کالمز

رضاکاروں کا آشیانہ

اس بات پر کوئی شک نہیں کہ ہلال احمر گلگت بلتستان علاقے میں نوجوانوں کی کردار سازی، ذہنی ،جسمانی و نفسیاتی نشونما اور انہیں ہر طرح کے آفات کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔نوجوان کسی بھی معاشرے کی ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں انکی درست سمت میں رہنمائی مستقبل میں علاقے کیلئے انتہائی سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت 8 ہزار سے ذائد نوجوان ہلال احمر کے ساتھ بحیثیت رضاکار رجسٹرڈ ہو چکے ہیں ، جنھیں؛فسٹ ایڈ ، سائیکو سپورٹ اورڈیزاسٹر منجمنٹ کی تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔ ان رضاکاروں کو گلگت بلتستان میں کسی بھی ناگہانی آفت کے اثرات کو کم سے کم کرنے کیلئے تیار کیا جاتا ہے تاکہ ماضی میں ہونے والی بڑی تباہی میں ہونے والے مالی و جانی نقصانات کو کم کیا جا سکے۔ راقم کو ایک عرصے سے ہلال احمر کی سرگرمیاں میں شامل ہونے اور انکی خدمات کو دیکھنے کا موقع ملا ہے اور بحیثیت رضاکار ہلال احمر کے ساتھ کام کرکے نہ صرف نوجوانوں کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے،بلکہ انسانیت کی خدمت کے ایک عظیم کام کی تکمیل بھی ہوتی ہے۔ حال ہی میں انجمن ہلال احمر گلگت بلتستان نے ضلع غذر میں ہر سال کی طرح صوبائی یوتھ کیمپ کا انعقاد کیا جس میں گلگت بلتستان کے ہر ضلع سے نوجوان رضاکاروں نے شرکت کی اس موقع پرانجمن ہلال احمر گلگت بلتستان کے چیئر مین آصف حسین اور صوبائی سیکریٹری نورالعین نے خصوصی کیمپ کا جائزہ لیا اور کیمپ کے آغاز سے اختتام تک خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے اس کیمپ کو کامیاب بنایا۔ کیمپ کے دوران گلگت بلتستان کے 30 سے ذائد رضاکاروں کو جسمانی، ذہنی و نفسیاتی تربیت کے ساتھ ساتھ فسٹ ایڈ، ڈیزاسٹرمنجمنٹ اور سائیکو سپورٹ کی تربیت دی گئی ، تین روزہ کیمپ کے دوران نوجوانوں کی کردار سازی پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کے خاتمے کیلئے رضاکاروں کو عملی سرگرمیوں کے ذریعے سوچ میں مثبت تبدیلی لائی جاتی ہے تاکہ معاشرے میں موجود برائیوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اس دوران باہمی ہم آہنگی، بھائی چارہ اور امن و محبت کی کئی مثالیں دیکھنے کو ملیں۔ اس کیمپ کا انعقاد ہلال احمر ہر سال کرتی ہے تاکہ اسل بھر میں نئے رجسٹرڈ ہونے والے نوجوان رضاکاروں کو تربیت فراہم کی جا سکے اور ایک پلیٹ فارم پر انہیں اکھٹا کیا جا سکے۔ اس صوبائی یوتھ کیمپ کے اختتام پر چیئرمین آصف حسین اور سیکریٹری نورالعین نے اپنے خطاب میں کہا کہ رضاکار ہلال احمر میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور جب وہ اس انجمن کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں تو وہ صرف گلگت بلتستان کے رضاکار نہیں بلکہ عالمی سطح پر انہیں تسلیم کیا جاتا ہے۔اس صوبائی یوتھ کیمپ میں انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس / ریڈ کریسینٹ کی کمیونیکیشن آفیسر رابعہ نے بھی خصوصی شرکت کی۔اس کیمپ میں ٓسسٹنٹ ڈائریکٹر یوتھ اینڈ ولنٹئیرزواجد علی،کمیونیکیشن آفیسر صفدر علی صفدر اور سائکو سپورٹ آفیسر عزیز علی نے نوجوانوں کو ٹریننگز دیں جبکہ ہلال احمر کے سینئر رضاکار، حسن رضا، سردار خان، حسین اور وقاص احمد نے انتظامی فرائض سر انجام دئیے۔

اس انجمن کا قیام گلگت بلتستان میں 13 دسمبر2008 میں عمل میں لایا گیا تھا ۔اس وقت ریٹائرڈ میجر میرباز خان نے بحیثیت چیئرمین اس کی ذمہ داریاں سنبھالی جبکہ معروف سماجی شخصیت آصف حسین نے بحیثیت سیکریٹری اس ادارے کو فعال کرنے کا بیڑا اٹھایا، سال گزرتے رہے اسی دوران آصف حسین نے سیکریٹری کے عہدے سے استعفی دے دیا اور رضاکارانہ طور پر چیئرمین کی ذمہ داریاں قبول کیں ،جبکہ معروف ماہر تعلیم غلام عباس اس ادارے کے سیکریٹری تعینات ہوئے،حال ہی میں سابق مشیر تعلیم و معروف سماجی و سیاسی شخصیت نورالعین نے بحیثیت سیکریٹری اس قومی ادارے کی بھاگ دوڑ سنبھالی ہوئی ہے۔2008 میں جب اس ادارے کا قیام عمل میں آیا تھا اس دوران انتہائی کم وسائل اور محدود سٹاف تھا باوجود اسکے ادارے کے ساتھ منسلک ذمہ داران نے دن رات محنت کر کے اس ادارے کو اس قابل بنایا کہ سال 2010 کے عطاء آباد ڈیزاسٹر کے دوران ہر اول دستے کا کردار ادا کیا اور اس ادارے سے وابستہ نوجوان رضاکاروں نے خدمت خلق کی کئی مثالیں قائم کیں ۔عطاء آباد ڈیزاسٹر کے بعد ایک دن راقم کسی کام کے سلسلے میں ہلال احمر کے صوبائی سیکریٹری آصف حسین کے پاس بیٹھا تھا اتنے میں چہرے پر غم کے آثار لئے ایک نوجوان خاتون رضاکار آفس میں داخل ہوئی ،ساتھی رضاکاروں نے بتایا کہ جب وہ عطاء آباد کے دور افتادہ ایک میڈیکل کیمپ میں متاثیرین کی خدمت کر رہی تھی ایسے میں اسے اسکے والد کے انتقال کی خبر ملی ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر آفس میں بیٹھے سبھی افراد کی آنکھیں نم ہوگئی ، ہمت و بہادری اور ایثار کی ایسی کم ہی مثالیں ملتی ہیں جہاں مشکل کی گھڑی میں اپنے ماں باپ،اور بہن بھائیوں سے دور دکھی انسانیت کی خدمت کے جزبے سے سرشار رضاکار ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہوتے ہیں ہم ایسے رضاکاروں کو سلام پیش کرتے ہیں جنھوں نے آزمائش کی گھڑی میں لوگوں کو ریلیف پہنچایا۔ ضلع گانچھے کے دور افتادہ گاوں تلس میں سیلاب اور اسکی تباہی کی خبر گلگت پہنچی چیئرمین ہلال احمر بذات خود رضاکاروں کی ٹیم لیکر موقع پر پہنچے اور بے سرو سامانی کا شکار متاثیرن کی داد رسی کی، دوسری طرف متاثرین کی ہر ممکن مدد کیلئے سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ اس دوران راقم کو اپنی پیشہ ورانہ سرگمیوں کے سلسلے میں متاثرہ گاوں کا دورہ کرنے کا اتفاق ہوا ، اس آفت کے دوران 131 گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے تھے لوگ بے سروسامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہوگئے تھے لیکن ہلال احمر کے صوبائی سٹاف اور رضاکاروں نے متاثرین کی بحالی اور ریلیف کیلئے کام شروع کر دیا تھا جس کی وجہ سے متاثرین کسی حد تک مطمئن ہوگئے تھے۔ہلال احمر نے اس دوران ،متاثرین میں خوراک دوائیاں، ہائی جین کٹ، میڈیکل کیمپ ، ٹینٹ اور متاثر بچوں کی تعلیم کیلئے کیمپ سکول کی سہولیات مہیا کیں۔

گلگت بلتستان میں نوجوانوں کی تربیت اور متاثرین کی بحالی کیلئے کام کرنے والے اس قومی ادارے کی خدمات اپنی جگہ لیکن صوبائی حکومت کی طرف سے نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے اس ادارے کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔پاکستان کے دوگر صوبوں کی حکومت اپنے صوبے میں ہلال احمر کیلئے فنڈز مختص کرتی ہے لیکن ہلال احمر گلگت بلتستان کے لئے صوبائی حکومت نے کسی قسم کے فنڈز فراہم نہیں کئے جسکی بدولت آہستہ آہستہ ادارے کے مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہاہے۔ انجمن ہلال احمر صوبائی سطح پر سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہیڈ آفس سے امداد لینے پر مجبور ہے ۔ صوبائی حکومت ،چیف سیکریٹری اور دیگر ذمہ داران کو چاہیئے کہ اس قومی ادارے کو بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں بصورت دیگر یہ ادارہ مذید نظر انداز کیا گیا تو اسکے دفاتر بند ہونے کا خدشہ ہے جس سے گلگت بلتستان کے ہزاروں نوجوانوں کا مستقبل بھی وابستہ ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

ایک کمنٹ

Back to top button