کالمز

سوچ کب بدلے گی؟

کہا جاتا ہے کہ مستقبل کی تعمیر میں ما ضی اور حال اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ گلگت بلتستان کے حالات اور واقعات کا جائزہ لیں تو ماضی سے حال کے سفر میں بہت سے نشیب و فراز کا پتہ ملتاہے۔ اس سفر میں جہاں خوشیاں نظر آتی ہیں، وہیں دل ہلا دینے والے واقعات بھی دل کی ہوک بڑھانے کے لیے موجودہیں ۔کیاما ضی کی غلطیو ں کو دہرانا مناسب ہوگا ، جن کی بدولت آج ہمیں اس دشوار صورت حال کا سامنا ہے یا ان غلطیوں کا ازالہ کرکے ایک اچھے اور روشن مستقبل کی تعمیر کی جائے۔ امرلازم ہے کہ سب کو اچھے اور بہتر مستقبل کی تمنا ہوگی ۔میرا ماننا ہے کہ تعمیری تنقید ہی سے اچھے مستقبل کی راہ ہ ہموار ہوتی ہے۔ ’میں نہ مانوں‘ کی رٹ سے دستبردار ہوکر حقیقت کا سامنا کرنا ایک جرات مندانہ اقدام ہے اور یہ قدم ہمیں اٹھا ناہوگا، ورنہ ہماری سوچ متعصب رہے گی اور عدم برداشت کو شہ ملے گی ۔اس کے اثرات سے تعمیرو ترقی میں خلل پڑے گا۔ اس لیے ہمیں اپنے معاشرتی، سیاسی و اخلاقی رویوں پر نگاہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مثبت ر ویہ کے فروغ سے ایک بہتر معاشرہ تشکیل پاسکے،ہما ری صلاحیتیں صرف علاقے کی تعمیر و ترقی پرصرف ہوں اور گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کا سدباب ہو ، جس نے موذی کینسر کا روپ دھار رکھا ہے ۔

گزشتہ دنوں گلگت میں اتحاد و اتفاق کے فروغ کے حوالے سے دو سیاسی جلسے منعقد ہوئے، جن میں مختلف مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی۔یہ ایک خوش آیند بات ہے ۔ دونوں جلسوں کے موضوعات بہت اہم تھے۔ایک کا دفاع وطن اوردوسرے کا اتحاد امت ۔موجودہ وقت ان دونوں موضوعات پر سنجیدہ غورو غوص کا تقاضہ کرتا ہے۔ دفاع وطن کا ذکر کیا جائے تو وطن سے مراد ہم اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد ہی لیتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ اتحاد و اتفاق کا حشر ہمارے سامنے ہے ۔ بظاہر یہ جلسے یا کانفرنس علاقے میں امن و آشتی اور بھائی چارہ کی فضا قائم کرنے کے لئے منعقد ہوئے تھے لیکن بدقسمتی سے ان میں سیاسی اور مذہبی عنصر نمایا ں رہا اور اصل موضوعات پس منظر میں چلے گئے۔ شائد کچھ لوگوں اس بات سے اتفاق نہ کریں لیکن ان دو جلسوں کے بعد لوگوں میں اتحاد و اتفاق کی بجائے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ صرف ایک سیاسی نماز سے امت کے اختلافات کا تدارک نہ ہوسکے گا ۔عقائد اور تعلیمات میں معمولی فرق ایک حقیقت ہے ۔ہمیں دوسرے تمام فرقوں کو ان کے عقائد کے ساتھ قبول کرنا ہوگا۔فروعی اور معمولی اختلافات پر سے صرفِ نظر کرکے مشترکات کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔

اب زمانہ بدل چکا ہے۔ کئی ممالک ہمارے بعد آزاد ہوئے مگر انھوں نے اپنے لیے ایک لائحہ عمل تیار کیا اوراس پر عمل پیرا ہوئے۔ آج وہ دنیا کے نقشے میں سپر پاورز کہلاتے ہیں۔ ہمسا یہ ملک چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جب اس کے مقابلے میں اپنے ملک کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو مسائل کے انبار کے سواکچھ نظر نہیں آتا، ہمارے علاقے کے تمام مسائل کی جڑیں فرقہ واریت میں ہیں، جس کے باعث ہم پستی کی طرف چلے گئے ہیں، جہاں صرف ناامیدی کا اندھیرا ہے ۔

اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ پاکستانی سیاست میں ملٹری اور سول بیوروکریسی کا بڑا رول ہے جوراتوں رات سیاسی پارٹیاں بنانے اور وفاداریاں تبدیل کرانے کے فن سے خوب واقف ہیں۔ اس روایت نے بھٹو جیسے عوامی لیڈر کو بھی سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے پر مجبور کر دیا اور یہ کھیل ہنوز جاری ہے۔ اس لیے گلگت بلتستان کی سیاسی و سماجی معاملات میں اس عنصر کو خارج از امکان نہیں سمجھا جا سکتا ۔ ستر کی دہائی سے پہلے تک گلگت بلتستان کی سیاست پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے عمل دخل سے با لکل آزاد تھی۔ سیاسی شعور بہت اچھی بات ہے لیکن اس سیاسی شعور کا کیا فائدہ جس کے پیچھے مذہب ، قومیت اور دیگر خرافات کارفرماہوں،سیاست دان اپنے مفادات کو عزیز تر رکھیں اور لوگوں کے خون سے اپنی کوٹھیاں تعمیر کریں ۔اس سے تو بہتر ہے کہ انسان ا جڈ اور جاہل ہی رہے ۔

بظاہر یہ دوجلسے گلگت بلتستان سے ڈوگرہ راج کے خاتمے کے جشن کے حوالے سے تھے لیکن اصل میں یہ گلگت بلتستان میں اگلے سال ہونے والے الیکشن کی تیاری کا نقطہ آغاز تھا اور لگتا ایسا ہے کہ اس سیاسی دنگل میں کودنے کے لیے دوسری سیاسی پارٹیاں بھی پر تول رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل رضا عابدی اپنے دور حکومت میں یہاں کے عوام کے حقوق سے بے خبر رہے اور جلسے میں سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دینے کی ہدایات دیکر چلے گئے۔ جماعت اسلامی نے اپنا اصولی موقف دہرایا ۔سننے میں یہی آرہا ہے کہ جمعیت العلماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن صاحب کی تشریف آوری بھی ہو رہی ہے اور یہاں کے لوگ ان کی قدم بوسی کے لیے بیتاب ہیں۔بدقسمتی سے ہماری سوچ اس سے آگے نہیں بڑھ سکی۔اب دیکھتے ہیں کہ جمعیت العلماء اسلام کے سربراہ گلگت بلتستان کے عوا م کو کیا تحفہ دیتے ہیں۔یہ طے ہے کہ ان تمام سیاسی پارٹیوں کے پاس گلگت بلتستان کے حوالے سے کوئی روڈ میپ موجود نہیں ۔ ہر پارٹی کے رہنما محض وعدے اور باتیں کرتے ہیں ، یہ ہوگا، وہ ہوگا کے علاوہ کوئی ٹھوس منصوبہ ان کے پاس نہیں، یہ محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے۔گلگت بلتستان کے عوام پچھلے ستاسٹھ سالوں سے اس ہوگا اور ہوگی پر یقین کیے ہوئے ، فرقہ واریت کے کینسرمیں مبتلا،آئینی حقوق سے محرو م اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں۔اگر اب بھی ہم اپنی سوچ نہیں بدلتے اور اپنے رویوں پر نظرثانی کرکے اپنی راہ متعین نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ ہم نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔۔اب نہیں تو جانے ہماری سوچ کب بدلے گی ؟

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button