوریٹ کلچر کا یہی المیہ ہے کہ دنیا میں جو بھی بزنس کے نام پر غریب کو فائدہ پہنچائے گا دنیا کے تمام مجسٹریٹ اور ایس ایچ اوز ان کے خلاف کارروائی کے لئے چوکس ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں یہ سرمایہ دارانہ نظام بنا ہی اس لئے ہے کہ استحصالی طبقے کو تحفظ فراہم کیا جائے اور غر
یب پرور کو عبرت کا نشانہ بنایا جائے۔ دنیا میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وہی کام کرتے ہیں جو ہمارے یہاں ایس ایچ اوز اور مجسٹریٹ کرتے ہیں۔ نجکاری کے نام پر ہزاروں لوگو ں کو بے روزگار کرنے پر مجبور کرنے والے یہی عالمی مجسٹریٹ ہیں۔ لوگ غربت اور مہنگاہی سے مر جائیں ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا انہوں نے تو سرمایہ داروں کی تجوریا ں بھروانے کا عہد کیا ہوتا ہے ۔
دنیا بھر کی غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آئی ہوئی اقوام کی طرح ہمارے ریڑھی بان بھی نہ صرف غریب اور کمزور ہوتا ہے بلکہ وہ پیٹ پوجا کے چکر میں نا اتفاقی کا بھی شکار ہوتا ہے اس لئے دنیا کے قوانین اس کی مدد کے لئے نہیں بنائے جاتے بلکہ اس کو کنٹرول کر کے بڑے سرمایہ دار کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریب شخص کے کاروبار کو فروغ نہیں ملتا ۔ اس لئے وہ صرف امیر شخص کے ہاں ملازمت کو ترجیح دیتا ہے۔ اسی طرح امیر مزید امیر ہوجاتا ہے اور غریب ،غریب تر ہو جاتا ہے۔
پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے کا محاورہ بھی سرمایہ دار کا ایجاد کردہ ہے ۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ سرمایہ دار کے پاس ہی پیسہ ہوتا ہے کیونکہ وہ جیبیں کاٹنے کے اعلیٰ ہنر سے واقف ہوتا ہے ۔ جبکہ غریب کے پاس یہ ہنر نہیں ہوتا وہ دنیور کے ریڑھی بان کی طرح بیوقف ہوتا ہے جو گاؤں سے سبزی لاکر دکانداروں کی نسبت دوگنا سستی فروخت کرتا ہے۔ لہذا غریب سے پیسہ دور بھاگتا ہے ۔
سستی چیزیں بچنے اور خرید نے کی خواہش رکھنے والوں کو متحد ہوکر استحصالی طبقے کے خلاف لڑنا ہوگا وگرنہ استحصالی طبقہ مجسٹریٹوں اور پولیس کی مدد سے غر یبوں کا خون چوسنے کے کھناونے کھیل سے باز کبھی نہیں آئے گا۔
ختم شد

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button