چترال

جامع شخصیّت ،مشفق انسان اور تجربہ کار ماہر تعلیم

تحریر : شمس الحق قمرؔ گلگت

سماج شخصیات کو ناپنے، تولنے جانچنے اور سمجھنے کے لئے جس کسوٹی کا استعمال کرتی ہے وہ ایک جیسی نہیں ہوا کرتی ۔ عمومی طور پر دولت، تعلیم ، ہنر ، عقل و خرد اور جسمانی حسن و خوبصورتی کے ترازو پر ناپنے کے بعد ہی لوگ کسی شخصیت کے لئے مقام یا معیار کا تعین کرتے ہیں ۔زیر نظر خاکے میں ،میں جس قد آور شخصیت کا آپ سے تعارف کرانے جا رہا ہوں اُس نے علاقے میں علم ہنر کا دیا روشن کرنے میں اپنی زندگی کے شب و روز وقف کئے علم و تعلم اور درس و تدریس آپ جناب کی شہرت اسباب ہیں ۔

چترال کے مشہور گاؤں زائینی کے پھشال دوری نامی چھوٹے سے قصبے میں لال امیر اعظم کے گھر میں 4 اپریل 1955 کودنیا میں آنے والا بچہ موسوم بہ اسم شاہ یونس مشہور ہوئے ۔ یہ نام صاحب موصوف کے نانا سید یوسف المعروف جنالکوچو حاجی خلیفہ نے تجویز کیا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب تعلیم حاصل کرنے کے بعد گرین گدام میں کلرکی کے علاوہ ملازمت کی تمام راہیں مسدود تصور کی جاتی تھیں ۔یوں تعلیم حاصل کرنا ایک غیر مفید سرگرمی سمجھی جاتی تھی ۔ تاہم چترال کے شاہی خاندان کے لوگ محض شوقیہ طور پر تعلیم کے میدان میں آنے شروع ہوئے تھے جن میں ( دراسنو شزدہ) شہزادہ فخر الملک (مرحوم )اپنے زمانے کے بلند پایہ اور قابل تعریف شخصیت ہیں اگرچہ شاہی خاندان سے اور بھی بہت سارے حضرات کے اسمائے گرامی حصول تعلیم میں جدو جہد کرتے رہے لیکن شہزادہ فخر الملک نے نہ صرف خود معیاری تعلیم حاصل کی بلکہ تعلیم کی روشنی کو پھیلانے کا انوکھا فرض بھی انجام دیا ۔ شاہ یونس صاحب اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جب شہزادہ مرحوم سن 1960 کی دہائی میں تحصیل موڑکہو کا تحصیلدار تھا تو اپنے حلقۂ ملازمت میں سرکاری امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ عوام کے گھروں میں تشریف لے جاتے اور جن جن گھروں میں پانچ سے دس سال کے بچے نظر آتے اُن کے والدین کو نہ صرف اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی تلقین کرتے بلکہ بچوں کو اپنے ساتھ لے جاکر پرائمری سکول دراسن میں داخلہ بھی دلاتے تھے۔ اس نیک کا م کا سہرا صرف شہزادہ مرحوم کے سر ہی نہیں سجتا بلکہ اُس زمانے کے ماہر تعلیم محترم استاد جناب شاہ مروحوم بھی اس کار خیر اور صدقۂ جاریہ میں برابر کے شریک تھے ۔

shah younus 002

محترم استاد اور بے پناہ تجربہ کار ماہر تعلیم محترم شاہ یونس کی زندگی میں مذکورہ شخصیات کا اہم کردار رہا ہے ۔قصہ مختصر یہ کہ ایک دن شہزادہ مرحوم کا گزر پھشال دوری سے ہوا تو لال امیر اعظم کے دولت کدے میں ضیافت کا اہتمام ہوا ۔شاہ یونس کی دادی میرِ واخان پھورولیک میتار کی صاحب زادی اور کھوار کے بلند پایہ شاعر گل اعظم خان گل کی ہمشیرہ تھیں لہذا علم فن کی پیاس محترم شاہ یونس کو دادی کی طرف سے ورثے میں ملی تھی ۔دوسری طرف شہزادہ مرحوم کے دورۂ پھشال دوری نے سونے پر سہاگے کا کام دیا ۔شہزادہ فخرالملک کے اصرار پر لال امیر اعظم نے اپنے بچے کو دراسن کے سکول میں داخل کرنے کی ہامی بھر لی یوں شاہ یونس سن 1960 میں دراسن پرائمری سکول میں علم و ہنر کے پہلے دن کا آغاز کیا ۔ شاہ یونس اپنے تمام ہم جماعتو ں میں تیز طرار بچہ تھا لہذا پہلی جماعت سے اول پوزیشن لینا شروع کیا ۔قسمت کی دھنی تھا جیسے ہی آپ نے چوتھی جماعت پاس کی تو سکول کو بھی مڈل کا درجہ دیا گیا ۔صاحبِ موصوف نے اپنی پوری توجہ تعلیم کی طرف مبذول کی اور مڈل کے امتحان میں بھی ٹاپ کر گیا ۔شاہ یونس تحصیل موڑکہو میں وہ واحد طالب علم تھا جسے قابلیت کی بنیاد پر محکمۂ تعلیم کی جانب سے مبلغ 240 روپے وظیفہ بھی ملنے لگا ۔ وظائف کی حصولی کے لئے چترال پائین کا سفر اختیار کرنا پڑتا تھا یہ دو دن کی مسافت ہوا کرتی تھی ( اجکل دو گھنٹے کی مسافت ہے ) یہ سن 1968 کا واقعہ ہے کہجب شاہ یونس نے اپنے والد صاحب کے ہمراہ پائین چترال کا سفر اختیا ر کیا ۔صبح رخصت کرتے ہوئے شاہ یونس کی دادی نے اپنی محبتوں اور دعاؤں کی زادِ راہ فی البدیہہ شاعری کی صورت میں پیش کی ۔ ؂ مہ ژان دراسنوت بابو بوئے کوروئے میرزائی۔ ای ہزار بول مو اچہ وا لاکھ سپاہی

اس شعر کی روشنی میں شاہ یونس کی دادی امّا کو کھوار زبان کی پہلی شاعرہ کہنا بے جا نہیں ہوگا ۔ بحر حال صاحب موصوف چترال پہنچے اور وظائف کے ساتھ استاد الاساتذہ جناب شاہ مرحوم سے خوب داد و تحسین بھی حاصل کی ۔ وظیفے کی رقم اتنی بھاری تھی کہ صرف دو روپے میں محترم شاہ یونس کے والد صاحب نے چترال کے مشہور تاجر گل فروز کی دُکان سے اپنے بچے کے لئے بہترین چمڑے کے بنے جوتے خریدے جو کہ اجکل ایک ہزار سے کم قیمت پر دستیاب ہونا ناممکن ہے ۔ شاہ یونس اپنی قابلیت کے بل بوتے پر سالانہ وظائف کا حقدار بنا اور میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مالی نا آسودگی اور کچھ گھریلو مسائل کی بنا پر ملازمت کے خیال سے پشاور کا رخ کیا یہ زمانہ سن 1971 کا تھا ۔ ایک کپمنی میں تیس روپے کی ملازمت اختیار کی اس کمپنی کے ساتھ ایک سال بیتانے کے بعد دفتری کام کا تجربہ ہوا تھا لہذا 60 روپے ماہانہ تنخواہ پرافغان اینڈ کمپنی کے نام سے ایک امپورٹ ایکسپورٹ کمپنی میں کیشئر اس کے بعد اسسٹنٹ منیجر اور پھر پبلیک ریلیشن افیسر کے عہدے تک ترقی پائی اور پانچ سال تک اس ادارے کے ساتھ کام کیا ۔ اس ملازمت کا سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوا کہ صاحب موصوف کو پشتو ، دری، فارسی اور ہنکو جیسی زبانیں نہ صرف سیکھنے بلکہ ان پر مکمل طور پر عبور حاصل کرنے کا زریں موقعہ بھی ملا۔ جولائی 1977 میں ملکی حالات انتشار کے شکار ہوئے ذولفقار علی بھٹو کو سیاسی ملزم اور پھر مجرم گردان کرپابند سلاسل کیا گیا تو پاکستان کا سیاسی اُفق مدھم پڑ گیا یوں تجارتی ادارے بھی معاشی طور پر کمزور ہو گئے ان ناگفتہ بہہ حالات میں بھی سن 1980 تک صاحب موصوفکمپنی سے وابستہ رہے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب سوویت یونین نے افغانستان پر چڑھائی شروع کی تھی لہذا اُس جنگ کے نقصاندہ اثرات بلاواسطہ طور پر پاکستان پر بھی مرتب ہوئے یوں یہ کمپنی آہستہ آہستہ اپنا وجود کھونے لگی اور موصوف کو واپس چترال کا رُخ کرنا پڑا ۔

اپریل 1980 کو چترال میں آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کے سکولوں کا تجرباتی طور پر اجرا عمل میں آیا تو ادارے کو ایسے اساتذہ کی ضرورت تھی تدریس کے عمل میں مختلف زبانوں پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ سماجی طور پر بھی کام کرنے کے قابل ہوں ۔ اُس وقت تجرباتی بنیادوں پر صرف پانچ سکول کھولے گئے جن میں اویرک، کھوت ، پرکوسپ،مداک لشٹ اور لون کے سکول شامل ہیں۔ ادارے نے شاہ یونس صاحب کو لون سکول کے لئے بڑی منت سماجت کے بعد قائل کرایاکیونکہ یہاں بہت سخت محنت کی ضرورت تھی اور دوسری طرف تنخواہ بہت کم تھی لیکن شاہ یونس صاحب نے اس کارِگراں کو چیلنچ کے طور پر قبول کیا گھر گھر جاکر بچوں کو ذہنی طور پر تعلیم کے لئے امادہ کر نے اور تعلیم کے فلسفے کو ان کے دلوں میں جھونکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جس زمانے میں تعلیم نسواں قدرے معیوب سمجھی جاتی تھی لیکن شاہ یونس صاحب نے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خواتین کے لئے تعلیم کی ضرورت اور اہمیت پر عبادت گاہوں میں جاکر بھی تبلیغ شروع کی کیوں کہ ٓصاحب موصوف قرآن کریم اور احادیث مبارکہ پر بھی برابر دست رس رکھتے ہیں لہذا قرآن و سنت کی روشنی میں تعلیم نسواں کی اہمیت و افادیت پر کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرونا بہت مشکل نہ تھا ۔چھے برس تک صاحبِ موصوف نے اسی سکول میں اپنی جدو جہد جاری رکھی پھر آغا خان سکول گہت میں تبدیلی ہوئی یوں تعلیم کی روشنی پھیلانے میں موصوف اپنی پوری زندگی صرف کی ۔AKESP میں درس و تدریس کے علاوہ اساتذہ کو تربیت دینے کی مشکل زمہ داری بھی قبول کی اور پھر اسی ادارے کے انتظامیہ میں کلیدی کردار کے حامل رہے ۔

کسی بھی ادارے میں انتظامی شعبے میں کام کرنا دل گردے کا کام ہوتا ہے جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی ہیں۔صاحب موصوف کو چترال کے دور دراز منطقوں میں جانے کا مسلسل اتفاق ہوتا رہا اگرچہ پبلک کی طرف سے بے انتہا ناچاقیوں سے سابقہ پڑا ،سماج کی طرف سے بلاوجہ بار باربے نقط سننے کے باوجود بھی موصوف کے ماتھے پر کبھی کوئی شکنِ نا پسندیدگی نظر نہ آئی بلکہ نبی پاک ﷺ کے نقش قدمِ مبارک پر چلتے ہوئے اپنے اوپرکوڑا کرکٹ پھینکنے والوں کو بھی پلٹکر گلے لگالینے کے بہترین اصول پر کار بند رہے ۔مجھے بہت ہی معتبر لوگوں نے بتایا ہے کہ جب شاہ یونس ادارے کے انظامیہ کے ساتھ منسلک تھے تو اُنہیں مختلف جگہوں میں سکولوں کے دورے پر جانا ہوتا اور وہ درس و تدریس کے مواد سے بھری گاڑی لیکر نکلتے لیکن موسم کی خرابی، بارش ، سیلاب یا پھر شدید برف باری میں جب گاڑی پھنس جاتی تو سکول کے ساما ن اپنی پیٹھ اور اپنے کاندھوں پر اُٹھائے وادی کے اندر کٹھن اور پُر پیچ راستوں سے پیدل چل کر ہانپتے کانپتے متعدد بار دیکھا گیا ہے ۔ لو گ جب پوچھتے کہ میاں موسم کے خوشگوار ہونے کا انتظار کرتے ! تو موصوف مسکرا کر جواب دیا کرتے کہ تعلیم کے معاملے میں وقت کی پابندی پہلی شرط ہے کیونکہ طلبہ کا ہر پل کا اثر قوم کے مستقبل پر ہوتا ہے لہذا مجھے خوشی ہے کہ تدریسی بوجھ کے نیچے میرے جسم پر پڑنے والا ہر نیل کا نشان ایک زمہ دار قوم بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے اور میرے لیئے اس سے بڑھ کر اور سعادت مندی کیاہوگی ۔

موصوف جب تک ادارے میں رہے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتو کو مکمل طور پر بروئے کار لانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔ ملازمت کے اواخر میں AKESP کے ایک پروجیکٹ میں موصوف کی خدمات کی منتقلی ہوئی اور یہ پروجیکٹ بہت جلد اختتام پزیر ہوا یوں محترم شاہ یونس صاحب کو بہت زیادہ تھکاوٹ محسوس ہوئی پیشہ وارانہ کام میں دن رات کی سخت محنت کی وجہ سے صحت میں بھی تناؤ محسوس ہوا لہذا پروجیکٹ کے ختم ہونے کے بعد دوبارہ AKESP کی پرانی پوزیشن میں جانے کی ہامی نہ بھر سکا ۔ستائش کی تمنا اُس وقت بھی نہیں تھی جب ہاتھوں میں جنبش تھی اور صلے کی پروا ا ب بھی نہیں جبکہ صرف آنکھوں میں دم باقی ہے ۔لیکن علم و ہنر کے ساغر و مینا کی پییاس اب بھی اتنی شدید ہے کہ وقت نکال کر علاقے کے نوجوانوں کو بلا وعوض پڑھا تا ہے ۔میں نے از راہ تفنن استفسار کیا کہ کیا محترم کو تھکاوٹ نہیں ہوتی جو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی درس و تدریس میں مصروف ہیں اور وہ بھی مفت؟ فرمانے لگے ’’ میں اس کام کو پیشہ سمجھ کے کرتا ہوں اس لئے میرے ہاں عوض بے معنی ہے اور نہ تھکاوٹ کا احساس بھاری رہتا ہے اگر میں اس پیشے کو بیگار سمجھ کے کروں تو شاید عوض کا متقاضی بھی ہونا پڑے گا اور اکتاہٹ بھی ہوگی ‘‘یعنی پیشے کو کام سمجھ کے کرنا مجبوری ہے اور کام کو پیشہ سمجھ کے کرنا زندگی کی خوشی اور آسودگی کا ضامن ہے ۔ہمارے نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کی بہت بڑی کم نصیبی یہ ہے کہ علاقے میں موجود ایسے ماہرین تعلیم کے علمی تجربات سے کام لینے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ۔ہمارے نجی اور سرکاری سکولوں کا ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کو ٹیسٹ اور انٹرویو سے گزار کر لیتے ہیں لیکن ان کے پاس درس و تدریس کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا انہیں صحیح معنوں میں ایک پیشہ ور مدرس بننے میں کم از کم ایک عشرے کی ضرورت ہوتی ہے تب جاکے اُنہیں کمرۂ جماعت کے فلسفے کا پتہ چلتا ہے ۔ کیا ہی اچھا ہوگا کہ ہمارے تعلیمی ادارے شاہ یونس جیسے تجربہ کار اساتذہ کی خدمات حاصل کریں تاکہ وہ نئے ٹیچروں کو مہینوں کے اندر درست معنوں میں پیشہ ور استاد بنانے میں کردار ادا کریں ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button