کالمز
میں گورنرکا امیدوار نہیں ہوں
تحریر : محمد طاہر رانا
گلگت بلتستان میں ان دنوں گورنر کی تعیناتی کے حوالے سے بڑے چرچے ہیں ،صورت حال لمحہ لمحہ بدلتی نظر آرہی ہے، نئے نئے چہرے سامنے آنے لگے ہیں کچھ اس دوڑ میں پہلے سے ہی براجمان ہیں جبکہ کچھ ابھی شامل ہو رہے ہیں ،کچھ تو گورنر بنتے بنتے رہ گئے۔
پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر گورنر کی دوڑ میں شامل افراد پربے لاگ تبصرے ہو رہے ہیں۔کسی کی پگڑی اچھالی جا رہی ہے تو کسی کو ہیرو بنا کر پیش کیا جار ہا ہے ،سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے۔ لیکن میڈیا پر ڈاکٹر شیر بہادر انجم کے ایک بیان نے تو جیسے تہلکہ مچا دیا ہیکہ وہ گورنر کے امیدوار نہیں ہیں حالانکہ اس سے قبل انکے گورنر بننے کی خبریں اخباروں کی زینت بنتی رہیں ہیں آخر وہ کیا وجہ تھی کہ انہیں اپنے سابقہ تمام سرگرمیوں پر پانی پھیرنا پڑا ، یہ تو ایسا ہی ہے جیسے ایک کہانی مشہور ہے کہ ایک آدمی کو کچھ لوگوں نے پکڑ کر بوری میں بند کر دیا تھا تاکہ اس کی مرمت کی جا سکے جب وہ لوگ ڈنڈوں کا بندوبست کرنے گئے تو بوری میں بند صاحب نے اونچی آواز میں چیخنا شروع کر دیا کہ مجھے راجہ نہیں بننا ۔۔۔مجھے راجہ نہیں بننا ،، پاس سے گزرتے ایک اور شخص نے جب یہ سنا تو دوڑتا ہوا آیا اور بوری میں بند شخص کو باہر نکالا اور اس سے دریافت کیا کہ وجہ کیا ہے؟ مصیبت میں پڑے شخص نے اسے جھوٹی کہانی گڑی کہ یہاں کے لوگ اسے راجہ بنانا چاہتے ہیں جبکہ وہ بننا نہیں چاہتا اس لئے بوری میں بند کر دیا ہے ،دوسرے شخص نے جب یہ سنا تو فورا اس کی نیت خراب ہو گئی اور اس نے کہا کہ مجھے راجہ بننا ہے اسلئے مجھے بوری میں بند کر دو میں آواز لگاونگا کہ مجھے راجہ بناو۔اس طرح دونوں کی خواہش پوری ہوگی،پہلے آدمی نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اسے بوری میں بند کیا اور اپنی راہ لی ۔ جبکہ راجہ بننے کا خواہش مند بری طرح پٹ گیا۔ڈاکٹر انجم نے بھی شائد بوری میں بند ہونے سے زیادہ بوری سے باہر نکلنے کو ترجیح دی ہے۔
سوچنے کا زاویہ ہر کسی کا اپنا اپنا ہوتا ہے،انتہائی سوچ بچار اور حالات و واقعات کی جانچ پڑتال کے بعد راقم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ حال ہی میں میڈیا پر لئے جانے والے زیادہ ترگورنر کے امیدوار ہوا میں قلعے تعمیر کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ اس عہدے کی وجہ سے نہ صرف مسلم لیگ (ن) کے اندر مخالفتیں پیدا ہو رہی ہیں بلکہ پارٹی کی صوبائی قیادت پربھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) گلگت بلتستان کے تھنک ٹینکس کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ اگر یہ عہدہ گلگت بلتستان میں کسی بھی امیدوار کو دیا گیا تو صوبائی سطح پر پارٹی کے اندر کس قسم کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔اگر چیف آرگنائزر مسلم لیگ (ن) حافظ حفیظ الرحمن خود گورنر بن جاتے تو یہ سارے مسائل پیدا نہیں ہوتے ، لیکن اسے انکی سیاسی حکمت عملی کہیں یا مستقبل کا لائحہ عمل انہوں نے اس عہدے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، اس فیصلے کا ایک مقصد جو راقم کو سمجھ میں آیا ہے وہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ بحیثیت قائد آنے والے الیکشن کی تیاری اور پارٹی کی فعالیت کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں اور ہو سکتا ہے انکا مستقبل میں وزیر اعلی بننے کا بھی ارادہ ہو ۔اگر گلگت بلتستان کی صوبائی لیگی قیادت امیدواران کو ایک پلیٹ فارم میں اکھٹا کر کے مشاورت سے کسی ایک نام فائنل کرتی تب بھی یہ مسائل ختم ہو سکتے تھے ۔خیر بات ہو رہی تھی گورنر کی تو قارئین مسلم لیگی قیادت کی سرگرمیوں اور امیدواران کے بدلتے بیانات سے لگتا یو ں ہے کہ گورنر گلگت بلتستان سے نہیں بنایا جائیگا بلکہ مسلم لیگ (ن) کے پنجاب سے یا کسی دوسرے صوبے سے کسی رہنما کو گورنر کی ذمہ داری سونپی جائیگی۔ اگر صوبائی لیگی قیادت گلگت بلتستان سے گورنر بنانے کا سوچ رہی ہے تو میرے خیال میں یا تو پیر کرم علی شاہ کو ہی آنے والے الیکشن تک گورنر رکھا جائیگا یا سکردو،غذر اور ہنزہ نگر سے گورنر کا چناو کیا جائیگا۔گلگت اور دیگر اضلاع سے گورنر کی دوڑ میں شامل افراد کو گورنری ملنے کا امکان کسی حد تک کم ہے، ہو سکتا ہے میری رائے غلط ہو لیکن حالات و واقعات اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت گورنر کی دوڑ میں شامل افراد کی تعداد 8 تک پہنچ گئی ہے جن میں ملک مسکین کاتعلق ضلع دیامر، میر غضنفر ضلع ہنزہ نگر،ڈاکٹر انجم ضلع استور، اشرف صدا اور فدا محمد ناشاد ضلع سکردو،سلطان مدد ضلع غذر،حاجی عابد علی بیگ اور شبیر ولی ضلع گلگت سے تعلق رکھتے ہیں۔ان آٹھ میں سے کس کے نام کا قرعہ نکلے گا یا پنجاب سے کسی کو گورنر کی ذمہ داری دی جائیگی یا پیر کرم علی شاہ کو ہی اس عہدے پر رکھا جائیگا، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
گورنر کسے بنایا جائیگا اس سوال سے زیادہ اہم ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ گورنر کیسے شخص کو بنایا جائے، تاکہ گلگت بلتستان میں پہلے سے موجود اپاہج حکمرانی کی طرح یہ بھی ایک مذاق نہ بن جائے۔ گورنر بننے کا حق گلگت بلتستان کے ہر پڑھے لکھے شخص کو حاصل ہے لیکن ہمیں ایک ایسا گورنر چاہیے جو گلگت بلتستان کے معروضی ،آئینی ، سیاسی اور معاشی حالات کو بخوبی جانتا ہو، جو قانون کی بالادستی کو قائم رکھ سکے، اچھی حکمرانی کیلئے مثبت اصلاحات کو یقینی بنائے ، ایک اچھا منتظم ہو جو نظام میں موجود خرابیوں کو دور کر کے حقیقی معنوں میں ایک واضع نظام کو نافذ کرے، جس کے پاس علاقے کی معاشی ،سماجی اور سیاسی صورتحال کو بہتر بنانے کا روڈ میپ تیار ہو، جوگلگت بلتستان کا ایک قابل، پڑھا لکھا شخص ہو جو علاقے کی تعمیر و ترقی کیلئے سودمند ثابت ہو سکے، جسکے پاس مشکل وقت میں بھی فیصلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔