کالمز

کیپٹن شفیع کا سچ یا تاریخ کا نیا موڑ

تحریر: فیض اللہ فراق

گزشتہ ہفتے امامیہ کونسل کی جانب نگران حکومت کے حوالے سے ایک متفقہ قرارداد سامنے آئی جس میں مخصوص مسلک اور خاص کر ضلع ہنزہ سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وفاقی بیورو کریٹ کو ہدف بنا کر نگران وزیر اعلی نہ بنانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ نگران حکومت کے قیام سے قبل ہی مسلکی تقسیم کو ہوا دی گئی حالانکہ یہ بات طے تھی کہ نگران حکومت نے ایک قاعدے کے تحت عمل میں آنا ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت قائد حزب اختلاف، قائد ایوان اور وفاقی وزیر امور کشمیر کی مشترکہ رائے سے نگران وزیر اعلی کا چناو ہونا ابھی باقی تھا کہ ادھر سے ایک قراداد منظر عام پر آئی جس میں جارحانہ موقف اپنایا گیا۔

مجھے امامیہ کونسل سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ ایک غیر ضروری ایشو پر اتنی عجلت کا مظاہرہ کریں گے کیونکہ گلگت بلتستان مختلف پھولوں کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے جس میں ان گنت رنگوں اور خوشبووں کے پھول موجود ہیں۔۔۔ یہاں کے باسیوں کے دکھ درد مشترک ہیں۔۔۔ یہاں کی خوشیاں سانجھی ہیں۔۔ یہاں آج بھی مختلف طبقہ فکر کے آپس میں گہرے رشتے ہیں۔۔ یہاں کی ثقافتی زنجیریں آج بھی بلتستان کے علاقہ ترکتی سے دیامر کا علاقہ داریل تک پھیلی ہوئی ہیں۔۔ ماضی کی تلخیوں نے ہمارے دلوں کو ایک دوسرے سے دور کیا ہوا ہے۔ نام نہاد سیاست نے ہمارے پھول جیسے چہروں کو مسخ کیا ہے۔ نا سمجھی ہمیں پھتر کے دور میں لیکر گئی ہے۔ اختلاف رائے کے حسن کو ہم نے اپنے اعمال سے پامال کیا ہے۔ وہ جو مشترکہ خوشیاں تھیں نا۔۔۔ اب انفرادیت میں بدل چکی ہیں۔۔ فرقے کی بنیاد پر حکومتیں بنانے کے ہم عادی بن چکے ہیں جس وجہ سے ہماری مخصوص عینکیں آج بھی ترقی کو دھندلی نظروں سے دیکھتی ہیں۔۔

گزشتہ 40 برس کی اجتماعی تربیت ہمیں انتقامی بنا چکی ہے کیونکہ ان گزشتہ برسوں کی دلسوز کہانی کے پردے میں ہماری تباہی و بربادی اور ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کی وحشت ناک ابواب پوشیدہ ہیں۔۔ مسلک کے نام پر آج تک ہم نے صرف اپنا نقصان کیا ہے، کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔۔۔ ہم نے اپنی دھرتی پر یتیموں کی تعداد کو بڑھایا۔۔ ہم نے اپنے کھیت کھلیان برباد کئے۔۔ ہم نے رشتوں کی زنجیریں توڑنے کی کوشش کی۔۔ ہم نے اپنے گھروں پر آگ لگائی پھر راکھ ہونے تک شادیانے بجاتے رہے۔۔ ہم نے بے گناہ نوجوانوں کو سر راہ چلتے گولیوں سے چھلنی کیا۔۔ سکول ہمارے تباہ ہوئے۔۔ معیشت ہماری برباد ہوئی۔۔ زخموں سے چور ہمارا بدن۔۔ سکوں سے دور ہمارا وطن اور بنجر ہے ہمارا چمن ۔۔ ہمیں پھر بھی ہوش نہیں آیا۔۔ اسلئے آج بھی سیاست کے نام پر مذہب کا استعمال اور اسمبلی تک پہنچنے کیلئے فرقے کا کارڈ۔۔

ارے بھائیو! ستر برسوں سے آج تک اسمبلی میں آتے رہے ہیں نا۔۔ کبھی فرقے کے نام پر کبھی قومیت اور علاقائیت کے نام پر مگر فرق کیا پڑا؟ کونسا فرقہ ترقی کر گیا؟ کس زبان کو زندگی ملی ؟ کس علاقے میں دودھ اور شہد کی نہریں جاری ہوئیں؟ اسمبلی کی طاقت سے فرقے جنت میں نہیں جاتے۔۔۔ جنت کے حقدار تو امن کے سفیر ہوتے ہیں۔۔ بہشت کے مسافر تو انسانیت سے پیار کرنے والے ہوتے ہیں۔۔ تفریق والے فرق کر کے مٹ جاتے ہیں اور محبت والے ہمشہ زندہ رہتے ہیں۔۔ مذہب کا تعلق آپ کی ذات سے ہے اور ملکی و صوبائی قوانین مسلکی طاقت سے نہیں بدلتے ہیں۔۔ قانون کا احترام ہی معاشرتی بقا کا وسیلہ ہوتا ہے۔۔ نگران حکومت بھی آئین و قانون کے تحت تشکیل پائے گی مگر یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے امامیہ کونسل کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا؟

اگر قائد حزب اختلاف کا بیان سچ پر مبنی ہے اور اس سچ کا اظہار موصوف نے میڈیا پر آکر کیا ہے تو یہ بھی حوصلہ افزا بات ہے۔۔۔ اپوزیشن لیڈر کے مطابق گزشتہ دنوں نگران وزیر اعلی کے چناو کے حوالے سے امامیہ کونسل کی قراداد ان کی اپنی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی نے انہیں اکسایا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا ہے اس قراداد سے کثیر عوام کا تعلق نہیں ہے۔۔ اپوزیشن لیڈر کا بیان تاریخ کا ایک اور موڑ ہے ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ ہم مذہبی اکابر کی ہر بات کے ساتھ بغیر تحقیق کے جڑ جاتے تھے۔۔ اب لگتا ہے سچ اور جھوٹ میں تفریق کے زاویے بدل چکے ہیں۔۔ لوگوں میں شعور بڑھتا جا رہا ہے۔

سمجھ داری کا رجحان پہلے سے زیادہ پروان چڑھ رہا ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button