مسائل میں گھری جنت نظیر وادی نلتر
سابق ممبریونین کونسل نلتر پائین شیخ اظہار حسین نے کہا کہ گرشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو روشن آباد کو نلتر پائین سے ملانے والی لنک روڈ زمین سرکنے کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے. 120 گھرانوں کے لئے یہ لنک روڈ آمد ورفت کا واحد ذریعہ تھا، نومبر کی 26 تاریخ سے شدید مشکلات میں گھرے ہیں۔ لینڈ سلانیڈنگ کے باعث 6 گھرانے براہ راست متاثر ہو چکے ہیں اور متاثرین اپنے گھر خالی کر کے رشتہ داروں کے ہاں مقیم ہیں۔ اس سردی میں ان متاثرین کو اپنے سر چھپانے کے لئے دوسرا گھر نہیں ہیں۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ 6 گھرانوں کی مدد کی جائے اور ان کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ زمین سرکنے کے حادثے کے بعد بھی اب تک حکومت کی طرف سے کو ئی بھی عہدیدار اس علاقے میں نہیں آیا ہے ۔ گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ن) کے رہنماجعفر اللہ خان نے دورہ کرکے متاظرین سے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔
انہوں نے شکایت لگائی کہ وہ متعدد بار ڈپٹی کمشنر گلگت اور ایل جی آر ڈی کے اعلیٰ حکام کو آگاہ کر چکے ہیں لیکن اُنہوں نے کوئی توجہ نہیں دی اور آج لنک روڈ کٹ جانے کے باعث 120 گھرانے نلتر کے دیگر علاقوں سے کٹ چکے ہیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ نلتر روشن آباد کے ملانے والا پل بھی پائیدار نہیں ہے کسی بھی وقت یہ پل پانی کی زد میں آسکتی ہے۔ اس پل کو بچانے کے لئے پل کے سائیڈ پر حفاظتی دیوار تعمیر کیا جائے۔
تعلیمی محرومیاں
موجودہ دور میں تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ مگر ہمارے حکمران کی ہٹ دھرمی اور کج نظری کی وجہ سے ہمارے بچے علم سے محروم ہیں. ان خیالات کا اظہار کلب علی سابق یونین کونسلر،صابرحسین اور بشارت نے سروئے ٹیم سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ اُنہوں نے کہا کہ نلتر پائین میں بوائز مڈل سکول گزشتہ 6 سال مکمل نہیں ہو رہا ہے ۔ ٹھیکیدار سکول کی عمارت کو نامکمل چھوڑ کرغائب ہو گیا ہے ۔ محکمہ تعلیم بھی اس سکول کی طرف توجہ نہیں دے رہا ہے۔ 6 سال سے نامکمل عمارت میں لوگ اپنے کپڑے دھوتے ہیں اور مویشی باندھتے ہیں۔ عمارت سکول نہیں مویشی خانہ لگتا ہے۔ پرائمری سکول روشن آباد نلتر میں کی عمارت بھی خستہ حالی کا شکار ہے سکول کی عمارت ایسے جگہ پر تعمیر کیا گیا ہے کہ جہاں سلاینڈ نگ ہر وقت ہوتی ہے والدین خطرے کے باعث اپنے بچوں کو سکول بجھوانے سے کتراتے ہیں۔ اساتذہ کی کمی کے باعث سکول میں تعلیم کا نظام درہم برہم ہے۔ بوائز ہائی سکول میں ایک استاد کی پوسٹ پر ایک غیر مقامی خاتون کو بھرتی کیا گیا ہے جو شروع دن سے ہی غائب ہے۔اُنہوں نے چیف سکرٹیری سے مطالبہ کیا کہ متعلقہ ٹھیکیدار کے خلاف کاروائی کیا جائے اور ہمارے بچوں کی مستقبل کو بچانے کے لئے سکول میں ٹیچرز تعنیات کیا جائے.
صحت کے مسائل
عمائدین نلتر روشن آباد صابر حسین، عبدالغفور، علی موجود نے سروئے ٹیم سے گفتگو کرتے ہو کہا کہ نلتر بالا اور پائین کو محکمہ صحت نے ہمیشہ نظر انداز کیا ہے۔ 400 گھرانوں پر مشتمل نلتر پائین میں ڈسپنسری کی سہولیت تک موجود نہیں ۔ 1999 سے کئی بار محکمہ صحت اور سابق چیف سکرٹیری کو درخواست دے چکے ہیں کہ نلتر میں ایک ڈسپنسری قائم کیا جائے۔ لیکن ہماری شنوائی نہیں ہوئی ۔ ایک فسٹ ایڈ پوسٹ موجود ہے لیکن اس میں سہولیات میسر نہیں ہیں ۔ مریضوں کو میلوں دور نومل یا گلگت لے جانا پڑتا ہے۔ روڈ کی خستہ حالی کے باعث مریض راستے میں دم توڑجاتے ہیں ۔اُنہوں نے چیف سکرٹیری سے مطالبہ کیا ہے کہ نلتر کے عوام کو مشکلات کو کم کرنے کے لئے کم ازکم ایک ڈسپنسری تعمیر کیا جائے۔اُنہوں نے کہا کہ محکمہ صحت کو یقین داہائی کرانے کے باوجود کہ ڈسپنسری کے لئے زمین بلا معاوضہ فراہم کرے گے۔ مگر صوبائی حکومت اور محکمہ صحت مسلسل غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اگر ہمیں نظر انداز کیا گیا توا حتجاج کا حق رکھتے ہیں.
نلتر روڑ کی حالت زار
2010 کے سیلاب کے بعد نلتر روڈ مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے تین سال سے زاہد عرصہ گزرنے کے باوجود اس کی طرف توجہ نہیں دیا گیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار منظور علی شاہ نواز ولایت علی نے سروئے ٹیم سے گفتگو کرتے ہوئے کیا. انہوں نے کہا کہ روڈ کی خستہ حالی کے باعث آئے روز حادثے رونما ہوتے ہیں۔ عوام اپنے ضروریات زندگی گلگت سے لانا پڑتا ہے لیکن روڈ کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ نلتر میں آلو کی کاشت کے لئے ذرخیز ہے لیکن روڈ نہ ہونے کے باعث عوام اپنے ،۔آلو ، ٹماٹر، پیاز اور دیگر زرعی منصوعات شہر تک لے جانے میں دشواری درپیش ہے۔ اُنہوں نے کہا صحت کی سہولت نہ ہونے کے باعث مریضوں کو شہر لے جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے۔اُنہوں نے ارباب احتیار سے مطالبہ کیا ہے کہ نلتر کی شاہراہ کی مر مت جلدازجلد کی جائے ۔